کابل : طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان کی یونیورسٹیوں کی کلاسز میں طلباء و طالبات کے درمیان پردہ حائل کردیا گیا ہے۔طالبان کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد اب ملک بھر میں طالب علموں نے یونیورسٹیوں میں واپس آنا شروع کردیا ہے تاہم ایک بڑی ربدیلی کے ساتھ۔ خواتین کو اپنے مرد کلاس فیلوز سے پردے یا بورڈ کے ذریعہ علیحدہ کر دیا گیا ہے۔ملک بھر کی یونیورسٹیوں اور اسکولوں میں جو کچھ ہورہا ہے اس کا غیر ملکی طاقتیں قریب سے جائزہ لے رہی ہیں، کیونکہ ان کا ماننا ہیکہ اسلام پسند عسکری تحریک کو امداد اور سفارتی رابطے کیلئے پہلے خواتین کے حقوق کی گارنٹی دینی ہوگی۔ اس سے قبل جب طالبان نے 1996-2001 تک حکومت کی تھی، اس وقت لڑکیوں کو اسکول اور خواتین کو یونیورسٹی اور ملازمت کرنا سختی سے منع تھا۔افغانستان کی نجی یونیورسٹیوں کی ایک اسوسی ایشن کی طرف سے جاری کردہ ایک دستاویز میں ہدایات کے مطابق خواتین کیلئے حجاب اور علیحدہ داخلے کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔ ہدایات میں یہ بھی ہیکہ طالبات کو پڑھانے کیلئے خواتین اساتذہ کی خدمات حاصل کی جائیں اور یہ کہ خواتین کو علیحدہ کلاسوں میں یا پردہ کے ذریعہ الگ الگ پڑھایا جائے۔ واضح رہیکہ طالبان نے پچھلے ہفتے کہا تھا کہ تعلیمی اداروں کی تعلیم دوبارہ شروع ہونی چاہیے لیکن مرد اور عورتوں کا پردہ ہوگا۔