روش کمار
کیا کسی اخبار کو انتخابات میں کسی بھی امیدوار کی تائید و حمایت کرنی چاہئے؟ امریکی میڈیا میں اس سوال کو لے کر طوفان مچ گیا ہے۔ میڈیا کے اندر سے ہی چیلنج کی آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔ بہت بحث ہورہی ہے کہ صحافت کیا ہے اور اس کا کام کیا ہے؟ ہندوستان میں گودی میڈیا کی وجہ سے عوام اور جمہوریت کو کتنا نقصان پہنچا؟ یہ خوش ہونے والی بات نہیں ہے کہ امریکہ میں بھی وہی ہورہا ہے بلکہ آپ کو فکر مند ہونا چاہئے کہ انتخابات پر کنٹرول کے ذریعہ غلامی کا نیا دور آگیا ہے۔ فی الوقت عوام کی یہ ذمہ داری ہے کہ میڈیا کو اچھی طرح سمجھیں اور دیکھیں کہ میڈیا آپ کے ساتھ کیا کررہا ہے۔ امریکہ کا ایک اخبار ہے واشنگٹن پوسٹ اس نے صدارتی انتخابات میں کسی بھی امیدوار کی تائید و حمایت کرنے سے انکار کردیا ہے۔ اسی بات سے ناراض ہوکر واشنگٹن پوسٹ کے دو لاکھ سبسکرائبرس نے خود کو اخبار سے الگ کرلیا ہے۔ یہ لوگ اپنا سبسکرپشن پلان کینسل کرنے کے اسکرین شاٹ ٹوئٹر پر ڈال رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ہمارے اخبار نے بزدلی کا مظاہرہ کیا۔ اس لئے کینسل کررہے ہیں۔ کچھ لوگ امیزان پر پرائم کا سبسکرپشن بھی ختم کررہے ہیں۔ کیوں کہ واشنگٹن پوسٹ اور امیزان کے مالک ایک ہی ہیں۔ چیف بیزوس ان کے فیصلے کو لے کر کئی طرح کے سوال اٹھ رہے ہیں۔ کیا ٹرمپ کی کامیابی کے امکانات بڑھ گئے ہیں؟ اس لیے اخبار نے کسی کی تائید و حمایت سے انکار کردیا۔ اگر ٹرمپ یہ کہہ رہے ہیں کہ رپورٹس کے خلاف امریکی شہریوں کے خلاف وہ فوج کا استعمال کریں گے کیا تب بھی کسی اخبار کو ان کی مخالفت نہیں کرنی چاہئے۔ کیا اخبار نے غیر جانبدار رہنے کا ڈھونگ کیا ہے۔ یہ سب سوال اٹھ رہے ہیں۔ ان چرچائوں سے ہندوستان کے تھرڈ کلاس گودی میڈیا کو خوش ہونے کی کوئی ضرورت نہیں کیوں کہ وہ گندگی میں لت پت ہے تو دوسرے بھی کیچڑ میں ہیں، دنیا میں کہیں بھی جمہوریت کی درگت کسی دوسرے جمہوری ملک کے لیے بھی بری خبر ہوتی ہے۔ لیکن پہلے اس کے بارے میں جان لینا ضروری ہے کہ امریکہ میں اخبار کسی کی کیوں تائید کریں گے۔ امریکہ میں ہمیشہ سے ہی یہ روایت رہی ہے کہ صدر سے لے کر مقامی انتخابات میں امیدواروں کی توثیق و تصدیق کی جاتی ہے۔ بہت سے میڈیا کے ادارے کسی کی بھی تائید نہیں کرتے ہیں۔ امریکہ میں تائید و حمایت کے لیے انگریزی لفظ Indorsement استعمال کیا جاتا ہے۔ امریکی صحافت میں نیوز رپورٹنگ اور کالم نگاری الگ الگ کام مانا جاتا ہے اور ایک دوسرے سے الگ رکھا جاتا ہے۔ نیوز اسٹاف کا کام ہوتا ہے کہ خبر کی معروفیت برقرار رکھتے ہوئے روز کی خبروں کا کووریج دیکھنا اور اوپنین اسٹاف کا کام ہوتا ہے کہ واقعات، افراد اور پالیسیوں و پروگراموں پر اخبار کی طرف سے اپنا خیال اپنی رائے ظاہر کرنا۔ امریکی میڈیا میں یہ بٹوارہ ایک طویل عرصہ سے ہورہا ہے اور اس پر سختی سے عمل آوری بھی کی گئی لیکن اب تو نیوز رپورٹنگ اور اوپنین دونوں ہی جگہ کافی کچھ بدل گیا ہے۔ امریکہ میں ہندوستان کے گودی میڈیا جیسا نہیں ہے کہ اپوزیشن کا کووریج بند کردیا جائے گا یا حکومت پر کی جانے والی تنقیدیں بھی بند ہوجائیں گی۔ ایک دم سے پارٹی کارکنوں کی طرح اخبار یا چیانل تشہیر شروع کردے گا جیسا گودی میڈیا کرتا ہے۔ حالانکہ گودی میڈیا کا یہ رجحان اب امریکہ کے اخبارات اور چیانلوں میں بھی پایا جارہا ہے۔ وہاں بھی اب چیانل اور اخبار کھل کر ایک طرفہ ہونے لگ گئے ہیں۔ ایسا ہونا کسی بھی جمہوری ملک کے لیے اچھی خبر نہیں۔ امریکہ میں اس بات کو لے کر کئی جائزے ہوئے ہیں کہ جب اخبار اور چیانل کسی امیدوار کی تصدیق کرتا ہے تو کیا ہوتا ہے؟ جائزوں میں پایا گیا ہے کہ اس کی ہار یا جیت پھر کوئی اثر نہیں پڑتا تب سوال اٹھتا ہے کہ کیا کسی امیدوار کی تصدیق کرنے والا اخبار آزاد اور غیر جانبدار رہ پاتا ہے۔ جو اخبار کسی کی تائید و حمایت نہیں کرتا کیا وہ زیادہ آزاد اور غیر جانبدار مانا جائے گا؟ دونوں ہی سوالوں کے جواب کے لیے ہر اخبار کا الگ الگ جائزہ لینا ہوگا۔ اس کا جواب اس طرح سے ملتا ہے کہ اخبار کا ادارتی بورڈ اپنی رائے رکھتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ اخبار میں رپورٹنگ اسی خط پر ایک طرفہ ہوجائے۔ کسی کی تائید کرنے کے بعد بھی اس میں تنقیدی مضمون یا رپورٹ چھپتی رہتی ہے۔ جب ملک میں ایک ایسا لیڈر آجائے یا آنیوالا ہوجو جمہوریت کے لیے خطرہ بن جائے تب کیا ایسے لیڈر کے ااگے کسی اخبار کو خاموش رہنا چاہئے؟ اگر جمہوریت کا فائدہ اٹھاکر کوئی تانا شاہ، یا فاشسٹ اقتدار پر کنٹرول کرلے تب اخبار یا چیانل کا کیا کردار ہونا چاہئے؟ جمہوریت اور فاشزم میں سے کسی کا انتخاب کرنا ہو تو کیا کوئی دوسرا امکان ہوسکتا ہے۔ یو ایس اے ٹوڈے امریکہ کا ایک مشہور و معروف اخبار ہے اس نے بھی واشنگٹن پوسٹ کی طرح کسی بھی امیدوار کی تائید و حمایت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ گیانیت امریکہ کا ایک بڑا میڈیا مبصر ہے اس کا کہنا ہے کہ ہمیں اس بارے میں اتنا کیوں سوچنا چاہئے۔ کملا ہیرس کو لگ بھگ 80 اخبارات اور میڈیا اداروں کی تصدیق یا توثیق حاصل ہوچکی ہیں ان میں اہم نام ہیں نیویارک ٹائمز، بوسٹن گلوب، دی نیویارک، دی ڈینور پوسٹ، دی لاس ویگاس سن، لاس ینجلس پنٹینل، ونسٹن سیلم کرانیکل، دیسیاٹل ٹائمز وغیرہ۔
آپ کو بتادیں کہ 2020ء کے انتخابات میں ٹرمپ کی 14 اخبارات نے تائید و حمایت کی تھی اور جوبائیڈن کی 120 اخبارات نے تائید و حمایت کی تھی۔ 2020ء سے تقابل کیا جائے تو اس بار بہت کم اخبارات نے تائید کی ہے۔ ٹرمپ کی تائید میں دس میڈیا ادارے ہی آگے آئے ہیں۔ نیویارک پوسٹ، لاس ویگاس ریویو، دی واشنگٹن ٹائمز نے بھی ٹرمپ کی تائید و حمایت کی۔ نیویارک پوسٹ کی ہیڈ لائن میں واضح طور پر کہا کہ دی پوسٹ نے ڈونالڈ ٹرمپ کی تائید و حمایت کی ہے۔ جس میں یہ بھی کہا گیا کہ ملک و قوم کو ترقی کی صحیح راہ پر گامزن کرنے کے لیے ٹرمپ کی تائید و حمایت کی گئی۔ دیش کو صحیح راہ پر لانے کا فیصلہ صاف ہے۔ آگے لکھتا ہے کہ ہمیں اپنے مستقبل کی طرف واپس جانا ہوگا۔ اس کے بورڈ نے لکھا ہے کہ ٹرمپ 2016ء کی طرح مقبول اور مضبوط ہیں باوجود اس کے کہ ان کے خلاف عدلیہ کا استعمال کیا گیا۔ ان کو قتل کرنے کی ایک نہیں بلکہ دو دو مرتبہ کوششیں کی گئیں اور سنکی میڈیا نے ان پر غیر غلط الزامات عائد کردیئے۔ واشنگٹن پوسٹ نے ذرائع کی اطلاعات کی بنیاد پر لکھا ہے کہ کملا ہیریس کی تائید و حمایت کی پوری تیاری ہوچکی تھی آخری لمحات میں فیصلہ بدلا گیا۔ یہ بھی جاننے کی بات ہے کہ واشنگٹن پوسٹ ہی اپنے ادارتی بورڈ کے فیصلے کے خلاف ذرائع کے حوالے سے رپورٹنگ کررہا ہے اور اس اخبار میں ہی اس فیصلہ پر تنقیدیں ہوئی جس کے بارے میں کئی رپورٹس کی اشاعت عمل میں آئی ہیں۔ اخبار کے کالم نگار اور کارٹونسٹ مخالفت میں لکھ رہے ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ کا فیصلہ آتے ہی کہ کسی کی تائید و حماتی نہیں کریں گے کچھ ہی گھنٹوں میں اخبار کے 11 کالم نگاروں نے تحریری بیان جاری کرکے اس فیصلہ کو ایک بھیانک غلطی بتایا۔ کہنے والے صحافیوں میں پلٹزر انعام یافتہ ادیب بھی شامل تھے۔ اس بیان میں کہا گیا ہے کہ یہی وقت ہے جب ادارہ کو جمہوری اقدار، قانون کی حکمرانی اور بین الاقوامی تعلقات کے تئیں اپنی ذمہ داری نبھانی چاہئے اور کہنا چاہئے کہ ٹرمپ ان سب کے لیے کیسا خطرہ ہیں۔ آپ کو یاد دلادیں کہ پوسٹ نے 2016ء اور 2020 ء میں ٹرمپ کے مخالفین کی تائید و حمایت کی تھی ان کی توثیق کی تھی واشنگٹن پوسٹ چیف بیزوس کا اخبار ہے جو امیزان کے بھی مالک ہیں۔
دنیا کے متمول ترین شخصیتوں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ اب اس بات کے چرچے ہیں کہ اخبار کے ادارتی بورڈ نے خود سے فیصلہ کیا یا مالک کی مرضی کے حساب سے دھندے کا سوچ کر کیا۔ اخبار نے ساتھ ہی یہ بھی لکھا ہے کہ دوسرے مقابلوں میں جیسے مقامی انتخابات اور دیگر مقابلوں میں اخبار آگے اپنی تائید و حمایت کرنے کی پالیسی پر قائم رہے گا پچھلے کچھ دنوں میں بھی اخبار نے کچھ امیدواروں کی تائید کی ہے مگر صدارتی امیدوار کی نہیں کی۔ کیا یہ عجیب نہیں! صدارتی امیدوار کی تائید نہیں کررہے ہیں اور مقامی امیدوار کی تائید و حمایت کئے جارہے ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ کے سی ای او اور تجزیہ نگار ولیم لوئس نے تفصیل سے بتایا ہے کہ اخبار نے کیوں کسی بھی امیدوار کی تائید نہیں کی اور آگے بھی نہیں کرے گا۔ 25 اکٹوبر کو لوئس نے اپنے نوٹ میں لکھا کہ ہم واپس اس دور میں جارہے ہیں جب ہم کسی امیدوار کی تائید نہیں کرتے تھے۔ بہرحال امریکی انتخابات کے لیے جو سروے کئے گئے اس میں کملا ہیرس اور ڈونالڈ ٹمرپ کے درمیان ٹکر کا مقابلہ بتایا گیا ہے جبکہ 7 اہم ریاستوں میں جنہیں Swing States کہا جاتا ہے 4 میں ٹرمپ کو کملا ہیرس پر معمولی اور 3 میں کملا ہریس کو ٹرمپ پر اچھی خاصی برتری حاصل ہے۔ اگر کملاہیرس کو ان صدارتی انتخابات میں کامیابی ملتی ہے تو وہ امریکہ کی تاریخ میں عہدہ صدارت پر فائز ہونے والی پہلی خاتون ہوں گی۔