او۔آئی ۔سی ، ہندوستان اورمسلمان

   

حرف حق

پروفیسر اخترالواسع
یہ نصف صدی کاقصہ ہے،دوچاربرس کی بات نہیں کہ بالآخرآرگنائیزیشن آف اسلامک کنٹریز(او آئی سی)نے اپنے آپ کوپاکستان کے یرغمالی چنگل سے آزاد کرالیا۔۱۹۶۹؁ء کے وہ دن ہمیں ابھی تک یاد ہیں جب رباط(مراکش) میں او آئی سی کے تاسیسی اجلاس میں ہندوستان کو بھی مدعو کیاگیا اوربعد میں پاکستان کی دھمکیوں کے نتیجے میں ہندوستان کوشرکت کی اجازت نہیں دی گئی۔یہ واقعہ ایک عام ہندوستانی مسلمان کی حیثیت سے ہمارے حافظے میںایک سانحہ کے طورپر اس لئے محفوظ ہے کہ ہندوستانی وفد جس کے قائداس وقت کے مرکزی وزیر برائے صنعتی ترقی مرحوم جناب فخرالدین علی احمدتھے، کے ساتھ ایک رکن اس وقت کے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر عبدالعلیم بھی تھے۔اس بیچ میں جو پچاس برسوں پرمحیط عرصہ ہے اس میں باربار اس طرح کی آوازیں اٹھیں کہ اوآئی سی اس وقت تک نہ توموثر ہوسکتی ہے اورنہ مفید جب تک ہندوستان جیسے سیکولر جمہوری ملک، جہاں دنیا کی دوسری بڑی مسلم آبادی بستی ہے، کواس میں شریک نہ کیاجائے۔لیکن ہرتجویز کوپاکستان کے ذریعہ ویٹو کیاجاتارہا اورعالم اسلام پاکستان کے ذریعہ گمراہ ہوتارہا۔اس دوران، اس عرصے میں عالم اسلام جن مختلف بحرانوں سے گزرا، پاکستان نے اس کابھی بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے ہندوستان کو الگ تھلگ کرنے کی تمام ممکنہ کوششیں جاری رکھیں۔لیکن ۲۰۱۹ء؁ کی دنیا وہ نہیں رہی جو ۱۹۶۹ء؁ میںتھی۔اب دنیا یک قطبی یادوقطبی نہیں رہی بلکہ ایک عالمی گاؤں میں تبدیل ہوچکی ہے۔اب اس دور میں دنیا کی سب سے بڑی طاقت کازعم دکھانے والے اوردبدبہ رکھنے والے امریکہ کواپنے اختلافات اوردوریوں کوکم کرنے کے لئے کبھی سنگاپور اورکبھی ویتنام میںآنا پڑتا ہے۔ایک ایسی دنیا جس میں جرمنی کوجداکرنے والی دیوار گرادی گئی ہو،جس میں صرف چین جیسے بڑے ملک نہیں بلکہ جنوبی کوریا جیسے چھوٹے ملک بھی اپنی معاشی بالادستی اوراقتصادی ترقی کو دنیا سے منوانے میںکامیاب ہوئے ہیں۔جب توانائی کے قدرتی وسائل سے مالامال مسلمان ملک دنیاکی ضرورت بنے ہوئے ہیں، ایک ایسی دنیا میں کوئی بھی ہندوستان جیسی بڑی تیزی سے ہرمیدان میں ترقی کرتی ہوئی اور ایشیاء میں ابھر تی ہوئی طاقت کوکیسے نظر انداز کرسکتاہے؟
ہندوستان کی ایک بڑی طاقت اور وصف اس کاجمہوری اورسیکولر کردار ہے۔اس کی مذہبی، تہذیبی اورلسانی تکثیریت اسے دنیا میں ایک منفرد کردار عطا کرتی ہے۔ یہ وہ ملک ہے جہاں مسلمان تقریباً آٹھ سوسال حاکم بھی رہے اوردوسوسال محکوم بھی، لیکن ۱۵؍اگست ۱۹۴۷ء؁ کوجب آزادی کاسورج طلوع ہوا اوراس کے بعد ۲۶؍جنوری ۱۹۵۰ء؁ کوجس دستور کوہم سب ہندوستانیوں نے مل جل کر تیاربھی کیااور نافذ بھی ،اس کے بعد ہندوستانی مسلمان نہ حاکم رہے اورنہ محکوم بلکہ اقتدارمیں برابر کے شریک بن گئے۔ہندوستانی مسلمانوں نے آزادی کے بعد اس ملک سے اپنا رشتہ میثاق مدینہ کی اساس پراستوار کیا ۔انہوںنے وطن کی محبت کوجزوایمان جانا۔ان کے نزدیک یہ ان کامادروطن ہی نہیں بلکہ پدری وطن بھی ہے۔کیوں کہ ان کے عقیدے کے مطابق جب حضرت آدم ؑ جنت سے دنیا میںبھیجے گئے توان کے مسکن کے طورپر ہندوستان ہی کاانتخاب ہوا۔ہم ہندوستانی مسلمان ایک غالب ہندواکثریت کے ملک میں اپنی پیدائش کومنشائے الٰہی مانتے ہیں اوراپنے خالق یعنی خداوند قدوس کی رضاکو اپنی رضاسمجھتے ہیں۔یہ ملک ہمارا وطن صر ف ہماری پیدائش کے اعتبار سے نہیں بلکہ ہماری اپنی ذاتی پسند اور انتخاب کا بھی نتیجہ ہے۔
اس پس منظر میںاگر دیکھا جائے توہندوستان کواوآئی سی سے الگ رکھنے کاکوئی جواز ہی نہیں بنتاتھا، لیکن پاکستان کی پریشانی یہ ہے کہ وہ اپنے قیام کے لئے ذمہ دار دوقومی نظریے سے اپنے آپ کو اپنے بانی محمدعلی جناح کے واضح لفظوں میںدست بردار ہونے کے اعلان کے باوجود الگ نہیں کر پایا۔اس کواس بات میںزیادہ مزہ آتا ہے کہ ہندوستانی مسلمان کسی نہ کسی طرح آزمائش میںپڑے رہیں،تاکہ وہ سینہ چوڑاکرکے یہ کہہ سکے کہ تم (ہندوستانی مسلمانوں) نے ہندوستان کواپنے وطن کے طورپر انتخاب کرکے جوفیصلہ لیایہ اس کی سزاہے۔ہم بلاشبہ اس بات سے انکار نہیں کرسکتے کہ ہندوستان میں ہمارے کچھ مسائل ہیں اور بعض اوقات مٹھی بھر مفسدین کی وجہ سے مصائب کابھی شکار ہوتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے ملک کی غالب ترین اکثریت سیکولر ہے۔ وہ فرقہ وارانہ عناد وفساد کوپسند نہیں کرتی ہے۔ہمارا دستور ،ہماری عدلیہ ،ہماری سول سوسائٹی سب ہمارے دفاع میںہمیشہ کھل کرسامنے آتے ہیں ۔جب کہ پاکستان میں دہشت وانتہاپسندی کے کاروبار، مسلکی عناد،صوبہ جاتی تعصب اورمذہبی منافرت کے نتیجے میں جو سب کچھ دیکھنے کومل رہاہے وہ کہیں زیادہ سنگین بھی ہے اوروحشت ناک بھی۔ ہندوستان میںایک عام رائے یہ ہے کہ پاکستان میںامن وامان ہو،استحکام ہو،ترقی ہو،کیوں کہ بقول شاعر ؎
غلام تم بھی تھے کل تک غلام ہم بھی تھے
ابھی تو نہا کے خون میں آئی تھی فصل آزادی
مزہ تو جب تھا کہ مل کر علاجِ جاں کرتے
تمہارے درد میں ہم، ہمارے درد میں تم
شریک ہوتے تو پھر جشنِ آشیاں کرتے
۱۴؍فروری ۲۰۱۹؁ء سے اب تک جوکچھ ہواوہ انتہائی تکلیف دہ ہے، لیکن تنائو اورتصادم کے اس ماحول میں روشنی کی ایک کرن ہندوستانی فضائیہ کے پائلٹ کی پاکستان کے ذریعہ باعزت رہائی ہے۔ہماراپختہ یقین بھی ہے اورموقف بھی کہ جنگ مائوں کی کوکھوں، سہاگنوں کی مانگوں کواجاڑنے ،بچوں کویتیم بنانے اوردھرتی کوبانجھ کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کرتی ہے اورجنگ میں کوئی جیتے یا کوئی ہارے مفلسی، بھوک اور احتیاج دونوںکے حصے میں برابر آتی ہے۔اس لئے ہم جنگ کے مخالف ہیں مگر یہ بھی افسوس ناک اورانتہائی تشویش ناک پہلوہے کہ اب جنگ کے انداز بھی بدل گئے ہیں۔جتنے لوگ کبھی جنگوں میںمارے جاتے تھے اب رفتہ رفتہ اس سے زیادہ دہشت گردی اورسرحدوں پرگولاباری کاشکار ہوتے ہیں ۔ہم اپنے ملکوں کی معیشت کوبہتر کرنے کے بجائے ساری طاقت اوروسائل ہتھیاروں کی خرید پرمرکوز کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
بات کہاں سے شروع ہوئی اورکہاں جاپہنچی لیکن یہ وہ درد ہے جس کوکتنا ہی الٹاپلٹا جائے وہ درد ہی رہتاہے اوراس کی سمت ورفتار کوکس طرح سے تھاما جائے کچھ سمجھ میں نہیں آتا؟
اب جب کہ عالم اسلام نے ایک انتہائی معقول، مناسب اورعالمی پس منظر میںاہم فیصلہ لیاہے، ہندوستان کی وزیرخارجہ محترمہ سشما سوراج کواوآئی سی کے ابوظہبی اجلاس میںمدعو کیا گیااورپہلی مارچ ۲۰۱۹؁ کو انہوں نے انتہائی متانت وفراست کے ساتھ ہندوستان کے جذبات کی نمائندگی کی اور کمال ِحکمت سے کام لیتے ہوئے پوری تقریر میںپاکستان کانام بھی نہیں لیا۔ جب کہ پاکستانی وزیر خارجہ نے اس اجلاس کا بائیکاٹ کرکے پاکستان کی قومی اسمبلی میںجس طرح ہندوستان کومدعو کئے جانے پربرہمی کااظہار کیاوہ سمجھ میں آنے والا نہیں ہے۔ایک ایسے وقت میں جب نقل وحمل اورترسیل وابلاغ کے ذرائع کی ترقی نے زمین کی طنابیں کھینچ دیںہیں اورفراق وفصل کے تمام تصورات بے معنی ہوگئے ہیں۔آپ چاہیں یانہ چاہیں ایک دوسرے پرانحصار اب ناممکن ہے۔ایسے وقت میں پاکستان کو عالم اسلام کی اس پہل کانہ صرف استقبال کرناچاہئے تھا بلکہ اس کاحصہ بھی بننا چاہئے تھا۔پاکستان کویہ خوب سمجھ لینا چاہئے کہ اب عالم اسلام ہندوستان کے بڑھتے ہوئے اثر کاہی نہیں بلکہ ہندوستانی مملکت کے اسلامی جز کابھی ادراک رکھتا ہے۔اس لیے ۵۷؍ممبروں کی یہ تنظیم، او آئی سی دنیا کی دوسری بڑی مسلم آبادی والے ملک کو ان دیکھی نہیں کرسکتی۔پاکستان اس بات کوجتنی جلدی سمجھ لے اتنا ہی بہتر ہے اورہندوستان کوجتنی جلدی اوآئی سی میں سرکاری حیثیت سے شامل کرلیاجائے وہ اس عالمی گاؤ ںمیںسب کے لیے خیر سگالی کا سبب بنے گا اور او آئی سی کو ایک نیا اعتبار، اعتماد اور استناد حاصل ہوگا۔
(مصنف مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور کے پریسیڈنٹ ہیں اور جامعہ ملیہ اسلامیہ ،نئی دہلی میں پروفیسر ایمریٹس ہیں۔)