امریکی عدالت کا وائس آف امریکہ کے حق میں فیصلہ

   

نیویارک : ایک امریکی عدالت نے وائس آف امریکہ کے اسٹاف کو برطرف کرنے کا فیصلہ بلاک کر دیا ہے۔ ایک جج نے ٹرمپ انتظامیہ کے وائس آف امریکہ کو بند کرنے کے اقدام کو ’’من مانی اور غیر منطقی فیصلہ سازی کی غیر معمولی مثال‘‘ قرار دیا۔ ایک امریکی جج نے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی جانب سے امریکی فنڈز سے چلائے جانے والی بین الاقوامی خبر رساں ادارے وائس آف امریکہ (VOA) کو بند کرنے کی کوششوں کو روک دیا۔ جمعہ کے روز عدالت نے اس فیصلے کو منجمد کرتے ہوئے اس اقدام کو ’’من مانی اور غیر منطقی فیصلہ سازی کی ایک غیر معمولی مثال‘‘ قرار دیا۔ اپنے حکم میں جج جیمز پال اوٹکن نے نشریات کی بحالی کا براہ راست حکم نہیں دیا لیکن انہوں نے واضح طور پر ٹرمپ انتظامیہ کو 1,200 سے زائد صحافیوں، انجینئرز اور دیگر عملے کو برطرف کرنے سے روک دیا، جنہیں رواں ماہ اچانک معطل کر دیا گیا تھا۔ اوٹکن کے حکم کے مطابقامریکی ایجنسی برائے گلوبل میڈیا کو ملازمین یا کانٹریکٹرز کو برطرف کرنے، جبری رخصت پر بھیجنے یا معطل کرنے کی کسی بھی کوشش سے روک دیا گیا ہے۔ امریکی ایجنسی برائے گلوبل میڈیاط دراصل وائس آف امریکہ، ریڈیو فری یورپ اور سرکاری فنڈز سے چلنے والے دیگر میڈیا اداروں کی نگرانی کرتا ہے۔ یہ حکم ایجنسی کو کسی بھی دفتر کو بند کرنے یا بیرون ملک تعینات ملازمین کو امریکہ واپس آنے کی ہدایت دینے سے بھی روکتا ہے۔ یہ مقدمہ وائس آف امریکہ کے ملازمین، ان کی یونینز اور رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز نے دائر کیا تھا، جنہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ یہ بندش کارکنوں کے پہلے آئینی ترمیمی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ یاد رہے کہ امریکہ کے آئین کی اولین ترمیم حقِ آزادیء اظہار کی ضمانت یقینی بناتی ہے۔