شمیم علیم
ہندوستان کی پارلیمنٹ میں اقلیتی جماعت کے نمائندے جو صحیح طور پر مسلمانوں کے مسائل پیش کرسکیں، انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں ۔ ہماری خوش فہمی ہے کہ اس زمانہ میں جب مسلمانوں کی زبان کو کچلا جارہا ہے ، ایک ایسی شخصیت ابھر کر آئی جس نے ایک سال سے کم عرصہ میں لوک سبھا میں اپنا سکہ جمالیا اور لوگوں کا دل جیت لیا ۔ یہ ایک تیس سالہ خاتون اقراء حسن جسے سیاست وراثت میں ملی ہے ، ان کے دادا ، والد ، والدہ اور بھائی سبھی نے سیاست میں اپنا جھنڈا گاڑھ دیا۔
ان کے والد منور حسین نے تقریباً 20 سال تک لوگوں کی خدمت کی۔ انہوں نے ریاست کے دونوں ایوانوں میں پھر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اپنی عظمت کا جھنڈا گاڑھ دیا ۔ آج بھی لوگ انہیں شیر کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ اقرائانہیں کی سب سے چھوٹی صاحبزادی ہے۔ یہ اگست 1994 ء میں پیدا ہوئیں ان کی والدہ تبسم بیگم اس وقت ایک گھریلو خاتون تھیں لیکن وہ نہایت دور اندیش اور سمجھدار خاتون تھیں ۔ ان کی ساری توجہ اپنے دونوں بچوں کی تعلیم کی طرف تھی لیکن گھر کا ماحول اس کے لئے مناسب نہیں تھا کیونکہ ان کے گھر کے دروازے ہمیشہ لوگوں کیلئے کھلے رہتے تھے ۔ لہذا انہوں نے فیصلہ کیا کہ دونوں بچوں کو ہاسٹل میں بھیج دیا جائے ۔ اس وقت ان کا بیٹا ناہید حسن صرف 3 سال کا تھا ۔ دودھ کی بوتل چھوڑواکر اسے دہرہ دون کے اسکول میں بھیج دیا گیا ۔ اقرائپانچ سال کی عمر سے دہلی کے مختلف اسکول اور کالج میں پڑھتی رہیں اور بیس سال گھر سے دور انہوں نے دہلی میں گزارے ۔ انہوں نے کوئین میری اسکول سے میٹرک کیا ، پھر Lady Sriram College سے بی اے اور پھر Law Faculty جوائن کیا ، پھر لندن کے مشہور School of Oriental and African Studies (SUAS) سے ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔ ان کا ارادہ پی ایچ ڈی کرنے کا تھا لیکن شائد یہ خدا کو منظور نہیں تھا ۔ جب وہ چھٹیوں میں اپنے گھر آئیں تو نہ صرف یہاں کووڈ پھیلا ہوا تھا بلکہ ان کے بھائی جو ایم ایل اے تھے ، ان پر غلط الزام لگاکر جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا گیا ۔ ان کے بینک اکاؤنٹ منجمد کردیئے گئے ۔ گھر میں صرف والدہ تھیں ، اقرائجو اب تک صرف پڑ ھائی میں مصروف تھیں، جنہیں عملی اور سیاسی زندگی کا کوئی شعور نہیں تھا ۔ اچانک ان کے گاندھوں پر ذمہ داریوں کا انبار ٹوٹ پڑا ۔ الیکشن کا زمانہ تھا ، اقراء کو اپنے بھائی ناہید حسن کی سیٹ کیلئے گھر گھر جاکر ووٹ مانگنا تھا ۔ ان کے لئے پہلا موقع تھا لیکن لوگ اس سادگی اور خلوص سے اتنے متاثر ہوئے کہ ناہید حسن جیل میں رہنے کے باوجود الیکشن جیت گئے ۔
اس جیت سے سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو بہت متاثر ہوئے ، انہیں اقراء میں ایک امید کی نئی کرن نظر آئی اور انہوں نے اتنی کم عمری میں Kairana سے ان کو لوک سبھا کا ٹکٹ دے دیا اور انہوں نے اپنے مخالف چودھری کو (جو BJP سے تھے) کو ساڑ ھے سات لاکھ ووٹوں سے شکست دی اور انہوں نے جون 2024 میں پارلیمنٹ میں قدم رکھا۔ یہ بات یہاں قابل ذکر ہے کہ Kairana میں مسلمانوں کی تناسب صرف 35% ہے۔ لہذا یہ صاف ہے کہ ان کی جیت میں بہت برا حصہ غیر مسلموں کا ہے ۔ اسی لئے وہ ہمیشہ کہتی ہیں کہ میں Kairana کی بیٹی ہوں اور میں سب کیلئے کام کروں گی۔
اقراء کو پارلیمنٹ میں داخل ہونے ابھی ایک سال بھی نہیں ہوا لیکن ان کے چاہنے والوں کی فہرست میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ انہیں ہندی اور انگریزی دونوں زبانوں پر عبور ہے ۔ وہ کبھی گھما پھرا کر بات نہیں کرتیں بلکہ سیدھے سادھے اپنا نقطہ نظر بیان کرتی ہیں ۔ وہ کسی کو گالیاں دیتی ہیں نہ گڑھے مردے اکھاڑتی ہیں ۔ وقف بل پر جس طرح انہوں نے دلائل کے ساتھ اپنا نقطہ نظر پیش کیا وہ نہایت قابل تعریف ہے اور سپریم کورٹ بھی ان کے دلائل سے متفق تھا ۔ اقرائنے چیختی ہیں نہ چلاتی ہیں مگر نہایت بے باکی سے عزم کے ساتھ اپنی بات کہہ دیتی ہیں ۔ رمضان میں یوگی نے ایک حکم جاری کیا کہ سڑ کوں پر نماز نہیں ہوگی۔ تب انہوں نے ایک عزم کے ساتھ کہہ دیا کہ نماز تو سڑکوں پر ہی ہوگی اور اسے کوئی نہیں روک سکتا اور اس کے بعد یوگی کی ہمت نہیں ہوئی کہ مسئلہ پر کچھ کہتے اور لوگوں نے نماز سڑکوں پر پڑھی اقراء آئندہ یو پی کے چیف منسٹر کا چہرہ ہوں گی لیکن شائد وقت کا انتظار کرنا ہوگا ۔
جب پارلیمان کا سیشن نہیں ہوتا تب دوسرے ممبران کی طرح مسجد میں منہ چھپاکر کہیں بیٹھ جاتیں بلکہ اپنی Constituency کا دورہ کرتی ہیں۔ ہر گلی اور کوچہ میں جاتی ہیں۔ عوام کے غم اور خوشی میں شریک ہوتی تہیں۔ ان کے ساتھ ایک جم غفیر رہتا ہے جس میں بہت سے آفیسرس بھی ہوتے ہیں۔ راستہ میں ہی بہت سے لوگ اپنی عرضیاں دے دیتے ہیں اور وہ فوراً انہیں اس کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ یہ شائد پہلا موقع ہے کہ ان آفیسرس کو ایک خاتون سے حکم لینا پڑتا ہے ۔ اکثر آفیسرس تو ان سے آنکھ ملاکر بات بھی نہیں کرسکتے ۔
اقراء حسن گنگا جمنی تہذیب کو واپس لانے کی کوشش کر رہی ہیں ۔ جب ان کے حریف پردیپ چودھری کی بیٹی کی شادی تھی ، تب انہوں نے پارلیمان کا سیشن چھوڑ کر اس شادی میں شرکت کی ۔ لوک سکتہ میں آگئے ، ان کا پیام تھا کہ پرانی عداوت کو پھول کر ایک نیا ماحول بناؤ ۔
اقرا ء حسن کی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ کم ہے ۔ ان کی سیدھی سادی شخصیت ، آنکھوں میں چمک ، ہونٹوں پر صدا مسکراہٹ ، سر پر پلو ، اتنی پرکشش ہے کہ ہر شخص کا دل جیت لیتی ہے۔ بس دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ خدا وندی تعالیٰ نے ہمارے بیچ ایک فرشتہ بھیج دیا ہے ۔ کاش ہمارے نوجوان لڑکے لڑ کیاں ان کے قدموں پر چل کر ہندوستان کو ایک جیت بناسکیں۔