اُٹھیں قبل اس کے کہ اٹھالئے جائیں

   

محمد مصطفی علی سروری
میں گذشتہ سات برسوں سے پرنسس کریز (تفریحی جہاز) پر بطور انٹرنیشنل کوک کام کر رہا تھا لیکن کویڈ 19 جب پھیلنے لگا تو ہر ایک کی زندگی پر اس کا اثر پڑا اور میری نوکری بھی چلی گئی ۔ نوکری ختم ہوجانے کے بعد میرا گذارا میری بچت
(Savings)
پر ہو رہا تھا جو کہ کم ہونے لگی۔ میرے والدین جو کہ ضعیف تھے ان کے علاج کی ذمہ داری بھی میرے ہی کاندھوں پر تھی۔ ایسے میں میں سونچنے لگا کہ میں کیا کروں۔ انٹرنیشنل
Chef
ہونے کے ناطے میں اچھا کماتا تھا اور میرے اخراجات بھی پورے ہوا کرتے تھے۔ لیکن ممبئی میں رہتے ہوئے میڈیکل کے اخراجات اٹھانا اور وہ بھی بغیر آمدنی کے ایک مشکل مسئلہ تھا۔ میرے گھر والوں نے مجھے مشورہ دیا کہ تم ہو تو انٹرنیشنل شیف لیکن تفریح کے لیے چلائے جانے والے جہاز تو بند ہیں اور تمہارا کام کب شروع ہوگا کسی کو نہیں معلوم۔ ایسے میں تم کیوں نہیں بریانی کا ایک اسٹال شروع کرتے ہو۔اپنے گھر والوں کے مشورے کو قبول کرتے ہوئے میں نے چھ مہینے کی بے روزگاری کے بعد ستمبر 2020ء میں ممبئی کے دادر علاقے میں اپنا بریانی کا ایک اسٹال شروع کردیا۔ میرا اسٹال بہت چھوٹے پیمانے پر شروع ہوا۔ میرے برتن صرف 2 کلو پکوان کی گنجائش کے تھے۔ اب میرا بریانی کا اسٹال خوب چلنے لگا۔ سات تا آٹھ بگونے چکن بریانی کے اور دو سے تین بگونے ویج بریانی کے بنارہا ہوں۔
اب تو میں سونچ رہا ہوں اپنے بریانی بنانے کے کام کو بڑے پیمانے پر فروغ دوں اور بریانی ہائوز شروع کروں اور ایک سے زائد مقامات پر بریانی کے اسٹالس لگائوں کیونکہ میری Cruise شپ کی کمپنی والے بتلا رہے ہیں کہ دوبارہ جاب کب شروع ہوگی وہ قطعی طور پر بتا نہیں سکتے اور میں اب خالی نہیں بیٹھ سکتا ہوں۔

قارئین یہ خیالات تھے نوجوان اکشے پرکار کے جنہوں نے Brut انڈیا سے انٹرویو کے دوران یہ باتیں بتلائیں۔ کویڈ 19 اگرچہ ایک بیماری ہے جو وباء کی شکل اختیار کرچکی ہے لیکن اس کے اثر سے زندگی کا کوئی بھی شعبہ محفوظ نہیں رہا ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ کویڈ 19 کے اثرات دنیا کے کسی ایک ملک تک بھی محدود نہیں ہیں بلکہ کیا امیر کیا غریب، دنیا کا ہر ملک اس سے متاثر ہوا ہے۔ اس سارے پس منظر میں یہ مطالعہ دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ لوگ کویڈ کے سبب پیدا ہونے والے ناگہانی معاشی حالات اور مسائل کا کیسے سامنا کر رہے ہیں۔
کرن کمار کویڈ سے پہلے ایک ڈرائیور کے طور پر کام کرتا تھا۔ نوکری چلی جانے کے بعد اس کی آمدنی بند ہوگئی جس کی وجہ سے وہ بڑا پریشان ہوگیا۔ یہاں تک کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ ایک گرودوارے میں لنگر سے کھانا کھانے لگا اور کرایہ کا گھر چھوڑ کر یہ دونوں میاں بیوی کار میں ہی رہنے لگے۔ لیکن کب تک نوکری کے انتظار میں رہتے۔ اس لیے ان لوگوں نے طئے کیا کہ وہ کچھ کریں گے۔ کرن کمار تو ڈرائیور تھا اور کرونا کے دور میں ذرائع حمل و نقل بھی محدود ہوگئے اور نوکری کے مواقع بھی لیکن کرن کی بیوی پکوان کرنا جانتی تھی اور دونوں نے مل کر طئے کیا کہ وہ راجما چاول اور چھولے چاول بناکر فروخت کریں گے۔ نئی دہلی کے تال کٹورہ علاقے میں میاں بیوی نے مل کر کھانا فروخت کرنے کا سلسلہ شروع کیا ۔ ان کا راجما چاول اور چھولے چاول کا کاروبار اس قدر چل پڑا کہ کرن کمار جو کرونا لاک ڈائون سے پہلے ایک ایم پی کے ہاں بطور ڈرائیور کام کرتا تھا اب نوکری کے بارے میں سونچ بھی نہیں رہا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کھانے کے بزنس کو فروغ دے۔
روی کانت ایک اور نوجوان ہے جو لاک ڈائون سے پہلے ایک ٹراویل ایجنسی میں اسسٹنٹ منیجر تھا۔ کرونا کے بعد کے حالات میں روی کی نوکری بھی چلی گئی لیکن روی کانت دوسری نوکری کی تلاش میں خالی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا نہیں رہا اور نوئیڈا کے علاقے میں اپنا فوڈ اسٹال شروع کردیا۔روی کو کھانے سے زیادہ فاسٹ فوڈ آئیٹمس بنانا آتا تھا تو اس نے اپنے اسٹال پر برگر، سینڈوچ اور موک ٹیل بناکر فروخت کرنا شروع کیا اور اب نوکری نہ ہونے کے باوجود روی کانت اپنے فوڈ اسٹال سے اچھا کما رہا ہے۔
قارئین پریشان کن حالات کبھی بھی قبل از وقت اطلاع دے کر نہیں آتے، لیکن جو لوگ عام حالات میں بھی ناگہانی حالات کے لیے منصوبہ بندی کرتے ہیں یا ذہنی طور پر تیار رہتے ہیں وہ ہر طرح کے حالات جھیل پاتے ہیں۔
حالات نارمل ہونے کے بعد وہ کیا کرنا چاہتا ہے؟ تو وینکٹیشورلو چاہتا ہے کہ وہ کاروبار کرے۔ اس کے مطابق کاروبار کے لیے فی الحال اس کے پاس سرمایہ ہے لیکن ماحول مناسب نہ ہونے کی وجہ سے وہ ٹیکسی چلانے پر ہی اکتفاء کر رہا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ کسی طرح اس نے پہلے سوچ رکھا تھا کہ بچی جب 10 ویں کلاس میں آجائے گی تو وہ انڈیا شفٹ ہوجائے گا ۔ اب یہ سمجھ لیجئے کہ وہ ایک سال پہلے انڈیا آگیا ہے۔ اگلے برس اس کی بیوی بھی کویت سے ہمیشہ کے لیے واپس وطن آجائے گی۔قارئین آج کے حالات میں کاروبار کرنے کے لیے روایتی طریقے اور سونچ کو بھی بدلنے کی ضرورت ہے۔ اکیسویں صدی کے چیالنجس میں یہ بھی شامل ہے کہ تجارت اور کاروبار بھی نئے زمانے سے ہم آہنگ ہوں۔کویڈ 19 جہاں دنیا بھر میں اپنی تباہی پھیلا رہا ہے وہیں پر عقل مند اقوام اپنے کاروبار کو بھی کویڈ کے چیالنجس سے ہم آہنگ کرتے ہوئے آگے بڑھنے کے لیے منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔

چیانل نیوز ایشیاء کی 19؍ مئی 2021ء کی رپورٹ کے مطابق تھائی لینڈ کے ٹور آپریٹرس نے ویاکسن ٹورازم کا کاروبار شروع کردیا ہے۔ جس کے تحت 10 دن کے امریکہ کے ٹور کے دوران سیاحوں کو امریکہ کے سیاحتی مقامات کے سیر تو کرائی جائے گی ساتھ ہی انہیں جانسن اینڈ جانسن کی کویڈ ویاکسن کا ٹیکہ بھی لگایا جائے گا۔ اس کے علاوہ روسی ویاکسنSputnik کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے تھائی لینڈ کے ٹور آپریٹرس نے سربیاء کے لیے بھی ٹرپ کا آغاز کیا ہے جس میں سیاحوں کو سیاحت کے ساتھ ساتھ روسی ساختہ ویاکسن کا آفر دیا جارہا ہے۔
قارئین یہ بات بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کاروبار اور بزنس کا مطلب کم قیمت پر خرید کر زائد قیمت پر فروخت کرنا نہیں ہے۔ کم وقت اور کم محنت میں زیادہ منافع کا ہی لالچ تھا کہ کرونا کی جاریہ دوسری لہر کے دوران کتنے نوجوان ایسے ہیں جو ضروری ادویہ خاص کر (Remidesiver) کا انجکشن بلیک میں فروخت کرتے ہوئے پولیس کے ہتھے چڑھ گئے۔
بحیثیت مسلمان جہاں یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ تجارت کرنا سنت ہے وہیں یہ چیز بھی سمجھنی ہوگی کہ لوگوں کی صورت حال اور ضروریات کا استحصال کرنے سے بھی مذہبِ اسلام نے منع کیا ہے۔ ویسے مذہب اسلام کے حوالے سے ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اسلام سے زیادہ دور اندیشی شائد ہی کسی اور مذہب کی تعلیمات میں ملے گی۔کہ مومن دنیا میں کارِ خیر کرتا ہے اور آخرت میں اس کے بدلے بھلائی کی امید کرتا ہے۔ زندگی مختصر ہے تو اس کے دوران کارِ خیر کرنا ہے اور بدلہ آخرت میں چاہنا ہے جہاں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رہنا ہے۔ ان سب بنیادی باتوں کے باوجود مسلم امہ آخرکب اس چیز کو سمجھے گی کہ اللہ رب العزت کی نعمتوں پر شکر ادا کرنا جتنا ضروری ہے وہیں پر پریشانیوں اور مصائب کے حالات میں صبر کرنا بھی دینی تعلیمات کا ہی حصہ ہے۔یقینا بُرے دنوں بُرے حالات اور بُرے کاموں سے ہم سب کو پناہ مانگنی چاہیے لیکن دن، حالات اور صورت حال جب اچھی ہو تو اس دوران ہی تیاری اور منصوبہ بندی کرنی بھی چاہیے کہ بالفرض حالات خراب ہوں تو کیا اسباب اختیار کیے جانے چاہئیں۔

کرونا کے بعد پیدا شدہ حالات نے دو بڑے سبق دیئے ہیں۔ ایک تو یہ کہ ہم لوگ اپنے گھروں میں کسی بھی ناگہانی حالات کے لیے بالکل بھی تیار نہیں ہیں۔ نہ ہم نے کبھی سونچا ہے اور نہ ہی منصوبہ بندی کی ہے۔ دوم مسلمانوں کے ہاں بچت کا تصور بھی بہت کم ہے۔ نتیجہ میں جن کی نوکریاں چلی گئیں جن کے کاروبار پر منفی اثر پڑا وہ حالات سدھرنے کے انتظار میں ہیں۔ بجائے تبدیل شدہ حالات سے اپنے آپ کو ہم آہنگ کریں جن لوگوں نے بچت کی تھی وہ دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے سے بچ گئے اور اکثریت نہ تو اپنے اخراجات کو کم کرنے تیار ہے اور نہ آگے کی منصوبہ بندی کے لیے۔ نتیجتاً ہر دو طرح کے لوگ قرضوں تلے دبتے ہی چلے جارہے ہیں۔ صحت کو چیالنج تو کرونا سے ہے۔ مالی منصوبہ بندی کی کمی اور بچت کے فقدان نے کورونا سے بڑا معاشی چیالنج پیدا کردیا ہے۔
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)
[email protected]