روش کمار
انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ اور دوسری مرکزی تحقیقاتی ایجنسیوں کے بارے میں اپوزیشن نے ہمیشہ شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے ان ایجنسیوں پر گودی میڈیا کو چھوڑ کر تمام نے یہی الزامات عائد کئے کہ وہ حکومت کے دباؤ میں اور اس کے اشاروں پر کام کرتی ہیں اس ضمن میں اپوزیشن نے باضابطہ بطور ثبوت کئی واقعات کی مثالیں پیش کی اور حد تو یہ ہیکہ سپریم کورٹ بھی اس تعلق سے ریمارکس کرچکی ہے ۔ ای ڈی پر شکوک و شبہات سے متعلق یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس پر اپوزیشن جماعتیں شکوک و شبہات کا اظہارکررہی تھیں لیکن اب سپریم کورٹ کو بھی اسی تحقیقاتی ایجنسی کی غیرجانبداری پر شک ہونے لگا ہے ، دہلی شراب اسکام میں سنجے سنگھ ، منیش سیسوڈیا اور اب کے کویتا کو ضمانت دیتے وقت ’’ سپریم کورٹ نے ای ڈی کو لیکر جو کہا ہے اس کے بعد اس تحقیقاتی ایجنسی کی کیا ساکھ رہ جاتی ہے۔ عدالت کی یہ تنقید صرف ای ڈی تک محدود نہیں ہے بلکہ وزیراعظم مودی پر بھی ہے جو اکثر ان ایجنسیوں کا آخری حد تک بچاو کرتے ہیں ان کے دور میں جس طرح انفورسمنٹ ڈائرکٹویٹ اور سی پی آئی نے اپوزیشن لیڈروں ، سماجی جہدکاروں اور صحافیوں کے خلاف کارروائیاں کی ہیں ۔ سپریم کورٹ کے تنقیدی تبصرے اب بتانے لگ گئے ہیں کہ عدالت کیلئے یہ سب برداشت کرنا ممکن نہیں رہا ہے ۔ سپریم کورٹ صرف ای ڈی پر تنقید نہیں کررہا ہے بلکہ ان معاملوں میں تحت کی عدالتوں اور ہائی کورٹ کے فیصلوں پر بھی کڑی تنقید کررہا ہے ۔ ہائیکورٹ کو انصاف کے بنیادی اصولوں کا سبق پڑھانا پڑرہا ہے ۔ ای ڈی کی وجہ سے عدالت کو اتنا کچھ کرنا پڑرہا ہے۔ یہ سب کچھ آپ کے سامنے ہورہا تھا اور اب سب کچھ آپ کے ہی سامنے باہر آنے لگا ہے ۔ مارچ کے ماہ میں کے کویتا کو دہلی شراب اسکام میں گرفتار کیا گیا اس وقت لوک سبھا انتخابات چل رہے تھے ۔ 5 ماہ جیل میں رہنے کے بعد 27 اگسٹ کو انہیں ضمانت ملی ہے ۔ تلنگانہ کے سابق چیف منسٹر کے چندرشیکھرراو کی بیٹی اور بی آر ایس لیڈر کے کویتا کو بھی دہلی شراب اسکام میں کرپشن اور منی لانڈرنگ کیس میں گرفتار کیا گیا تھا ۔ جسٹس بی آر گوائی اور جسٹس کے وی وشواناتھ پر مشتمل ڈیویژن بنچ اس کیس کی سماعت کررہی تھی اس بنچ نے سی بی آئی اور ای ڈی کی غیرجانبداری پر سوال اُٹھاتے ہوئے کہا کہ کچھ ملزمین کو سرکاری گواہ بنانے میں ان کے اقدامات کا طریقہ کار صحیح نہیں لگتا۔ جسٹس بی آر گوائی نے کہا کہ پراسکیوٹرس کو غیرجانبدار ہونا ہی چاہئے جو فرد قصوروار نظر آتا ہے ۔ اسے سرکاری گواہ بنادیا جاتا ہے کل آپ اپنی مرضی سے کسی کو بھی اُٹھاکر گواہ بنادیں گے آپ کسی بھی ملزم کو چن کر گواہ نہیں بناسکتے ہیں یہ کس طرح کی غیرجانبداری ہے ؟ کیا یہی منصفانہ اور غیرجانبداری ہے ۔ ہم نے جسٹس بی آر گوائی کے ان تنقیدی ریمارکس کا ترجمہ نہیں کیا ہے لیکن ان کے کہنے کا یہی مطلب ہے ، دہلی شراب اسکام میں ای ڈی نے جسے گرفتار کیا ان میں سے کئی کو گواہ بنادیا اور گواہ بناتے ہی انہیں ضمانت مل گئی ان کی گواہی پر دوسرے لوگ جیل میں چلے آئے ۔ گواہوں والی یہ بات اس کیس میں بہت اہم ہے یہ تو مارچ کے ماہ سے سپریم کورٹ کے سامنے کہی جارہی ہے جب سنجے سنگھ کے معاملہ میں سنوائی ہورہی تھی تب ہی سپریم کورٹ کے سامنے ان کے وکیل نے یہی کہا ۔ ابھیشک سنگھوی کا استدلال تھا کہ جس فرد کے بیان کی بنیاد پر گرفتاری ہوئی اس نے سنجے سنگھ کا نام لینے سے پہلے 9 بیانات میں ان کا نام ہی نہیں لیا ۔ سنجے سنگھ سے رقم کی کوئی برآمدگی نہیں ہوئی اور اب وہی دنیش اروڑہ سرکاری گواہ بن گیا ۔ ای ڈی نے اپنے اعتراضیات ہٹا لئے ۔ اگسٹ 2023 ء میں دنیش اروڑہ کو ضمانت مل گئی ۔ اس وقت سماعت کرنے والی عدالت نے کہا تھا کہ ای ڈی اسمارٹ بن رہی ہے ۔ سنگھوی نے بتایا کہ دنیش اروڑہ نے عدالتی تحویل میں بھیجے جانے کے بعد پہلی بار سنجے سنگھ پر الزام عائد کیا ۔ ابھیشک سنگھوی نے دنیش اروڑہ کو ای ڈی کا اسٹار گواہ بتایا جسے اسے معافی مل گئی ۔ سنگھوی نے عدالت میں کہا کہ وائی کو چھوڑ کر ایکس پر منحصر ہونے پر عدالت کو روک لگانی ہوگی یہی نہیں اریندو فارما کے شرت ریڈی کو ای ڈی کا گواہ بنتے ہی معافی دے دی گئی اور ضمانت مل گئی ان کی کمپنی نے بھاجپا کو 55 کروڑ روپئے کا چندہ دیا ۔ سنجے سنگھ کا یہ بیان پرانا ہے لیکن سرکاری گواہوں سے متعلق فٹ بیٹھتا ہے ۔ انہوں نے کہا تھا ’’ مودی جی کیا کہتے ہیں مودی جی کہتے ہیں بدعنوانیوں کا ارتکاب کرنے والوں کو نہیں چھوڑوں گا ۔ رشوت خوروں کو چھوڑوں گا نہیں ۔ مشرق سے لیکر مغرب تک شمال سے لیکر جنوب تک جتنے بدعنوان ہیں سب کو بی جے پی میں شامل کروں گا ۔ بی جے پی سر سے لیکر پاؤ تک شراب گھوٹالہ میں ڈوبی ہوئی ہے یاد رکھنا 55 کروڑ روپئے کی رشوت کھلے عام اسی ( بی جے پی ) نے کمائی ہے کس سے کمائی ہے شرت ریڈی سے شراب کے کاروباری سے اور اس کے بارے میں بتایا گیا کلیدی ملزم اور پھر بھاجپا قائدین اس سے ملاقات کرتے ہیں وہ کہتا ہے میں تو کلیدی ملزم ہوں لیکن بھاجپائی کہنے لگے 55 کروڑ کا پن گاڑھو ہم تمہیں King بنادیں گے اس نے 55 کروڑ روپئے کا ین گاڑھا اور بھاجپائیوں نے گڈی گننا شروع کی اس سے کہا کہ تم تو کنگ ہو کنگ ہو شرت ریڈی زندہ باد ، شراب گھوٹالہ بی جے پی کے لوگوں نے کیا ہے ‘‘ ۔
بہرحال سنجے سنگھ ، منیش سیسوڈیا اور کے کویتا کی ضمانتوں میں یکسانیت پائی جاتی ہے ۔ عدالت نے کہا کہ کئی ماہ ہوچکے ہیں چارج شیٹ داخل کی جاچکی ہے مقدمہ طویل عرصہ تک چلنے والا ہے اس لئے انہیں جیل میں رکھنے کی ضرورت نہیں ، ایڈیشنل سالیسٹر جنرل ایس وی راجو نے کچھ دیر کے بعد بحث کرنی بند کردی اور صرف اتنا کہا کہ وہ حکم لینا چاہتے ہیں مگر ڈیویژن بنچ نے سماعت روکنے سے انکار کردیا اور فیصلہ لکھوانا شروع کردیا ۔
ڈیویژن بنچ نے کہا کہ تحقیقات پوری ہوچکی ہے ۔ سی بی آئی اور ای ڈی نے چارج شیٹ داخل کردی ہے اور اب ان سے حراست میں پوچھ تاچھ کی ضرورت نہیں ہے ۔ یہی نہیں دونوں معاملات میں مقدمہ جلد ہی پورے ہونے کی توقع نہیں ہے کیونکہ لگ بھگ 493 گواہوں کی جانچ کی جانی ہے اور دستاویزی ثبوت جولگ بھگ 50 ہزار صفحات پر مشتمل ہے اس کی بھی جانچ کی جانی ہے ۔ ہاں ایک سوال ہے کہ ان معاملوں میں ہائیکورٹ یا تحت کی عدالت سے ضمانت کیوں نہیں مل رہی ہے کیوں بار بار سپریم کورٹ سے رجوع ہونا پڑرہا ہے ؟ منیش سیسوڈیا کو ضمانت دیتے ہوئے جسٹس بی آر گوائی اور جسٹس کے بی وشواناتھن کے ڈیویژن نے اس کا جواب دیا جسٹس گوائی نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ کیا ٹرائل کورٹ ، ہائیکورٹ نے اس بات پر غور کیا ہے کہ مقدمہ میں تاخیر ہورہی ہے ہماری نظر میں اسے نظرانداز کیا گیا ہے یہ کتنی اہم بات ہے کورٹ نے کہا کہ ہم نے محسوس کیا ہے ضمانت کے معاملوں میں تحت کی عدالتیں SAVE کھیل رہی ہیں ۔ اوپن اینڈ شٹ معاملوں میں بھی ضمانت دینے کے اصول کا کئی بار اطلاق نہیں ہوتا ۔ اس کے چلتے اقدام عدالتوں کے پاس درخواستوں کا ڈھیر لگ رہا ہے ۔ اب وقت آگیا ہے کہ تحت کی عدالتیں اور ہائیکورٹس سمجھیں کہ ضمانت اصول ہے اور جیل Exceplion ہے ۔ 27 اگسٹ کو جسٹس گوائی اور جسٹس وشواناتھن کی بنچ نے ہائیکورٹ کے فیصلہ پر پھر سے تنقید کی ۔ بنچ نے یہ کہاکہ پی ایم ایل اے کی دفعہ 45A کا اطلاق خاتون کو ضمانت کے معاملہ میں غور کا حق دیتا ہے ۔ عدالت نے دہلی ہائیکورٹ کے اس تبصرے کو تنقید کا نشانہ بنایا کہ پی ایم ایل اے کی ایکٹ کی دفعہ 4 کا استعمال اعلی عہدوں پر فائز خواتین پر لاگو نہیں ہوتا ۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ یہ عدالت انتباہ دیتی ہے کہ عدالتوں کو ایسے معاملات میں فیصلہ کرتے وقت عقل و فہم اور ضمیر کی آواز پر فیصلہ کرنا چاہئے ۔ عدالت یہ نہیں کہتی کہ صرف اس لئے کہ کوئی خاتون اچھی طرح تعلیمیافتہ ہے یا رکن پارلیمنٹ ہے یا اسمبلی کی رکن ہے اسے پی ایم ایل ایکٹ کی دفعہ 45 کے استعمال کا فائدہ حاصل نہیں ہوسکتا ۔ ہم پاتے ہیں کہ تحت کی عدالت نے پوری طرح سے غلط سمت میں قدم اُٹھایا ہے ۔ ہائیکورٹ پر کتنی سخت تنقید ہے ۔ دیکھئے ED کی وجہ سے کیا ہورہا ہے ۔ سپریم کورٹ ای ڈی پر نکتہ چینی کررہا ہے ۔ وزیراعظم ای ڈی کا بچاو کرتے ہیں لیکن ED کی وجہ سے ہائیکورٹ اور تحت کی عدالتوں کو بھی سپریم کورٹ تنقید کا نشانہ بنارہی ہے یہ کوئی عام تنقید نہیں ہے کہ ہائیکورٹ میں کس طرح سے فیصلے ہورہے ہیں ۔ آخر بار بار کہنے کے بعد بھی سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ٹرائیل کورٹ اور ہائیکورٹ تک کیوں نہیں پہنچ رہا ہے ؟ منیش سیسوڈیا کے کیس میں بھی ہائیکورٹ کی تنقید اور کے کویتا کے کیس میں بھی ہائیکورٹ کو سپریم کورٹ تنقید کا نشانہ بناتا ہے ۔ 27 اگسٹ کو سپریم کورٹ میں اس پر بھی بحث ہوئی کہ فون ریکارڈ مٹانا کیا اپنے آپ میں کسی جرم کا ثبوت مانا جاسکتا ہے ۔ ای ڈی اور سی بی آئی کی طرف سے وکیل ایڈیشنل سالیسٹر جنرل ایس وی راجو نے کے کویتا کی ضمانت کی مخالفت کرتے ہوئے عدالت میں کہا کہ جب انہیں عدالت میں پوچھ تاچھ کیلئے سمن بھیجا گیا تو ان کے فون ریکارڈ غائب پائے گئے حالانکہ اس پر کے کویتا کے وکیل مکل روہتگی کا کہنا تھا کہ فون، سمن جاری کئے جانے سے 4 ماہ قبل بدل دیا گیا تھا ۔ جسٹس وشواناتھن نے تب تنقید کی کہ فون بہت نجی چیز ہے کیا کوئی کسی کے ساتھ اسے شیئر کرے گا ۔ لوگ پیامات ڈیلیٹ کرتے رہتے ہیں مجھے عادت ہیکہ گروپ میجس ڈیلٹ کرنے کی۔ اسکول اور کالج گروپوں میں کتنے میجس آتے ہیں یہ تمام چیز یں اس کمرہ میں بیٹھا کوئی بھی ایسا کرے گا ۔ ایس وی راجو نے کہا کہ یہ کوئی عام پیام مٹانا نہیں تھا ۔ انہوں نے پورا فون فارمیٹ کردیا تھا جو ثبوتوں سے چھیڑ چھاڑ کے مترادف ہے یہاں جسٹس گوائی نے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل سے کہا آپ سارا معاملہ الٹا کررہے ہیں وہ جرم میں ملوث ہے اسے ثابت کرنے والا ثبوت کہاں ہے؟ ۔ جسٹس وشواناتھن کا بھی سوال تھا کہ کیا فون فارمیٹ کرنا اپنے آپ میں جرم مانا جاسکتا ہے ۔ آپ کے پاس جو آزادانہ ڈاٹا ہے جو ان کے جرم میں ملوث ہوتا دکھاتا ہو اگر نہیں تو اتنے سے تو بس یہی پتہ چلتا ہے کہ فون فارمیٹ ہوا ہے یہ گرفتاری اور ضمانت کی مخالفت کا ایک نیا بہانہ بنتا جارہاہے ۔ ای ڈی کو لیکر آپ سپریم کورٹ کی تنقیدوں کے اوراق پلٹتے چلئے ویسے بھی ای ڈی کی ہر کارروائی پر نظر رکھنا چاہئے کیونکہ بار بار سپریم کورٹ کی تنقیدوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ED کا استعمال کس طرح ہورہا ہے ۔ ای ڈی کئی کیس میں چار سال سے تحقیقات کررہی ہے ۔ آخر کیوں ؟