اقوام متحدہ کا ہنگامی اجلاس: روس کا یوکرین پر حملہ کا دفاع

,

   

یوکرین جنگ کے متاثرین کیلئے ایک منٹ کی خاموشی، اکثریت کاروس کی مذمت میں ووٹ دینے کا امکان

نیویارک : ماسکو یوکرین کے بحران پر بین الاقوامی سطح پر بہت تیزی سے الگ تھلگ پڑتا جا رہا ہے اور توقع ہے کہ اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی واضح اکثریت روس کے اقدامات کی مذمت میں ووٹ کرے گی۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا جب ہنگامی اجلاس پیر کو شروع ہوا تو سب سے پہلے 193 ارکان نے یوکرین میں جاری جنگ کے متاثرین کے لئے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی۔ جنرل اسمبلی کا یہ اجلاس ماسکو کی ’’جارحیت‘‘ کی مذمت کی قرارداد پر بحث کے لئے طلب کیا گیا ہے جس میں تقریبا ً تمام رکن ممالک کے مندوبین شرکت کر رہے ہیں۔اجلاس کے دوران اس مسئلے پر روس نے اپنے آپ کو تیزی سے الگ تھلگ پا یا، تاہم اقوام متحدہ کی 77 سالہ تاریخ میں اس 11ویں خصوصی اجلاس کے دوران اس نے تشدد کا الزام کیف پر عائد کرتے ہوئے یوکرین کے خلاف اپنے ’’فوجی آپریشن‘‘ کا دفاع بھی کیا۔اسمبلی کے اراکین روس کے اقدامات کی علامتی طور پر مذمتی قرارداد پر ووٹ کے لئے تیار ہیں۔ تاہم اسے صرف ماسکو کی جارحیت کی مذمت کے لئے ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں پھیلی ہوئی آمریت کے خلاف عالمی موقف کے ایک اہم بیرومیٹر کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں کوئی بھی ویٹو پاور رکھنے والا ملک کسی بھی تحریک یا قرارداد کو اپنی ایک ووٹ سے ہی ناکام بنا سکتا ہے، جیسا کہ روس نے جمعہ کے ہنگامی اجلاس میں کیا تھا، تاہم جنرل اسمبلی میں معاملہ الگ ہے جہاں متفقہ طور پر نہیں تو دو تہائی اکثریتی ووٹ بھی سے قرارداد منظور ہوسکتی ہے۔امکان ہے کہ چہارشنبہ کو جب ماسکو کے اقدامات کی مذمتی قرارداد پر ووٹنگ ہو گی، تو شام، ہندوستان اور چین جیسے ملک یا تو اس قرارداد کے خلاف ووٹ کریں گے یا پھر اس میں حصہ نہیں لیں گے۔ تاہم جو اس قرارداد کے پیچھے ہیں انہیں توقع ہے کہ کم سے کم 100 ارکان اس کی حمایت کریں گے۔اقوام متحدہ میں یوکرین کے سفیر، سرگئی کیسلیٹس نے اسمبلی سے اپنے خطاب میں روس پر شدید تنقید کی اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن کی جانب سے نیوکلیئر ہتھیاروں کو تیاری میں اضافہ کرنے کے فیصلے کو’’پاگل پن‘‘ قرار دیا۔ انہوں نے ماسکو پر رہائشی عمارتوں اور شہری انفراسٹرکچر کو نشانہ بنانے کا الزام لگایا اور اس کی انہوں نے ’’جنگی جرائم‘‘ کے طور پر مذمت کی۔ انہوں نے اجلاس کے دیگر مندوبین کو روس کے حملے کے نتائج سے خبردار کیا۔ان کا کہنا تھا کہ اگر یوکرین نہیں بچتا ہے تو بین الاقوامی امن بھی نہیں بچے گا۔ اگر یوکرین نہیں بچتا ہے تو اقوام متحدہ بھی نہیں بچے گا… اگر یوکرین نہیں بچتا، تو جمہوریت کی ناکامی پر بھی ہمیں حیرانی نہیں ہونی چاہیے۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے بھی اس موقع پر تشدد کی مذمت کی۔ انہوں نے کہاکہ بہت ہو چکا ہے۔ اب فوجیوں کو اپنے بیرکوں میں واپس جانے کی ضرورت ہے۔ رہنماؤں کو امن کی طرف بڑھنے کی ضرورت ہے۔ شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا چاہیے۔