یو این انسانی حقوق کے سربراہ فولکر ترک نے اسرائیلی بستیوں کی پالیسی کو جنگی جرم قرار دیا، اے ایف پی کی رپورٹ
نیویارک۔ 27 ستمبر (یو این آئی) اقوام متحدہ نے غیر قانونی اسرائیلی بستیوں میں سرگرم کمپنیوں کے طویل عرصے سے منتظر ڈیٹا بیس کا نیا ورژن جاری کر دیا، جس میں 11 ممالک کی 158 فرمز کو شامل کیا گیا ہے۔ ڈان نیوز میں شائع فرانسیسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ فولکر ترک نے مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینی علاقے پر اسرائیلی بستیوں کی پالیسی کو ’جنگی جرم‘قرار دیا ہے ۔ اس غیر جامع ڈیٹا بیس میں دکھایا گیا ہے کہ ایئربی این بی، بُکنگ ڈاٹ کام، موٹرولا سلوشنز اور ٹرِپ ایڈوائزر جیسی بڑی کمپنیاں فہرست میں شامل ہیں، جب کہ کچھ دیگر کمپنیوں کو نکال دیا گیا ہے ۔ زیادہ تر کمپنیاں اسرائیل میں قائم ہیں، جب کہ دیگر امریکہ، برطانیہ، فرانس، کینیڈا، جرمنی، چین، لکسمبرگ، نیدرلینڈز، اسپین اور پرتگال میں واقع ہیں۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کی رپورٹ میں کمپنیوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ اپنی سرگرمیوں سے انسانی حقوق پر پڑنے والے منفی اثرات کو دور کرنے کے لیے ’مناسب اقدامات‘ کریں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جہاں کاروباری ادارے یہ شناخت کریں کہ انہوں نے انسانی حقوق پر منفی اثرات ڈالے ہیں یا اس میں تعاون کیا ہے ، انہیں چاہیے کہ وہ مناسب عمل کے ذریعے ازالے کے عمل میں تعاون کریں یا خود فراہم کریں۔ ترکیہ نے ایک بیان میں کہا کہ یہ رپورٹ تنازع کے سیاق میں کام کرنے والی کمپنیوں کی اس ذمہ داری کو اجاگر کرتی ہے کہ وہ مناسب جانچ پڑتال کریں تاکہ ان کی سرگرمیاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں حصہ نہ ڈالیں۔ یہ فہرست پہلی بار 2020 میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے سخت اسرائیلی تنقید کے باوجود تیار کی تھی۔ یہ اُس وقت سامنے آئی تھی، جب 4 سال قبل اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے ایک قرارداد منظور کی تھی، جس میں غیر قانونی طور پر قبضہ کیے گئے فلسطینی علاقے میں کاروبار سے منافع کمانے والی کمپنیوں کا ڈیٹا بیس تیار کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر سے کہا گیا تھا کہ وہ ایسی کمپنیوں کی نشاندہی کرے جو 10 مخصوص سرگرمیوں میں شامل ہیں، جن میں تعمیرات، نگرانی، انہدام اور اسرائیلی بستیوں میں زرعی زمین کی تباہی شامل ہیں، جن میں مشرقی یروشلم بھی شامل ہے ۔ دفتر نے زور دیا ہے کہ کمپنیوں کو ڈیٹا بیس میں شامل کرنا عدالتی عمل ہے نہ نیم عدالتی اور نہ ہی اس کا مقصد یہ ظاہر کرنا ہے ۔ دفتر نے کہا کہ 2023 میں شائع ہونے والی فہرست میں کل 68 نئی کمپنیاں شامل کی گئی ہیں، جب کہ 7 کو فہرست سے نکال دیا گیا ہے ، کیوں کہ وہ اب متعلقہ سرگرمیوں میں شامل نہیں پائی گئیں۔
مزید بتایا گیا کہ یہ فہرست جامع نہیں ہے ، کیوں کہ اسے موصول ہونے والی 596 کمپنیوں میں سے صرف 215 کا جائزہ لینے کا وقت ملا تھا۔