اپنا کام خود کرو!

   

پیارے بچو! شہر سے دُور باغ میں ایک کبوتر نے اپنا گھونسلہ بنایا تھا،جس میں وہ اپنے ننھے ننھے بچوں کو دانہ کھلاتا، دھیرے دھیرے بچوں کے بال و پر بھی نکل رہے تھے۔ایک دن روز کی طرح کبوتر دانہ چونچ میں دبائے باہر سے آیا تو بچوں نے اُسے بتایا کہ اب ہمارا گھونسلہ گر کر برباد ہونے والا ہے کیونکہ آج باغ کا مالک اپنے کمسن بیٹے سے درخت کے نیچے کھڑے ہوکر کہہ رہا تھا : ’’پھل توڑنے کا اب وقت آچکا ہے ، کل مَیں اپنے دوستوں کو ساتھ لاؤں گا اور اُن سے پھل توڑنے کا کام لوں گا۔
کبوتر نے اپنے بچوں کو تسلی دیتے ہوئے کہا : ’’فکر کرنے کی کوئی بات نہیں! باغ کا مالک کل اپنے دوستوں کے ساتھ نہیں آئے گا‘‘۔ چنانچہ حقیقت میں ایسا ہی ہوا۔ باغ کا مالک اگلے دن اپنے دوستوں کے ساتھ پھل توڑنے نہیں آیا۔
کچھ دن بعد باغ کا مالک اپنے کمسن بیٹے کے ساتھ باغ میں پھر آیا اور کہنے لگا :’’میں اُس دن پھل توڑنے نہیں آسکا کیونکہ میرے دوست وعدے کے باوجود نہیں آئے لیکن میرے دوبارہ کہنے پر انہوں نے اب کی بار پکا وعدہ کیا ہے کہ کل وہ ضرور باغ میں پھل توڑنے آئیں گے‘‘۔ کبوتر نے یہ بات بچوں کی زبانی سن کر اطمینان سے کہا: ’’گھبراؤ نہیں میرے بچو! باغ کا مالک کل بھی پھل توڑنے اپنے دوستوں کے ساتھ نہیں آئے گا، اِنشاء اللہ یہ کل بھی سکون سے گزر جائے گا‘‘۔ اسی طرح دوسری مرتبہ بھی باغ کا مالک اور اس کے دوست باغ نہیں آئے۔ آخر ایک روز باغ کا مالک اپنے بیٹے کے ساتھ باغ میں نظر آیا اور بولا: ’’میرے دوست تو بس نام کے ہمدرد ہیں، ہر بار وعدہ کرکے ٹال مٹول کرتے ہیں اور آتے نہیں، لہٰذا اب میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اُن (دوستوں)پر بھروسہ نہ کروں اور اپنا کام مَیں خود انجام دوں۔ انشاء اللہ بیٹے ! ہم یہاں کل ضرور آئیں گے اور اس درخت کے پھل ہم خود توڑیں گے !‘‘
کبوتر نے جب یہ باتیں سنی تو پریشان ہوکر اپنے بچوں سے کہنے لگا : ’’بچو! اب ہمیں اپنا گھونسلہ کسی اور درخت پر بنانا پڑے گا کیونکہ اب کی بار باغ کا مالک ضرور آئے گا کیونکہ اُس نے دوسروں پر بھروسہ کرنا چھوڑ دیا ہے!‘‘
دوراندیش کبوتر کی بات سچ ثابت ہوئی اور باغ کا مالک اپنے کمسن بیٹے کے ساتھ ایک سیڑھی اور دو بڑی لاٹھیاں وہاں لایا اور اُس سیڑھی پر چڑھ کر درخت سے تھوڑی ہی دیر میں سارے پھل نیچے گرادیئے ، اسی دوران کبوتر کا گھونسلہ بھی نیچے گرگیا۔ اچھا ہوا !کبوتر نے عقل مندی اور دوراندیشی سے کام لیتے ہوئے محفوظ جگہ پر اپنا نیا گھونسلہ بنالیا تھا اور باغ کا مالک پھل گرانے کیلئے آنے سے پہلے ہی اُس نے پھرتی سے اپنے بچوں کو نئے گھونسلے میں منتقل کرلیا تھا۔ جبکہ اُدھر باغ کے مالک کا بیٹا ایک بڑے تھیلے میں ایک ایک پھل کو تھیلے میں ڈال رہا تھا۔
دیکھا بچو! باغ کے مالک کو آخر کار درخت کے پکے ہوئے پھل خود ہی توڑنے پڑے ، بس کام آیا تو اُس کا اپنا کم عمر بیٹا ۔ جب تک مالک نے اپنے دوستوں پر یقین کیا کہ وہ آئیں گے اور پھل توڑیں گے ، یہ کام نہ ہوسکا ۔ اس نے اپنے دوستوں پر دو مرتبہ بھروسہ کیا لیکن دوستوں نے دونوں مرتبہ ٹال مٹول سے کام لیا، اسی لئے ہمیں اپنے کام خود ہی کرنا چاہئے اور اگر ہم کو کسی اور سے کام کروانا ضروری ہو تو صرف قابل اور وعدہ کے پکے انسان پرہی یقین کریں تاکہ کام وقت پر ہو اور انتظار کی تکلیف سے بھی بچا جاسکے۔بعض مرتبہ تو دوسروں کی وعدہ خلافی کی قیمت ہم کو نقصان کی صورت میں اُٹھانی پڑتی ہے۔ ٭