ایران کی منفی پالیسی خطے میں عدم استحکام کا سبب : شاہ سلمان

,

   

فرقہ واریت کو فروغ دینے مسلح تنظیموں کو بنانے اور اُس کی مدد کرنے کا الزام
ریاض : سعودی بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز نے ایران کی طرف سے
بین الاقوامی برادری کے ساتھ اس کے جوہری اور بیلیسٹک میزائل پروگرام کے معاملے پر عدم تعاون پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے سلطنت کی مشاورتی شوریٰ کونسل سے خطاب میں اس امید کا اظہار کیا کہ ایران خطے میں اپنا ’منفی‘ رویہ تبدیل کرے گا اور مذاکرات کاروں کے ساتھ تعاون کرے گا۔ سعودی سرکاری ایجنسی کے مطابق پچاسی سالہ سعودی بادشاہ نے کہا کہ تہران حکومت کی پالیسی علاقائی سلامتی اور استحکام کو غیر مستحکم بنا رہی ہے۔ واضح رہے رواں ہفتے کے آغاز سے ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے نمائندے ویانا میں سن 2015 کے جوہری معاہدے کی بحالی کی خاطر مذاکرات کر رہے ہیں۔سعودی فرمانروا شاہ سلمان نے اپنی دیرینہ حریف ملک ایران سے کہا ہے کہ وہ خطے میں اپنے منفی طرز عمل کو تبدیل کرے۔ ریاض نے تہران پر سعودی عرب کو میزائل سے نشانہ بنانے والے یمنی باغیوں کی مدد کرنے کا الزام بھی عائد کیا ہے۔ شاہ سلمان نے ملک کی مجلس شوریٰ سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے کہا، ” ہمیں امید ہے کہ ایران اپنی پالیسی اور خطے میں اپنے منفی رویے کو تبدیل کرے گا اور مذاکرت اور تعاون کی طرف لوٹے گا۔‘‘شاہ سلمان نے اپنے خطاب میں مزید کہا، ”ہم خطے میں سلامتی اور تحفظ کو غیر مستحکم کرنے کی ایرانی پالیسی کو شدید تشویش کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔‘‘ ساتھ ہی شاہ سلمان نے ایران پر خطے میں فرقہ واریت پھیلانے والی اور مسلح تنظیموں کو ”بنانے اور انہیں تعاون‘‘ فراہم کرنے کا بھی الزام عائد کیا،”ہم مشاہدہ کر رہے ہیں کہ تہران حکومت دہشت گرد حوثی ملیشیا کی پشت پناہی کر رہا ہے، جس کی وجہ سے یمن کی جنگ طوالت اختیار کر رہی ہے اور انسانی بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اور ساتھ ہی یہ صورتحال سعودی عرب کی سلامتی کے لیے بھی خطرہ ہے۔‘‘شاہ سلمان کا یہ خطاب تقریبا چار منٹ کا تھا۔ اس قلیل سے وقت میں بھی انہوں نے کئی وقفے کیے اور وہ بہت ہی آہستہ آہستہ ایک سفید کاغذ پر لکھا ہوا اپنا یہ خطاب پڑھ رہے تھے۔ ان کی یہ تقریر طے شدہ وقت کے تین گھنٹوں کے بعد نشر کی گئی، جسے بعد میں سعودی نیوز ایجنسی نے مکمل شائع کیا۔ یہ دوسری مرتبہ ہے کہ انہوں نے اس مجلس شوری سے ورچوئلی خطاب کیا ہے۔ مجلس شوری ملک کا اہم ترین مشاورتی ادارہ ہے۔ریاض اور تہران دہائیوں سے ایک دوسرے کے شدید مخالف ہیں۔ اور خطے کے تنازعات میں ہمیشہ ایک دوسرے کی مخالفت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر یمنی تنازعہ جہاں سعودی عرب ایک عسکری اتحاد کی سربراہی کر رہا ہے جبکہ ایران اس اتحاد کے خلاف لڑنے والے حوثی باغیوں کا ساتھ دے رہا ہے۔ ابھی حال ہی میں سعودی عرب نے ایران پر حوثیوں کو اسلحہ فراہم کرنے اور لبنانی تنظیم حزب اللہ پر انہیں تربیت فراہم کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔ تہران اور حزب اللہ دونوں نے سعودی الزامات کی نفی کرتے ہوئے انہیں بے بنیاد قرار دیا تھا۔سعودی عرب اور ایران اپنے باہمی روابط کو بہتر بنانے کی کئی کوششیں کر چکے ہیں اور اس کی تازہ مثال اپریل میں بات چیت کے کئی ادوار تھے۔شاہ سلمان کل جمعہ کو 86برس کے ہو جائیں گے۔