اگر ہے جھوٹ پہ قائم نظام دنیا کا

   

کانگریس کو کس نے ہرایا… بی جے پی یا مشین؟
کشمیر … دفعہ 370 کے حق میں عوام کا فیصلہ

رشیدالدین
ہریانہ اور جموں و کشمیر اسمبلی انتخابات کے نتائج اگرچہ بی جے پی اور کانگریس کے درمیان 1-1 سے ٹائی ہوگئے لیکن سیاسی تجزیہ نگاروں اور عوام کو یقین نہیں ہوپارہا ہے کہ واقعی معاملہ برابری پر ختم ہوا۔ دونوں ریاستوں کی مہم کے دوران اوپنین پول اور رائے دہی کے بعد اگزٹ پول میں دونوں ریاستوں میں بی جے پی کی شکست کی پیش قیاسی کی گئی تھی لیکن نتائج کے دن اچانک ہریانہ میں بی جے پی کی ہوا چلنے لگی۔ بی جے پی نے مرکز کی طرح ہیٹ ٹرک کرتے ہوئے ہر کسی کو حیرت میں ڈال دیا۔ انتخابی مہم کے دوران ہی نریندر مودی نے ہریانہ کی ہار کو تسلیم کرتے ہوئے انتخابی مہم سے دوری اختیار کرلی تھی۔ رائے دہی کے اختتام کے بعد گودی میڈیا چیانلس نے بھی کانگریس کی کامیابی کی پیش قیاسی کی تھی ۔ ایک بھی چیانل ایسا نہیں تھا جس نے بی جے پی حکومت کا دعوی کیا ہو۔ عام طور پر اگزٹ پول عوامی فیصلہ کی عکاسی کرتے ہیں اور بہت کم اگزٹ پول غلط ثابت ہوئے لیکن ہریانہ کے معاملہ میں نتائج الٹ گئے اور مودی میجک نے اپنا کام کر دکھایا۔ مودی میجک اگرچہ ملک میں کمزور ہوچکا ہے لیکن ہریانہ میں میجک سے کامیابی کس طرح حاصل کی گئی ، اس پر سوالیہ نشان ہے۔ 10 سالہ بی جے پی اقتدار نے ہریانہ میں حکومت کے خلاف عوامی لہر پیدا کردی تھی جس کے نتیجہ میں بی جے پی میں الیکشن سے 8 ماہ قبل چیف منسٹر کو تبدیل کردیا۔ نتائج کے بعد تجزیہ نگاروں نے دو سوالات عوام کے درمیان رکھے ہیں۔ کانگریس جیتی ہوئی بازی کیسے ہار گئی؟ کانگریس کو کس نے ہرایا، بی جے پی یا ووٹنگ مشین؟ کانگریس ہیڈکوارٹر میں رائے شماری کی صبح جشن کا آغاز ہوچکا تھا لیکن دو گھنٹے میں منظر تبدیل ہوگیا۔ کانگریس قائدین کے منہ سے جلیبی کس نے چھین لی یہ ایک معمہ ہے ۔ نتائج کے بعد تجزیہ نگار کانگریس کی گروہ بندیوں کو شکست کے لئے ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کانگریس اور گروہ بندیاں کوئی نئی بات نہیں اور یہ کانگریس کے لئے لازم اور ملزوم کی طرح ہیں۔ کانگریس پارٹی ہو اور اس میں گروہ بندی نہ ہو ، ایسا ممکن نہیں۔ 140 سال کی تاریخ رکھنے والی پارٹی میں گروپس کا ہونا فطری ہے۔ 6 اپریل 1980 کو قائم ہونے والی بی جے پی میں محض 44 سال کے وقفہ میں گروہ بندیاں عروج پر ہیں۔ کانگریس تو بی جے پی سے 100 سال سینئر ہے۔ کانگریس کی شکست کے لئے سب سے آسان بہانہ گروہ بندی بن چکا ہے ۔ یہ کہہ کر دیگر وجوہات سے توجہ ہٹادی جاتی ہے۔ کانگریس قیادت نے کبھی نہیں کہا کہ گروہ بندیوں سے پارٹی کو شکست ہوئی ۔ ہریانہ کی انتخابی مہم ، رائے دہی کے رجحان اور پھر رائے شماری کا گہرائی سے جائزہ لیں تو دال میں کچھ کالا نظر آئے گا۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ الیکشن کمیشن نے بی جے پی کی کامیابی میں اہم رول ادا کیا۔ رائے شماری کے ابتدائی رجحانات میں کانگریس 70 نشستوں پر سبقت حاصل کرچکی تھی ۔ اس کے بعد تقریباً 4 گھنٹوں تک رائے شماری کے حقیقی رجحانات کے برعکس بی جے پی کی برتری ظاہر کی گئی۔ رائے شماری میں مصروف عہدیداروں اور ایڈمنسٹریشن تک یہ خاموش پیام پہنچادیا گیا کہ بی جے پی ہریانہ میں واپس ہورہی ہے۔ پھر کیا تھا نظم و نسق کا جھکاو بھی بی جے پی کی طرف ہوگیا اور رائے شماری کے دوران جو حربے استعمال کئے جاسکتے تھے، ان کا سہارا لے کر کانگریس کی جیت کو ہار میں تبدیل کردیا گیا ۔ بعض گوشے کانگریس میں جاٹ طبقہ کی اجارہ داری سے دلتوں کے ووٹ سے محرومی کی بات کر رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس ریاست سے کسانوں کا آندولن چلایا گیا اور جس ریاست میں خاتون پہلوانوں نے اپنی عزت اور وقار کی لڑائی لڑی ، اسی ریاست میں کسانوں اور کھلاڑیوں کے ووٹ بی جے پی کو کیسے مل سکتے ہیں۔ ہریانہ کے نتائج کے بارے میں الیکشن کمیشن کی وضاحت سے شبہات کا ازالہ نہیں ہوسکتا۔ تجزیہ نگاروں نے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں میں الٹ پھیر کے امکانات کو مسترد نہیں کیا ہے۔ الیکشن کمیشن ای وی ایم مشینوں کے محفوظ اور فل پروف ہونے کا لاکھ دعوی کرلے لیکن اسرائیل نے حال ہی میں لبنان میں حزب اللہ کے Pagers اور واکی ٹاکی میں جس طرح دھماکے کئے، اس نے ثابت کردیا کہ کسی بھی مشین میں مداخلت کی جاسکتی ہے۔ پیجر اور واکی ٹاکی کے سسٹم میں اسرائیل نے اپنی عصری ٹکنالوجی کے ذریعہ مداخلت کرتے ہوئے ان آلات کو بم میں تبدیل کرتے ہوئے یہ ثابت کردیا کہ دنیا میں اب کوئی بھی مشین محفوظ نہیں۔ آج پیجر اور واکی ٹاکی تو کل موبائیل فون میں بھی دھماکے کئے جاسکتے ہیں۔ ویسے بھی سائبر مجرمین نے سرکاری اداروں کے ویب سائیٹس کو ہیک کرتے ہوئے اپنی مہارت کا مظاہرہ کیا۔ عوام کے بینک اکاؤنٹس تک رسائی حاصل کرنا سائبر کریمنلس کے لئے بائیں ہاتھ کا کھیل بن چکا ہے۔ اسرائیل میں بیٹھ کر جب لبنان اور فلسطین کے پیجر اور واکی ٹاکی کو بم میں تبدیل کیا جاسکتا ہے تو پھر الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں میں مداخلت اور الٹ پھیر کونسی بڑی بات ہے ۔ ٹکنالوجی کے اس خطرہ نے ترقی یافتہ ممالک کو بیالٹ پیپرس کے ذریعہ الیکشن پر مجبور کردیا ہے ۔ امریکہ ، برطانیہ ، روس ، چین ، جاپان اور دیگر ممالک میں ووٹنگ کیلئے مشینوں کا نہیں بلکہ بیالٹ پیپر کا استعمال ہوتا ہے۔ ہندوستان میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کو ترک کرنے کیلئے قومی سطح پر مہم کی ضرورت ہے ، ورنہ بی جے پی دیگر ریاستوں میں بھی یہی حربہ استعمال کرسکتی ہے ۔
جموں و کشمیر میں عوام نے بی جے پی کو بری طرح مسترد کردیا حالانکہ دفعہ 370 کی برخواستگی کے پانچ برسوں میں وزیراعظم نریندر مودی اور مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے کشمیر کا بارہا دورہ کرتے ہوئے عوامی تائید کا دعویٰ کیا تھا ۔ جموں میں جہاں اکثریتی طبقہ کی آبادی ہے، وہاں بی جے پی کو 43 میں 29 نشستیں حاصل ہوئیں جبکہ وادی کشمیر کی 47 نشستوں میں بی جے پی اپنا کھاتہ نہیں کھول سکی۔ نیشنل کانفرنس کو عوام نے اقتدار عطا کیا اور عمر عبداللہ چیف منسٹر ہوں گے۔ 10 سال کی سیاسی جدوجہد کے بعد عبداللہ خاندان نے سیاسی واپسی کی ہے۔ کشمیر کے خصوصی موقف کی برخواستگی کے پانچ سال بعد ہوئے الیکشن میں عوام نے یہ ثابت کردیا کہ وہ دفعہ 370 کی برخواستگی کے خلاف ہیں۔ بی جے پی نے ریاست کا موقف بحال کرنے کا تیقن دیا تھا باوجود اس کے نتائج سے یہ ثابت ہوگیا کہ کشمیری عوام کے لئے علحدہ ریاست سے بڑھ کر دفعہ 370 اہمیت کا حامل ہے۔ نریندر مودی نے کشمیریت ، انسانیت اور جمہوریت کا نعرہ لگایا لیکن وادی کشمیر کے رائے دہندوں نے کشمیری جماعتوں کا ساتھ دے کر یہ ثابت کردیا کہ ان کے مفادات کی تکمیل بی جے پی نہیں کرسکتی۔ وزیراعظم نریندر مودی 5 اگست 2019 کو پارلیمنٹ کے ذریعہ دفعہ 370 کو ختم کرنے کے بعد وادی میں سینہ تان کر گھوم رہے تھے۔ بی جے پی کا مقصد ملک کی واحد مسلم اکثریتی ریاست کو تقسیم کرتے ہوئے ہندو اکثریتی دو ریاستوں کا قیام تھا۔ نریندر مودی اور امیت شاہ نے انتخابی مہم میں فاروق عبداللہ ، محبوبہ مفتی اور گاندھی خاندان کو نشانہ بنایا جبکہ تینوں خاندانوں کا کشمیری عوام سے اٹوٹ رشتہ رہا ہے۔ شیخ عبداللہ نے کشمیر کو ہندوستان کے ساتھ جوڑے رکھنے میں اہم رول ادا کیا تھا۔ عوام نے تینوں خاندانوں کے احسانات کا بدلہ چکانے کی کوشش کی اور نیشنل کانفرنس کو اقتدار عطا کیا۔ نتائج کے بعد نریندر مودی نے کشمیر کے نتائج کو جمہوریت کی کامیابی قرار دیا اور ان کا یہ تبصرہ محض زبانی اور دکھاوے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اگر کشمیری عوام کے جذبات کا اتنا ہی خیال ہوتا تو دفعہ 370 کو ختم نہ کیا جاتا اور نہ ہی ریاست کے دو ٹکڑے کئے جاتے۔ عوامی فیصلہ کا احترام کرتے ہوئے مرکزی حکومت کو نہ صرف ریاست کا موقف بلکہ دفعہ 370 کی بحالی کا فیصلہ کرنا چاہئے ۔ بی جے پی نے لیفٹننٹ گورنر کے ذریعہ پانچ نامزد ارکان اسمبلی کے ذریعہ بی جے پی کے اقتدار کی کوشش ضرور کی تھی لیکن رائے دہندوں نے اسے کامیاب ہونے نہیں دیا۔ امید کی جارہی ہے کہ کشمیر میں نیشنل کانفرنس اور کانگریس کی مخلوط حکومت سے گزشتہ پانچ برسوں میں ذہنی اذیت کا شکار کشمیری عوام کے گھروں میں خوشیاں لوٹ آئیں گی۔ کشمیر میں انسانی حقوق کا تحفظ اور نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی پر توجہ کی ضرورت ہے۔ دفعہ 370 کی برخواستگی کے بعد احتجاج کرنے والے سینکڑوں عوامی قائدین اور کارکنوں کی رہائی کی امید کی جارہی ہے۔ موجودہ حالات پر معراج فیض آبادی کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
اگر ہے جھوٹ پہ قائم نظام دنیا کا
تو پھر جدھر ہے زمانہ اُدھر نہ جاؤں میں