پیارے بچو! مغلیہ سلطنت جس کی تقریباً 331 سال تک ہندوستان پر حکومت رہی ، اُس سلطنت کا تیسرا بادشاہ جلال الدین اکبر تھا جس کے 9 رتن (9 منسٹرس) تھے جس میں سے ایک رتن کا نام ’’بیربل‘‘ تھا۔ بیربل کی ذہانت اور حاضر جوابی کی قصے اور لطیفے ہر کسی نے سنے ہیں۔ بیربل کی عقل مندی نے بیربل کے کردار کو بہت شہرت دلائی تھی۔ ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ بادشاہ اکبر اور اُن کے وزیر بیربل رات میں جب بھیس بدل کر شہر میں گشت کر رہے تھے تاکہ عوام کا حال خود دیکھ سکیں، اسی دوران دونوں کا گزر ایک کسان کی جھونپڑی کے پاس سے ہوا۔کسان ، جھونپڑی کے باہر چارپائی پر بیٹھا تھا۔ اکبر نے اُس سے پوچھا: ’’بھائی! یہ بتاؤ کہ آج کل اکبر بادشاہ کی حکومت میں عوام کا کیا حال ہے؟ کسان نے فوراً جواب دیا: ’’عوام توبہت خوش ہیں۔ ہمارے اکبر بادشاہ کی اس کے راج میں ہر طرف امن ، چین اور خوشحالی ہے ، ہر دن عید ہے ، ہر رات دیوالی ۔اکبر اور بیربل حجام کی باتیں سن کر آگے بڑھ گئے۔اکبر نے بیربل سے فخریہ لہجے میں کہا: ’’بیربل! دیکھا تم نے ہماری سلطنت میں رعایا کتنی خوش ہے؟‘‘ بیربل نے عرض کیا: ’’بے شک! بادشاہ سلامت! آپ کا اقبال بلند ہو، چند روز بعد پھر ایک رات دونوں کا گزر اُسی مقام سے ہوا۔ اکبر نے حجام سے پوچھ لیا: ’’کیسے ہو بھائی؟ حجام نے فوراً جواب دیا: ’’اجی میرا حال کیا پوچھتے ہو! ہر طرف تباہی ہے، اکبر بادشاہ کی حکومت میں ہر آدمی دُکھی اور غمگین ہے۔ستیاناس ہو ، اس منحوس بادشاہ کا!‘‘ اکبر حیران رہ گیا کہ یہی آدمی کچھ دن پہلے بادشاہ کی اتنی تعریف کر رہا تھا اور اب ایسا کیا ہو گیا؟ جہاں تک اس کی معلومات کا سوال تھا، عوام کی بد حالی اور پریشانی کی اطلاع اُسے نہیں تھی۔ اکبر نے حجام سے پوچھنا چاہا: ’’ لوگوں کی تباہی اور بربادی کی وجہ کیا ہے۔ حجام کوئی وجہ بتائے بغیر حکومت کو برا بھلا کہتا رہا۔اکبر اس کی بات سے پریشان ہو گیا۔ الگ جا کر بادشاہ نے بیربل سے پوچھا : ’’آخر اس شخص نے یہ سب کیوں کہا ؟‘‘بیربل نے جیب سے ایک تھیلی نکالی اور بادشاہ سے کہا: ’’ اس میں 10 اشرفیاں ہیں، دراصل مَیں نے 2 دن پہلے اُس کی جھونپڑی سے چوری کروا لی تھی۔ جب تک اس کی جھونپڑی میں مال تھا، اُسے بادشاہ اور حکومت سب کچھ اچھے لگ رہے تھے اور اپنی طرح وہ سب کو خوش اور سکھی سمجھ رہا تھا لیکن اب وہ اپنی دولت لٹ جانے سے غمگین ہے ، تو اُسے ساری دنیا تباہی اور بربادی میں مبتلا نظر آرہی ہے۔ حضور! مَیں آپ کو اس بات کا احساس دلانا چاہتا تھا کہ ایک فرد اپنی خوشحالی کی وجہ سے دوسروں کو خوش سمجھتا ہے، لیکن بادشاہوں اور حکمرانوں کیلئے عوام یا رعایا کا دُکھ درد سمجھنے کیلئے اپنی ذات سے باہر نکل کر دُور تک دیکھنا اور صورتحال کو سمجھنا ضروری ہوتاہے تبھی وہ بادشاہ اپنی رعایا کی ضرورتوں اور مسائل کو حل کرکے انہیں خوشحال بناسکتا ہے۔
سبق : بچو! اگر تم مسلمانوں کی تاریخ جاننے کی کوشش کرو گے تو تمہارے سامنے یہ بات بار بار آئے گی کہ سب سے بہترین حکومت اگر ہو سکتی ہے تو وہ صرف اور صرف اسلامی تعلیمات اور اللہ کے بنائے ہوئے اُصولوں پر عمل کرنے ہی سے ہوسکتی ہے، کیونکہ تم انٹرنیٹ کے ذریعہ دنیا کے مختلف ملکوں میں موجود صدر یا وزیراعظم یا پھر مختلف بادشاہوں کی حکمرانی کے طریقے اور پالیسیوں کو دیکھیں تو تمہیں ان حکمرانوں کی اکثریت کو عوام دشمن پاؤگے ، چند ایک حکمرانوں کو چھوڑ کریہ صدر یا وزیراعظم اپنے عوام کی خدمت کے بجائے اپنے فیملی کو عیش عشرت اور ٹھاٹ باٹ والی زندگی دیتے ہوئے نظر آئیں گے، ان کو صرف انتخابات میں کامیابی کے وقت ہی عوام کی فکر ہوتی ہے، الیکشن جیتنے کے ساتھ ہی وہ عوام کو اور اُن کے مسائل کو نظرانداز کردیتے ہیں، لہٰذابچو ! بہترین حکمران وہی ہے جو پبلک کے مسائل کو جلد سے جلد حل کرنے کیلئے جان توڑ محنت کرے اور خود بھی سادہ زندگی گزارے اور اپنے وزراء کو بھی شاہ خرچیوں سے روکے۔