اوورسیز اسکالرشپ اسکیم کے طلبہ کو محکمہ فینانس کے رویہ سے مشکلات

   

صرف حیدرآباد میں رقومات کی اجرائی باقی، دشوار کن طریقہ کار سے عہدیدار بھی پریشان
حیدرآباد۔ 7 جنوری (سیاست نیوز) اوورسیز اسکالرشپ اسکیم کے تحت اقلیتی طلبہ کو بیرونی ممالک میں اعلی تعلیم کے حصول کے لیے منظور کی گئی رقومات محکمہ فینانس کی جانب سے جاری نہیں کی گئیں جس کے نتیجہ میں طلبہ کو مشکلات کا سامنا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ریاست بھر میں محکمہ اقلیتی بہبود نے مستحق طلبہ کا انتخاب کرتے ہوئے پہلی قسط کے طور پر 10 لاکھ روپئے منظور کیے تھے۔ اضلاع میں ڈسٹرکٹ ٹریژری آفس سے طلبہ کے اکائونٹ میں رقم جاری کردی جاتی ہے جبکہ حیدرآباد میں پے اینڈ اکائونٹس آفیسر کے ذریعہ بلس محکمہ فینانس کو روانہ ہوتے ہیں۔ اس پیچیدہ طریقہ کار کے سبب حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے طلبہ رقم سے محروم ہیں۔ حکومت نے تقریباً 4 ماہ قبل 2018ء میں 250 طلبہ کا انتخاب کیا تھا۔ ان میں سے حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے طلبہ کی تعداد 170 ہے۔ جی او کے مطابق طلبہ کو ایرٹکٹ کی مالیت کے علاوہ پہلی قسط کے طور پر 10 لاکھ روپئے جاری کیئے جاتے ہیں۔ اضلاع میں طلبہ کو رقم جاری کردی گئی لیکن شہر سے تعلق رکھنے والے اقلیتی طلبہ رقم کی اجرائی کے ابھی بھی منتظر ہیں۔ اس سلسلہ میں محکمہ اقلیتی بہبود کے عہدیداروں سے ربط قائم کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ پے اینڈ اکائونٹس آفیسر کی منظوری کے بعد بلس محکمہ فینانس میں داخل کردیئے گئے ہیں لیکن وہاں سے رقم جاری نہیں کی گئی۔ رقم کی منظوری کے بعد عدم اجرائی سے طلبہ اور ان کے سرپرست کافی پریشان ہیں کیوں کہ طلبہ کو بیرون ملک یونیورسٹی میں فیس جمع کرنی ہے۔ اتنا ہی نہیں 2017ء میں منتخب کیے گئے حیدرآباد کے کئی طلبہ کو دوسری قسط کی رقم ابھی تک جاری نہیں کی گئی۔ ڈسٹرکٹ میناریٹی ویلفیر آفیسر حیدرآباد کے مطابق محکمہ فینانس سے رقومات کی اجرائی کے لیے اعلی سطح پر نمائندگی کی جارہی ہے۔ 2017ء میں 500 طلبہ کا انتخاب کیا گیا تھا جن میں 268 کا تعلق حیدرآباد سے تھا۔ ان طلبہ کو پہلی قسط مقررہ وقت پر جاری کردی گئی لیکن بیشتر طلبہ دوسری قسط سے محروم ہیں۔ 2018ء میں منتخب طلبہ کو اسکالرشپ کی اجرائی کے لیے حکومت نے 34 کروڑ روپئے اسمبلی انتخابات سے قبل جاری کیے تھے۔ محمکہ اقلیتی بہبود نے اس رقم کو منتخب طلبہ میں جاری کرنے کے لیے بلس تیار کیے اور انہیں پے اینڈ اکائونٹس آفیسر کے ذریعہ محکمہ فینانس روانہ کیا گیا۔ حیرت اس بات پر ہے کہ محکمہ فینانس نے کسی جائز وجوہات کے بغیر رقم کی اجرائی کو روک دیا ہے۔ انتخابی سرگرمیوں کا بہانہ بناکر تین ماہ تک رقم جاری نہیں کی گئی۔ اب جبکہ نئی حکومت تشکیل پاچکی ہے اس کے باوجود محکمہ فینانس کا رویہ ناقابل فہم ہے۔ اضلاع کے طلبہ کو اسکالرشپ حاصل ہو لیکن شہر کے طلبہ محروم رہیں یہ بات ناقابل فہم اور افسوناک بھی ہے۔ دراصل محکمہ اقلیتی بہبود میں اعلی عہدیداروں کی محکمہ فینانس میں سنوائی نہیں ہے جس کے نتیجہ میں ان کی نمائندگی بے اثر ثابت ہورہی ہے۔ سکریٹری اقلیتی بہبود کو اس سلسلہ میں مداخلت کرنی ہوگی۔ دوسری طرف 2015ء میں اوورسیز اسکالرشپ اسکیم سے استفادہ کرنے والے طلبہ کو ای میل کے ذریعہ پیام دیا گیا کہ وہ رقم کے استعمال کے بارے میں سرٹیفکیٹ داخل کریں۔ محکمہ نے ایک پروفارما بھی روانہ کیا ہے جسے پر کرتے ہوئے بھیجنا ہے۔ 2015ء کے طلبہ میں اکثر اپنی تعلیم مکمل کرچکے ہیں اور داخلے کے وقت انہوں نے کالج فیس کی تفصیلات اور رسائد جمع کردیئے تھے اس کے باوجود ان سے دوبارہ رقم کے استعمال پر سرٹیفکیٹ طلب کرنا باعث حیرت ہے۔ ایس سی، ایس ٹی اور بی سی طلبہ سے اس طرح کے سرٹیفکیٹ طلب کیے جاتے ہیں۔ اسی بنیاد پر اقلیتی طلبہ پر بھی یہ لزوم عائد کیا جارہا ہے۔ اقلیتی بہبود کے عہدیداروں نے بتایا کہ یوٹیلائزیشن سرٹیفکیٹ کا مطالبہ کرنا معمول کی کارروائی ہے اس معاملہ میں طلبہ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ وہ پروفارما فِل اَپ کرتے ہوئے روانہ کردیں تو کافی رہے گا۔ محکمہ فینانس کا یہی رویہ اسکالرشپ اور فیس بازادائیگی کے سلسلہ میں بھی طلبہ کے لیے زحمت کا باعث بن چکا ہے۔ شہر سے تعلق رکھنے والے طلبہ کی اسکالرشپ اور فیس بازادائیگی کی رقم جاری کرنے میں محکمہ فینانس کی تاخیر سے عہدیدار بھی خود کو بے بس محسوس کررہے ہیں۔