جگدیپ ایس چوکر
آج کل ملک میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی تائید و حمایت میں اور اس کے استعمال کی مخالفت میں بیانات کا سلسلہ جاری ہے۔ اپوزیشن جماعتیں چاہتی ہیں کہ لوک سبھا انتخابات 2024ء کا انعقاد الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعہ نہیں بلکہ بیالٹ پیپر کے ذریعہ عمل میں لایا جائے جبکہ حکمراں بی جے پی اور اس کی سرپرست تنظیم آر ایس ایس اس بات کی خواہاں ہے کہ ای وی ایم کے ذریعہ ہی انتخابات منعقد کئے جائیں۔ اس معاملہ میں انتخابات کروانے کا ذمہ دار الیکشن کمیشن بھی پوری طرح حکمراں پارٹی کے ساتھ ہے۔ اس کا دعوی ہے کہ ای وی ایم میں کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ نہیں کی جاسکتی۔ اس بارے میں کچھ اپنے خیالات کو تحریری شکل دینے سے قبل آپ کو یہ بتانا چاہوں گا کہ تقریباً دو دہوں (بیس برسوں) سے راقم الحروف ملک میں انتخابی نظام کا مبصر رہا ہے۔ آپ کو یہ بھی بتادوں کہ اُن ابتدائی دنوں میں جب بڑے پیمانے پر پہلی مرتبہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا استعمال کیا گیا، میں نے سیول سوسائٹی کے ایک رکن کی حیثیت سے الیکشن کمیشن آف انڈیا کے دفتر میں منعقد شدنی اجلاس میں شرکت کی ہے۔ میں نے اس وقت الیکشن کمیشن آف انڈیا کو بتایا تھا کہ ای وی ایم مشین ٹھیک تھیں، سب سے بڑی تشویش کا مسئلہ ووٹنگ مشین کا تعامل تھا۔ سب سے اہم بات اُس وقت ایسے رائے دہندوں کا حاصل کرنا ایک بہت بڑا چیلنج تھا جو ٹیکنالوجی سے واقف نہیں تھے۔ جو TECH SAVVY نہیں تھے اور اب بھی ہمارے ملک میں ایسے بہت سارے رائے دہندے ہیں جو یہ نہیں جانتے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال کیسے کریں۔ بہرحال ای وی ایم کا استعمال شروع ہونے کے بعد سے اب تک بہت کچھ ہوچکا۔ کہیں مخالفت کی گئی تو کہیں ای وی ایم کی تائید و حمایت کی گئی اور اب تو ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ای وی ایم کا استعمال جاری رہے گا۔ تاہم ا ب بھی الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے معتبر ہونے اور الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم پر انحصار سے متعلق کئی شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں اور ان شکوک و شبہات میں گزرتے وقت کے ساتھ اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ جہاں تک اس مسئلہ پر لکھنے اور کچھ کہنے کا سوال ہے اس بارے میں بہت کچھ لکھا اور بولا جاچکا ہے اور اسی پر عمل کرتے ہوئے میں نے کافی عرصہ قبل یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ اس بارے میں کوئی نئی بات نہیں کہی جاسکتی اس لیے میں نے یہ تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔ تاہم حالیہ عرصہ کے دوران میری نظروں سے ای وی ایم سے متعلق کچھ نمایاں تبصرے گزرے اور وہی تبصرے مجھے اس پر کچھ لکھنے کچھ بولنے پر آمادہ کیا۔
ای وی ایس بمقابلہ ای وی ایم:
پہلا مسئلہ اصطلاحات کا ہے اور یہ صرف ایک لفظ کی جگہ دوسرے لفظ کے استعمال کا معاملہ نہیں ہے، اس معاملہ میں یہ ایک ذہنیت کا عکاسی کرتا ہے جب ای وی ایم کو پہلی مرتبہ متعارف کروایا گیا تھا تو سب سے پہلے اس کی ایک اہم خصوصیت کا دعوی کیا گیا تھا کہ یہ وہ ہے جسے STAND-ALONE مشین کہا جاتا ہے جسے کسی بیرونی ذرائع یا ڈیوائس سے جوڑا نہیں جاسکتا اور بے شک اب جب سے ووٹر ویریفی ایبل پیپر آڈٹ ٹرپل (VVPAT) متعارف کروایا گیا۔ ای وی ایم ایک Stand Alone مشین نہیں رہی بلکہ تین مشینوں کا ایک گروپ بن گئی ہے ایک تو ای وی ایم دوسرا وی وی پی اے ٹی مشین اور تیسرا ایک کنٹرول یونٹ اور اس طرح یہ تینوں مشینیں مل کر ایک نظام بناتی ہیں جسے صحیح طور پر ایک الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم کہا جانا چاہئے۔
یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ ای وی ایس کسی بھی طرح Stand Alone باقی نہیں رہا کیوں کہ VVPAT مشینوں کو ان بیرونی آلات یا ڈیوائس (لیاپ ٹاپ) سے مربوط کرتے ہوئے اضافی معلومات فراہم کرنی پڑتی ہے جو کہ ای وی ایس کا حصہ نہیں ہے۔ ای وی ایمس کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے تمام بحث کو اصل میں تین مشینوں کے ایک گروپ کا حوالہ دینے سے بہت سارے رائے دہندوں کو ایک عام الجھن میں مبتلا کرنے کا رجحان پیدا ہوتا ہے۔ اب بھی جو سمجھتے ہیں کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین بحث ہورہی ہے یہ صرف وہی لوگ ہیں جو ممکنہ طور پر اس الجھن کو پسند کرتے ہیں اور جو اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور اس مسئلہ پر پیدا جمود کو جاری رہنے دیتے ہیں۔
ٹیکنالوجی بمقابلہ سادگی :
کئی برسوں سے اس مسئلہ کے حل کے لیے بے شمار تجاویز پیش کی گئیں اور جتنی بھی تجاویز اور مشورے دیئے گئے ان کی ایک عام اور مشترکہ خاصیت یہ رہی کہ ان میں ٹیکنالوجی پر زیادہ سے زیادہ انحصار کی بات کی گئی۔ حال ہی میں ایک ٹیکنیکل ایکسپرٹ نے اپنے ایک انٹرویو کے دوران جو کچھ کہا اس کی بنیاد پر میں نے کچھ باتیں آپ کے سامنے پیش کی ہیں۔ مثلاً ٹیکنالوجی پر مرکوز حل اس عام خیال کی حمایت کرتے ہیں کہ انتہائی عصری ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے یا اس عصری ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھاتے ہوئے تمام مسائل حل کئے جاسکتے ہیں۔ یہ واقعی بہت ساری صورتحال میں بالکل سچ ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ وہ تمام حالات میں سچ ہو اور ہندوستان میں الیکٹرانک ووٹنگ کی صورتحال بھی ایسی ہی ایک صورتحال ہے۔
تجویز کردہ حل :
یہ دیکھتے ہوئے کہ ایک اہم، اگر زیادہ نہیں تو ہمارے وطن عزیز ہندوستان میں رائے دہندوں کا تناسب مکمل طور پر تعلیم یافتہ نہیں ہے اور بہت سے TECH SAVVY (ٹیکنالوجی سے واقف اور ٹیکنالوجی استعمال کرنے کے قابل) نہیں ہے۔ اس ضمن میں یہ بتانا ضروری ہے اس بات کی نشاندہی ضروری ہے کہ ایک سادہ یا اسمارٹ سیل فون کا استعمال کسی کو Tech Savvy نہیں بناتا ایسے میں میری اپنی تجویز ہے کہ ہم اس مقصد کے لیے آسان ٹیکنالوجی کا استعمال کریں۔ چونکہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کچھ عرصہ سے استعمال میں ہے اور عام طور پر رائے دہندے ان کے استعمال سے واقف بھی ہیں ایسے میں EVMs کو برقرار رکھا جانا چاہئے۔
٭ وی وی پیاٹس اور کنٹرول یونٹس کو ہٹادینا چاہئے اور ان کی جگہ ایک سیدھا سادہ ایک ایسا پرنٹر استعمال کیا جانا چاہئے جو ایک سلپ پرنٹ یا شائع کرے جس میں رائے دہندہ نے جس امیدوار کو ووٹ دیا اس کا نام اور انتخابی نشان کے ساتھ ایک بارکوڈ بھی ہونا چاہئے جس سے مشین سلپس کی گنتی کرسکے۔
٭ اس پیپر کو جس پر مذکورہ معلومات پرنٹ کی ہوئی ہوں اچھی اور پائیدار کوالٹی کا ہونا چاہئے یعنی یہ ایسا پیپر ہو جس پر شائع یا چھپی ہوئی معلومات کو کم از کم سات برسوں تک برقرار رکھنے کے قابل ہو (موجودہ کاغذ کے برعکس جس سے چھپی ہوئی چیز/ معلومات مبینہ طور پر تھوڑے ہی عرصہ کے بعد غائب ہوجاتی ہے)
٭ ووٹر براہ راست پرنٹر سے پرچی حاصل کرنے کے قابل ہونا چاہئے (بغیر کسی انتخابی اہلکار کو کسی بھی طرح سے ووٹر کی مداخلت یا مدد کرنے کی ضرورت ہے) پرچی کو ایک عام بیالٹ باکس میں رکھیں۔ عام بیالٹ باکس میں موجود تمام پرچیوں کو ہر پرچی پر چھپے ہوئے بارکوڈ کی بنیاد پر مشین کے ذریعہ شمار کیا جانا چاہئے۔ بارکوڈ پر مبنی گنتی مشینوں کا استعمال کرتے ہوئے گنتی کے اس عمل میں زیادہ دن نہیں لگنے چاہئے جیسا کہ ای سی آئی کے ذریعہ پکڑا گیا ہے جب بھی VVPAT پرچی کی سو فیصد گنتی کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور جس میں ماضی میں عدالت عظمی کو مداخلت کرنی پڑی ہے۔ یہ تجویز VVPATS کے بارے میں پیدا ہونے والی تمام پیچیدگیوں اور شکوک و شبہات کو نظرانداز کرتی ہے۔
بہرحال تجویز کردہ نظام کو Fine Tuning کی ضرورت ہوگی یعنی اسے بہتر انداز میں ڈھالنے کی ضرورت ہوگی اور ہمارے ملک میں اس نظام کے ماہرین کی کوئی کمی نہیں ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جس ملک نے چاند پر چندریان اتاری ہو ووٹنگ سسٹم کو بھی بآسانی بہتر سے بہتر بناسکتا ہے۔