محمد مصطفی علی سروری
صبح سات بجے کاو قت ہوا چاہتا ہے۔ شہر کی ایک مشہور مسجد کے باہر کا منظر ہے جہاں پر بلدیہ کے صفائی ورکرس اور مسجد کے دروازے پر بیٹھے بھیک مانگنے والوں کے درمیان جھگڑا چل رہاہے۔ اس جھگڑے کو سن کر مسجد کے اندر سے اور باہر کے بھی کچھ لوگ اطراف جمع ہوگئے تھے۔ تفصیلات معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ بلدیہ کے جھاڑو دینے والی عورتیں چاہتی تھیں کہ مسجد کے سامنے جب صفائی کی جارہی ہے اور جھاڑو دے کر کچرے کو اٹھایا جارہا ہے تو وہاں سے بھیک مانگنے والے چلے جائیں لیکن مسجد کے باہر بھیک مانگنے والوں کا اصرار تھا کہ مسجد میں ابھی لوگ ہیں جو باہر نکلیں تو انہیں پیسے مل سکتے ہیں۔ ادھر جھاڑو دینے والی بلدیہ کی عورتوں کا اصرار تھا کہ بھیک مانگنے والے مسجد کے دروازے سے ہٹ جائیں تاکہ وہ اپنی ڈیوٹی انجام دیتے ہوئے صفائی کرسکیں۔
جھگڑا اس قدر طویل ہوگیا کہ بھیک مانگنے والی ایک عورت نے صفائی کرنے والی ایک عورت سے مارپیٹ شروع کردی۔ بھیک مانگنے والی خاتون کا الزام تھا کہ صفائی والی عورت نے جھاڑو دے کر اس پر کچرا اچھالا۔ جلد ہی بلدیہ کا سپروائزر وہاں پر پہنچ گیا اور پھر مسجد کے اطراف موز اور ترکاری بیچنے والے بھی وہاں جمع ہوگئے اور بالآخر مسجد کے دروازے پر قبضہ جمائے فقیر وہاں سے بھاگ نکلے۔ بلدیہ کی جھاڑو دینے والی عورتوں نے بھیک مانگنے والوں کو برا بھلا کہتے ہوئے اپنے صفائی کے کام کو شروع کیا اور وہاں پر پڑی کھانے کی تھیلیوں اور دوسرے کچرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگیں کہ ارے یہ دیکھو صاحب یہ مانگنے والے اپنے پیچھے کیسا کچرہ چھوڑ کر جاتے ہیںاور یہ مسجد کو آنے والے، کھانا بھی انہیں کو دیتے اور پیسے بھی انہیں کو دے کر جاتے ہیں اور ہم لوگ اگر صفائی میں کوتاہی کریں یا تاخیر کریں تو ہمارا سوپر وائزر ہمیں غصہ کرتا ہے اور یہ مانگنے والے باسی کھانا تو ویسے ہی چھوڑ دیتے ہیں اور کھانا اچھا بھی ہو تو اس میں اپنی پسند کی چیز نکال کر باقی ویسے ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ سوپر وائزر بہت اصرار کے بعد بتلاتا ہے کہ ’’کیا بولنا صاحب اگریہ صفائی والے کسی دن اپنا کام نہ کریں تو فوری کوئی نہ کوئی Complain کردیتا ہے کہ ہماری مسجد کے پاس صفائی نہیں ہوئی۔ ڈی ڈی ٹی پائوڈر نہیں ڈالے بول کر اور پھر پریشانی ہمارے کو ہوتی ہے۔‘‘
قارئین سوپروائزر نے ایک بڑی ہی حساس بات بتلادی کہ صاحب ہمارے صفائی کرنے والی عورتوں کو اس بات پر بھی غصہ آتا ہے کہ عین اسی وقت جب صفائی ورکر جھاڑو دیتے ہیں تو مسجد سے نکلنے والے وہاں کھڑے ہوکر مانگنے والے ہٹے کٹے لوگوں کو تو پیسے دیتے مگر ان کام کرنے والی عورتوں کو چائے کے لیے نہیں پوچھتے حالانکہ وہی لوگ ہیں جو مسجد کو آنے جانے کا راستہ صاف رکھتے ہیں۔
قارئین بظاہر یہ ایک غیر دلچسپ واقعہ اور غیر ضروری باتیں نظر آتی ہیں مگر وہ لوگ جو غیر مسلم ہیں اور جنہیں ہماری مسجدوں کے اندر آنے کی اجازت نہیں اور جنہیں مسجدوں کے اطراف و اکناف میں رہتے ہوئے اپنا کام کاج کرنا پڑتا ہے وہ تو مسجدوں کے باہر ان کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک سے ہی مسجد جانے والوں کے متعلق اپنی رائے بنائیں گے۔
حیدرآباد گچی بائولی کی ایک سڑک کا منظر ہے۔ جمعہ کا دن ہے اور اسکول کی ایک بس بچوں سے بھری ہے اور مسجد کے باہر ٹریفک جام میں پھنسی ہوئی ہے۔ مسجد میں نماز جمعہ ادا کرنے والے ہائی ٹیک سٹی کی مختلف کمپنیوں کے کئی ملازمین اسی مسجد میں نماز ادا کرتے ہیں۔ عام دنوں میں چند ایک صف مسجد میں بھرتے ہیں۔ اسی مسجد کا منظر جمعہ کے دن بالکل بدل جاتا ہے اور وہی مسجد اپنی تنگ دامنی کا شکوہ کرتی ہے اور بیشتر مصلیوں کی جانب سے مسجد کے باہر سڑک کے دونوں جانب اپنی گاڑیاں، ٹو وہیلرس اور فور وہیلرس پارک کردی جاتی ہیں جس کے نتیجے میں ٹریفک کا بہائو انتہائی سست ہوجاتا ہے، کیونکہ سڑک پر گاڑیوں کے لیے راستہ تنگ ہوجاتا ہے اور جب نماز کے بعد ایک ساتھ مصلی مسجد سے باہر نکل رہے ہوتے ہیں تو ٹریفک گویا جام ہوجاتی ہے۔
قارئین گچی بائولی کے علاقے میں جس اسکول کی بس میں سفر کرنے والے چھوٹے بچے مسلمان نہیں ہیں لیکن ٹریفک جام میں پھنسنے کی دقت انہیں جھیلنی پڑ رہی ہے۔ قارئین یہ مبالغہ آرائی نہیں بلکہ حقیقت بیانی ہے کہ کون شخص یا آج کی نوجوان نسل کا فرد ہے جو ٹریفک میں اپنی گاڑی کے پھنس جانے پر مسرت کا اظہار کرتا ہے۔ قارئین مجھے تو یقین ہے کہ اسکول بس میں سفر کرنے والوں کو اور نہ ہی اس اسکول کے دیگر بچوں کو مذہب اسلام کے بارے میں نہ کسی نے بتلایا ہوگا اور نہ معلومات فراہم کی ہوں گی۔ ہاں ان لوگوں نے مسلمانوں کے متعلق اتنا ہی کچھ سن رکھا ہوگا جتنا میڈیا نے انہیں سنایا ہوگا۔ اب اسکول کی بس میں سفر کرنے والے معصوم بچوں کا مسلمانوں کے متعلق پہلا اور راست تجربہ اس مسجد کے باہر ہونے والی ٹریفک جام کے ذریعہ سے ہوگا۔ جب ٹریفک جام میں پھنسنے کے بعد ان لوگوں نے بس کی کھڑکیوں سے باہر دیکھا ہوگا تو مسجد دیکھی ہوگی بس کے ڈرائیور اور بس میں ان کے ساتھ سوار آئی ماں نے بتلایا ہوگا کہ یہ مسجد ہے اور یہاں مسلمان جمع ہوتے ہیں۔ ان کی جانب سے عین سڑک پر پارکنگ کردینے کی وجہ سے اور پھر ایک ساتھ لوگوں کے سڑک پر آنے سے ٹریفک جام ہوگیا اور اس ٹریفک میں پھنس جانے کے سبب گاڑیوں کو سڑک پر چلانے میں دقت پیش آرہی ہے۔
ہماری مساجد کے باہر وہاں سے گذرنے والے لوگ ہوں یا میڈیا میں شائع ہونے والی مسلمانوں کے متعلق منفی رپورٹس ہوں۔ ان دونوں عناصر نے مشترکہ طور پر غیر مسلم برادران وطن کے ذہنوں میں اتنا کچھ بھردیا ہے کہ جب دعوت و تبلیغ کے لیے بھی مسلمان داعی حضرات، افراد انجمنیں غیر مسلم حضرات تک پہنچ رہی ہیں تو ان کے ساتھ کیسا سلوک کیا جارہا ہے۔ اس کے متعلق تاملناڈو کے تھنجاور (Thanjavur) کے علاقے سے ایک تشویشناک خبر آئی ہے۔ چینائی سے تقریباً 350 کلو میٹرکے فاصلہ پر واقع اس شہر میں 5؍فروری 2019 ء کی رات ساڑھے گیارہ بجے راما لنگم نام کے 42 سال کے ایک کاروباری شخص کا نامعلوم افراد گھر واپسی کے وقت راستہ روک کر قتل کردیتے ہیں۔ (بحوالہ دکن کرانیکل 6؍ فروری 2019)
قارئین اس شخص کے قتل کے الزام میں پولیس نے جملہ 8 افراد کو حراست میں لے لیا، جو کہ مسلمان ہیں ۔ راما لنگم کے قتل کے بعد سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو بڑی تیزی کے ساتھ گشت کرنے لگا۔ یہ 5 ؍ فروری کی صبح ہی ریکارڈ کردہ ویڈیو ہے، جس میں راما لنگم مسلمانوں کے ایک گروپ سے بحث میں الجھا ہوا ہے جو اس کے گائوں میں مذہب اسلام کی تبلیغ کے لیے آئے ہوئے تھے۔ راما لنگم کے حوالے سے TNM ویب سائٹ نے لکھا ہے کہ منگل کے دن صبح میں مسلمانوں کے دعوتی گروپ نے تبلیغ کے لیے ایک ایسی گلی کا رخ کیا جہاں پر دلتوں کی خاصی تعداد رہتی ہے۔ اسی مسئلے پر راما لنگم اور مسلمانوں کے گروپ میں کافی تلخ کلامی ہوئی اور راما لنگم کے بیٹے نے اس سارے واقعہ کو اپنے موبائل میں ریکارڈ کرلیا۔ اب اتفاق سے اسی رات راما لنگم کا گھر واپسی کے دوران پانچ لوگ راستہ روک کر قتل کردیتے ہیں اور پولیس اگلے دن تھنجاور شہر سے آٹھ مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرلیتی ہے اور راما لنگم کے قتل کو اس واقعہ سے جوڑ کر دیکھتی ہے جس میں راما لنگم نے دلت لوگوں کے گھروں پر مسلمان مبلغین کے جانے پر مبینہ طور پر اعتراض کیا تھا۔
اس سارے واقعہ کا حیرت ناک پہلو یہ ہے کہ راما لنگم کا 17 سال کا لڑکا جو اس قتل چشم دید گواہ ہے وہ خبر رساں ادارے (Scroll.in) سے بات کرتے ہوئے کہتا ہے کہ پولیس نے جن نوجوانوں کو میرے والد کے قتل کے مشتبہ ملزمین کے طور پر گرفتار کیا ہے وہ میرے والد کے قاتل نہیں ہیں۔ میں نے ان قاتلوں کو دیکھا ہے وہ ہمارے ٹائون سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔ وہ تو باہر کے لوگ تھے اور ان کے منہ سے شراب کی بو آرہی تھی۔ (بحوالہ Scroll.in)
قتل ہونے والے شخص کا لڑکا خود کہہ رہا ہے کہ پولیس نے جن لوگوں کو گرفتار کیا وہ قاتلین نہیں ہیں لیکن دائیں بازو کی فرقہ پرست تنظیموں کے لیے یہ بڑا آسان رہا کہ وہ راما لنگم کے قتل کا الزام ان لوگوں پر ڈال دیں جو قتل کے دن صبح میں راما لنگم کے ساتھ بحث و مباحثہ میں الجھے ہوئے تھے۔ مسلمانوں کی ان تنظیموں، افراد، اداروں کے لیے تبلیغ اسلام کا کام آسان نہیںہے کیونکہ جن لوگوں تک وہ دین کے حقیقی پیغام کو پہنچانے کے لیے کوشاں ہیں ان تک پہلے ہی سے منفی تاثرات، تجربات اور میڈیا کے ذریعہ پہنچائے جانے والے مشاہدات پہنچ چکے ہیں اور اس پس منظر میں مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے۔ قارئین اس کی ایک مثال یہاں پر ہندوستان کی ایک بڑی اقلیت سکھوں سے لی جاسکتی ہے۔
11؍فروری 2019ء کو ANI نے ایک خبر جاری کی کہ جموں و کشمیر میں موسم کی شدید برفباری کے سبب سری نگر سے جموں جانے والی قوی شاہراہ مسلسل چھ دن سے بند رہ رہی ہے جس کے نتیجے میں سینکڑوں مسافرین، طلبہ اور سیاح ہی نہیں بلکہ شہری بھی راستے میں اپنی منزل سے دور پھنسے ہوئے تھے۔ این ڈی ٹی وی کے مطابق یہ تعداد ہزاروں میں ہے جو 300 کلو میٹر طویل شاہراہ کے بند ہوجانے سے پریشان ہیں۔ یہ شاہراہ دو ایک دن نہیں پورے چھ دن سے بند ہے۔ایسے میں جموں و کشمیر کے ترال سے تعلق رکھنے والے چھنی سنگھ Channi Singh نے سکھوں کی اس سماجی خدمت کا باضابطہ اعلان کیا کہ جموں میں پھنسے ہوئے بھائیوں خاص کر مسلمانوں کے لیے جموں کے سبھی گرودواروں کے دروازے کھول دیئے گئے ہیں۔ ان گرودواروں میں ضرورت مندوں کے لیے نہ صرف مفت کھانے کا انتظام کیا گیا بلکہ قیام کی سہولت بھی فراہم کی گئی۔
غیر مسلم کے لیے مساجد کے دروازے کھول دیئے گئے ان کو مسجدوں کا معائنہ کروایا جارہا ہے لیکن اب وقت آگیا ہے، ہم اسلام کی تبلیغ کے لیے صرف قرآن مجید کے نسخوں، اسلامی لٹریچر کی تقسیم اور تقاریر پر اکتفا نہ کریں بلکہ اپنی مسجدوں کو جو اللہ کا گھر ہیں ۔ اللہ کے بندوں کے ہر طرح کے مسائل اور مشکلات کے حل کرنے کی جگہ بناکر اس اعلیٰ ترین اخلاق کا عملی مرکز بنائیں جس کے متعلق نبی رحمت حضرت محمد مصطفی ﷺ نے ہمیں درس دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم مسلمانوں کے اخلاق و کردار کو مذہب اسلام کی رسوائی کا سبب نہ بنائے اور ہمیں ان تعلیمات کا عملی نمونہ بننے کی توفیق عطا فرما جو حضرت محمد ﷺ نے ساری انسانیت کے لیے اور قیامت تک کے لیے مشعل راہ بنایا ہے۔ آمین یارب العالمین
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)
sarwari829@yahoo.com