روش کمار
’’آپریشن سندور‘‘ پر مباحث میں اپوزیشن ارکان پارلیمان بالخصوص پرینکا گاندھی، راہول گاندھی، اکھیلیش یادو، گورو گوگوئی نے مودی، امیت شاہ اور حکمران بی جے پی کو لاجواب کردیا۔ اپوزیشن کے سوالات پر حکمران جماعت بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئی اور ان سوالوں کے جواب دینے کی بجائے ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگی۔ پرینکا گاندھی نے مباحث میں حصہ لیتے ہوئے ایسے نکات اور سوالات اٹھائے کے پی ایم مودی اینڈ پارٹی کے پاس کوئی واضح جواب نہیں تھا۔ ایک مرحلہ پر پرینکا گاندھی نے یہ کہتے ہوئے مودی اور ان کی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس کی سیاسی بزدلی بے مثال ہے۔ ہم وطنوں کے تئیں جوابدہی کا احساس ہی نہیں ہے۔ سچائی یہ ہے کہ ان کے دل میں عوام کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ ان کے ہر عمل پر کام میں سیاست ہے۔ مفاد پرستی اور مطلب پرستی ہے۔ سب تشہیر ہے، پبلیسٹی ہے۔ ملک کے عوام کیلئے آپ کے دل میں کچھ نہیں رہا۔ بہت وقت ہوچکا ہے۔ آپ اس تشہیر میں ہی مصروف ہیں۔ عوام کو دیکھ نہیں پارہے ہیں۔ اگر اس آپریشن کے دوران ہمارے طیاروں کا نقصان نہیں ہوا تو ایوان میں اس بارے میں صاف صاف کہنے سے کیا ڈر ہے؟ کیوں نہیں کہا ہے؟ وزیر دفاع ہی نے کہا کہ ہمارے انفراسٹرکچر کا نقصان نہیں ہوا تو طیاروں کے بارے میں بھی بتادیں، صاف صاف بتادیں، کیا حرج ہے۔ پولیس والوں کو مار ڈالا اور آپ ان پر نگرانی نہیں رکھ رہے تھے اور یہ ایجنسیاں ہیں، ان کی ذمہ داری کون لے گا۔ کیا انٹلیجنس چیف نے اپنا استعفیٰ دیا، کیا کسی نے استعفیٰ دیا۔ وزیر داخلہ کے دائرہ اختیار میں آتا ہے انٹلیجنس بیورو یعنی ان کے تحت آئی بی کام کرتا ہے۔ کیا وزیر داخلہ نے استعفیٰ دیا۔ استعفیٰ چھوڑیئے، ذمہ دار لی؟ پہلگام حملہ کی کیا کسی نے بھی ذمہ داری لی، وزیر داخلہ اور آئی بی سربراہ نے استعفیٰ دیا۔ پرینکا گاندھی کے خطاب میں اُتار چڑھاؤ نہیں تھا۔ اپنے خطاب کے ایک بڑے حصہ میں پرینکا نے بے حد سپاٹ طریقے سے ان سوالات کو رکھ دیا جو اکثر ایوان کے شور شرابے میں سنائی نہیں دیتے، یا سنائی بھی دیتے ہیں تو ان سے جلد ہی توجہ ہٹ جاتی ہے۔ پرینکا گاندھی نے دہشت گرد تنظیم کی بات کی۔ اس پر حکومت نے بھی بات کی، لیکن اس کا ذکر اپنی کامیابی ظاہر کرنے کیلئے کیا۔ پرینکا گاندھی نے اسی کامیابی کے غبارے میں سوراخ کردیا اور بتایا کہ کیسے حکومت اپنی ناکامیوں سے فرار ہونے کیلئے نہرو کے زمانے کی بات کرنے لگ جاتی ہے۔ جب نہرو کے زمانے کی ناکامیوں پر حکومت بات کرنا ہی چاہتی ہے تو پچھلے 11 سال کی اور پہلگام میں ایجنسیوں کی ناکامیوں پر کیوں بات نہیں کررہی ہے۔ پرینکا گاندھی نے مودی پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہاکہ میں نے کہا دیش کی قیادت صرف کامیابیوں کا سہرا اپنے سَر باندھنے سے مضبوط نہیں ہوتی، کامیابی اور ناکامی دونوں کی ذمہ داری لینے سے بلند ہوتی ہے۔ یہ سونے کا تاج نہیں ہے، کانٹوں کا تاج ہے‘‘۔ پرینکا گاندھی جانتی تھی کہ حکومت کے وزراء جواب دینے نہیں آئے۔ جواب دینے کی بجائے نہرو سے لے کر پٹیل کی تاریخ بار بار پڑھانے آئے ہیں۔ انہیں آدھے اور ادھوری تاریخ کو ملک کے عوام پر لادا جارہا ہے مگر اس سوال کا جواب نہیں دیا جارہا ہے کہ جب دہشت گرد تنظیم پر امریکہ کی پابندی کو وزیر خارجہ اپنی کامیابی میں شمار کررہے تھے۔ وہ دہشت گرد گروپ کب وجود میں آیا اور 5 سال کے دوران مردِ آہن کے الگ الگ خیالات سے بھری موی حکومت اس دہشت گرد گروپ کا خاتمہ نہیں کرپائی۔ آپ نے بھی نوٹ نہیں کیا ہوگا جب لوک سبھا میں وزیر خارجہ ایس جئے شنکر نے دہشت گرد تنظیم TRF کا ذکر کیا اور کہا کہ امریکہ نے اس پر پابندی عائد کردی ہے۔ یہ ہماری بڑی کامیابی ہے۔ اب اس کے پیچھے ایسی کہانی تھی جسے سامنے بیٹھی پرینکا گاندھی سمجھ رہی تھی کہ کتنی بڑی کہانی اس ملک سے چھپائی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا ’’اس حملے کی ذمہ داری ایک دہشت گرد تنظیم جس کا نام ’’ٹی آر ایف‘‘ ہے، تھوڑے دنوں بعد کہتی ہے، کون ہے یہ ٹی آر ایف؟ 2019ء میں یہ گروپ قائم کیا گیا۔ 2020ء میں اس گروپ نے دہشت گرد سرگرمیاں شروع کردیا اور اپریل 2020ء سے لے کر 22 اپریل 2025ء تک ٹی آر ایف نے 25 دہشت گرد حملے کئے۔ وزیر داخلہ نے جب یو پی اے حکومت کے دہشت گرد حملے شمار کئے تو لگ بھگ 25 شمار کئے تھے، ابھی اپنے خطاب میں اس گروپ نے کشمیر میں 25 حملے 2020ء اور 2025ء کے درمیان ہوئے میرے پاس ان حملوں کی پوری فہرست ہے۔ میں اتنا کہوں گی کہ ان میں 2024ء کا حملہ بھی تھا جس میں 9 لوگ مارے گئے اور 41 لوگ زخمی ہوئے 2020ء سے لے کر 22 اپریل 2025ء تک ٹی آر ایف نے 41 فوجیوں اور سیکوریٹی فورسیس کے جوانوں کا قتل کیا۔ 27 دیگر لوگوں کا قتل کیا اور 54 لوگوں کو زخمی کیا۔ حکومت ہند نے ٹی آر ایف کو دہشت گرد تنظیم کا درجہ کب دیا۔ 2020ء میں دیا؟ 2021ء میں دیا۔ 2022ء میں دیا نہیں بلکہ 2023ء میں دیا۔ تین سال بعد تین برسوں کیلئے انہیں دہشت گرد سرگرمیوں کیلئے کھلا چھوڑ دیا گیا اور آپ ان کو دہشت گرد تنظیم تب کہتے ہیں۔ 2023ء میں۔ آخر وزیر داخلہ امیت شاہ نے جب یو پی اے کے وقت پیش آئے دہشت گرد حملوں کو شمار کیا تو گزشتہ 11 برسوں کے دوران کے دہشت گرد حملوں کی بات کیوں نہیں کی؟ پٹھان کورٹ فضائیہ اڈہ پر دہشت گردوں نے حملہ کیا۔ پلوامہ میں حملہ ہوا۔ اُری میں حملہ ہوا، اس کے علاوہ بھی کئی سارے دہشت گرد حملے ہوئے، سرجیکل اسٹرائیکس اور ایر اسٹرائیک کا ذکر کیا گیا لیکن دہشت گرد کیسے، آگئے ابھی تک محفوظ کیسے ہیں جب چاہیں حملہ کیسے کردیتے ہیں۔ امیت شاہ نے اپنی طرف کی کوتاہیوں اور جوابدہی پر کچھ نہیں کیا۔ پرینکا گاندھی جس ٹی آر ایف دہشت گرد تنظیم کی بات کررہی تھیں۔ ان کا یہ دعویٰ صحیح ہے کہ 2023ء میں حکومت ہند نے ٹی آر ایف کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا تب سوال ہے کہ حکومت نے اتنا وقت کیوں لیا؟ جنوری 2023ء کے اخبارات کے تراشے اس بات کا ثبوت ہیں جن میں لکھا ہے کہ وزارت داخلہ نے لشکر طیبہ کی پشت پناہی والی تنظیم ٹی آر ایف کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے۔ لکھا ہے ٹی آر ایف کا 2019ء میں قیام عمل میں آیا۔ دہشت گرد سرگرمیوں کو بڑھانے، دہشت گردوں کی بھرتی اور دہشت گردوں کی دراندازی اور پاکستان سے جموں و کشمیر میں ہتھیاروں اور منشیات کی اسمگلنگ کیلئے نوجوانوں کی بھرتی کررہی ہے۔ یہ تنظیم جموں و کشمیر میں کئی چُن قتل میں ملوث رہا ہے۔ وزارت داخلہ 2023ء میں ٹی آر ایف پر پابندی عائد کرنے کا اعلامیہ جاری کیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اپوزیشن قائدین نے اپنے خطابات کیلئے کتنا ہوم ورک کیا۔ پرینکا گاندھی نے ایک سوال پوچھا کہ 2019ء سے دہشت گرد تنظیم ٹی آر ایف سرگرم ہے۔ 2023ء میں مودی حکومت پابندی عائد کرتی ہے جبکہ اس تنظیم نے فوجی عہدیداروں کو قتل کیا ہے تو اتنا وقت کیوں لگا۔ اس پر پابندی عائد کرنے میں پرینکا ٹی آر ایف کا ذکر اس لئے کررہی تھیں کیونکہ وزیر خارجہ ایس جئے شنکر نے اپنے خطاب میں اس کا ذکر کیا۔ ایک بڑی کامیابی کی شکل میں پیش کیا کہ آپریشن سندور کے بعد امریکہ نے ہندوستان کی پہل پر ٹی آر ایف کو ممنوعہ تنظیم قرار دیا ہے۔ اس وقت شاید ہی کسی کی اس پر توجہ گئی ہو لیکن پرینکا نے اُن کے جھوٹ کو پکڑ لیا تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ 2019ء میں یہ دہشت گرد تنظیم وجود میں آئی۔ حکومت ہند نے اس پر پابندی عائد کرنے میں چار سال کا وقت لیا۔ یہ حکومت کی بڑی ناکامی نہیں ہے۔ 2023ء میں پابندی عائد کرنے کے بعد امریکہ سے پابندی عائد نہیں کرواسکی، اس کیلئے بھی 2 سال کا وقت لگ گیا۔ پہلگام میں 26 لوگوں کو دہشت گردوں نے مارا اس کے بعد جاکر امریکہ نے اس پر پابندی عائد کی ہے۔ اپنی ناکامی کو جئے شنکر کامیابی بتا گئے اور کسی نے دیکھا تک نہیں کہ 2 سال میں خود وزیر خارجہ کتنی مرتبہ امریکہ گئے ہوں گے، وزیراعظم مودی کتنی بار امریکہ گئے ہوں گے، ہندوستان کے ساتھ ٹرمپ کی فرینڈشپ ہے تب بھی ٹی آر ایف پر پابندی عائد نہیں کراسکے۔ یہ تب ہوا جب ’’آپریشن سندور‘‘ ہوا۔
چاچا چوہدری
دوسری طرف راجیہ سبھا میں منوج جھا نے ٹرمپ کا موازنہ ’’چاچا چوہدری‘‘ سے کردیا لیکن لوک سبھا میں وزیراعظم مودی، ٹرمپ کا نام نہیں لے سکے۔ راجیہ سبھا میں منوج جھا نے ایک دوسرا نظریہ پیش کیا کہ ٹرمپ کے بیانات کے خلاف ایوان ایک آواز ہوکر مذمتی قرارداد منظور کرے، کیا مودی حکومت اس کیلئے تیار ہوسکے گی؟ ویسے تو اس میں کوئی مشکل نہیں ہونی چاہئے، کیونکہ ایوان جب ایک آواز سے مذمتی قرارداد منظور کرے گا تو کسی ایک فرد کا نام اس پر نہیں لکھا ہوگا۔ ایوان کے نام سے قرارداد منظور ہوگی تو ایک طرح سے منوج جھا نے وزیراعظم مودی کو بچنے کا ایک دوسرا راستہ بتایا۔ اگر وزیراعظم مودی، ٹرمپ کا نام نہیں لے سکتے تو ایوان ہی ٹرمپ کے بیانات کی مذمت کردے۔ منوج جھا نے حکومت کو گھیرا نہیں بچ نکلنے کا راستہ بھی بند کردیا اور کہا کہ مودی جی آیئے ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ اس لئے میں یہ تجویز پیش کررہا ہوں کہ اس ایوان سے متحدہ طور پر ایک ٹرمپ کے خلاف ایک مذمتی قرارداد پیش اور منظور کرے اور اس ’’صدی کے سب سے بڑے جھوٹے‘‘ کو بے نقاب کرے۔ لوک سبھا میں راہول گاندھی نے وزیراعظم مودی کو چیلنج کیا تھا کہ ٹرمپ کا نام لے کر اُن کی باتوں کی مذمت کردیں۔ سب ہی کو محسوس ہوا اس میں کونسی بڑی بات ہے مگر مودی ایک گھنٹہ 44 منٹ تک بولتے رہے لیکن ٹرمپ کا نام لے کر ان کی مذمت نہیں کی۔