روش کمار
ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی ہوگئی اور یہ جنگ بندی کن شرائط پر ہوئی اس بارے میں کافی تجسس پایا جاتا ہے ۔ آپ سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے قطر میں امریکی فوجی اڈہ پر ایران کے میزائل حملوں کے بعد ہی ایران اور اسرائیل جنگ بندی کا اعلان کیا ۔ دلچسپی کی بات یہ ہیکہ حالیہ عرصہ میں ٹرمپ نے دو جنگ بندیوں کا اعلان کیا ۔ ایک تو ہندوستان ۔ پاکستان کے درمیان جنگ بندی کروانے کا سہرا اپنے سر باندھ لیا ، دوسری طرف ایران کے جوہری تنصیبات پر بنکر بسٹر بموں کی بارش کرتے ہوئے امریکہ اور اس کے اتحادی ملکوں میں ہیرو بننے کی کوشش کی لیکن ٹرمپ جیسا چاہ رہے تھے ویسا نہیں ہوسکا ۔بہرحال یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسرائیل جس نے ایران کو پوری طرح تباہ کرنے کا اعلان کیا تھا اس نے آخر کن شرائط پر جنگ بندی کی۔ آپ جنگ بندی کا نام لیکر سرخیوں پر قبضہ کررہے ہیں اور اسی وقت غزہ پر حملہ جنگ بندی کی کوششوں کا مذاق بھی اڑا دیا ہے تو ان باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے امن کے نئے مسیحا ٹرمپ کے جنگ بندی کے اعلان کو دیکھا جانا چاہیئے ، فی الحال ان کے اعلان سے یہ طئے کرنا مشکل ہوگیا ہے کہ قطر کے العدید امریکی فوجی اڈہ پر حملہ کرنا بڑا واقعہ ہے یا ٹرمپ کی جانب سے جنگ بندی کا اعلان کیا جانا ؟ سب انتظار کررہے تھے کہ ایران نے قطر کے دوحہ کے قریب امریکی فوجی اڈہ پر حملہ کیا ہے اس کے بعد امریکہ ، ایران پر بھیانک جوابی حملہ کرے گا اور اس کے بعد ایران کا بچنا مشکل ہوجائے گا لیکن ٹرمپ جنگ بندی اور جنگ کے خاتمہ کی زبان بولنے لگ گئے ، کیا واقعی حقیقت میں جنگ بندی ہوجائے گی ، جنگ کا خاتمہ ہوجائے گا ؟ ۔ ٹرمپ کے بیان پر شبہات ظاہر کئے جارہے ہیں، کہا جارہا ہے کہ وہ کچھ بھی کرسکتے ہیں ، وہ ناقابل بھروسہ ہیں لیکن ٹرمپ نے ایران پر حملہ کے بعد تو نہیں کہا کہ اب امریکی لڑاکا طیاروں کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہوجاؤ ۔ یہی کہا کہ حملہ کر کے ایران نے اپنا غصہ نکال لیا ہے ، جنگ بندی کے اعلان کے کچھ دیر بعد ٹرمپ نے دونوں ملکوں کی حکومتوں سے کہا کہ جنگ بندی شروع ہوچکی ہے اس کی خلاف ورزی نہ کریں مگر تین گھنٹے بھی نہیں گذرنے کہ خبر آنے لگی کہ جنگ بندی کی خلاف ورزی ہوگئی ہے ۔ اسرائیل نے الزام عائد کیا کہ ایران کی جانب سے میزائلس داغے گئے جو حیفہ کی طرف آئیں ، ان کا پتہ لگاکر تباہ کردیا گیا اور وہ اس حملہ کا سخت جواب دے گا ۔ دوسری طرف ایران کے وزیر خارجہ بیان دے چکے ہیں کہ ہم نے جنگ بندی شروع ہونے کے آخر منٹوں تک حملہ کیا یعنی اس کے بعد نہیں کیا ہے ۔ ٹرمپ اس معاملہ میں کمال کے لگتے ہیں ۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کا اعلان بھی سب سے پہلے ٹرمپ نے کیا ۔ اب ایران ۔ اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا اعلان بھی وہی کررہے ہیں ۔ دونوں ملکوں کو مبارکباد دے رہے ہیں کہ اسرائیل اور ایران اس بات کو لیکر متفق ہوگئے ہیں کہ جنگ بندی پر مکمل عمل آوری کی جائے گی ، ابھی سے چھ گھنٹے بعد ایران اور اسرائیل آہستہ آہستہ حملہ کم کریں گے اور 12گھنٹے ہوتے ہوتے جنگ کے ختم ہونے کو مان لیا جائے گا ۔ ٹرمپ کا دعویٰ ہیکہ ایران اور اسرائیل جنگ بندی کیلئے ان سے رجوع ہوئے تھے ۔
ٹرمپ نے لکھا ہے کہ اسرائیل اور ایران ایک ساتھ میرے پاس آئے اور کہا کہ انہیں امن چاہیئے ، دونوں ملکوں کو مستقبل میں امن اور خوشحالی دیکھنے کو ملے گی ، ان کے پاس بہت کچھ پانے کو ہے لیکن اگر وہ مذہب اور سچائی کی راہ سے بھٹکتے ہیں تو بہت کچھ کھونے کا بھی خطرہ ہے ۔ اسرائیل اور ایران کا مستقبل ان کی امن پالیسیوں پر منحصر ہے ۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان مسلسل حملے کے درمیان جنگ بندی کا دعویٰ اور ٹرمپ کا یہ کہنا کہ دونوں ملک ان کے پاس آئے تھے ۔ ٹرمپ کے بیان کو ڈرامائی بھی بناتا ہے ، ٹرمپ کا بیان عجیب لگتا ہے لیکن دونوں کا امریکہ کے پاس جانا بہت کچھ جاننے کیلئے بے چین کرتا ہے ۔ ٹرمپ کے بیانات دنیا کے باقی لیڈروں سے الگ ہوتے ہیں ، 6 گھنٹوں میں حملے کم ہوں گے اور 12گھنٹوں میں جنگ بندی ہوگی اور 24 گھنٹوں میں جنگ ختم ہوجائے گی ۔ کچھ لوگوں کو اس بات کا بھی شبہ ہیکہ کہیں ایسا تو نہیں ہیکہ ایران میںکچھ اہم تبدیلی ہوچکی ہے اگر ٹرمپ نے ایران اور اسرائیل دونوں کو مبارکباد دی ہے تو اس کا کچھ تو مطلب ہے ۔ انہوں نے دونوں ملکوں کی تعریف بھی کی ، انہوں نے اس جنگ کا ایک نام بھی دیا ۔ 12 Days War ( بارہ دنوں کی جنگ ) جو برسوں چل سکتی تھی اور پورے مشرق وسطیٰ کو تباہ کرسکتی تھی لیکن ایسا نہیں ہوا اور ایسا کبھی نہیں ہوگا ۔ خدا اسرائیل کا بھلا کرے ، خدا ایران کا بھلا کرے ، مشرق وسطیٰ کا بھلا کرے اور خدا امریکہ کا بھلا کرے ، دنیا کا بھلا کرے ۔ اہم عہدیداروں کے بیانات شائع ہورہے ہیں کہ جنگ بندی سے جڑا کوئی پیغام نہیں ملا ہے ۔
اب بات کرتے ہیں اس جنگ میں امریکہ کے کود پڑنے کی ، ایک بات یہاں یہ بتانا ضروری ہیکہ عالمی میڈیا میں امریکہ کے جنگ میں شامل ہونے سے پہلے ہی کیسے امریکی ہتھیاروں کے بارے میں خاص طور پر اس کے بنکر بسٹر بموں کے بارے میں خبریں گشت کروائی گئیں جن کا مقصد نفسیاتی طور پر ایران پر دباؤ ڈالنا تھا ۔ واضح رہے کہ اس جنگ میں اچانک سے B2 اسپرٹ اسٹھپلتھ بمبار طیاروںکی بات ہونے لگ جاتی ہے اور اس کی تشہیر امریکی میڈیا میں اس طرح سے ہوتی ہے کہ B2 اب اڑان بھرنے والا ہے ، اب اڑچکا ہے ، یہاں پہنچ گیا ہے ۔ اب ایران کی خیر نہیں ۔ B2 اسٹھپلتھ یہ کردے گا وہ کردے گا ۔ ہم B2 کی طاقت پر کوئی شک و شبہ نہیں کررہے ہیں ۔ ہماری فکر ایک بھیانک بم اور اس کے بمبار طیارہ کو لیکر ہے ۔ ایران کی تینوں جوہری تنصیبات پر حملے کے بعد B2 کی تشہیر اور زیادہ ہونے لگی ہے ۔ بتایا جانے لگا کہ B2اسپرٹ 37 گھنے تک لگاتار پرواز بھرتا رہا ۔ دوران پرواز کئی بار ایندھن بھرنا پڑا اور ہوا میں ہی یہ عمل ہوتا رہا ، یہ بھی میڈیا کے ذریعہ معلوم ہوا کہ امریکہ نے ایسے چھ B2 بمبار طیارے بھیجے اور ان طیاروں سے 12 بم گرائے گئے ، انہیں بنکر بسٹر بم کہا جاتا ہے ۔ امریکی میڈیا میں اس بمبار طیارہ کو نائک کے طور پر پیش کیا جارہا ہے لیکن ایران کیلئے کھل نائک بھی ہوسکتا ہے ۔ نیویارک ٹائمز نے تو لکھا ہے کہ فردو جوہری با ئیو کلرتنصیب با پلانٹ پر B2 نے 13 ہزار کلو گرام وزنی 12بم گرائے ہیں اور نطنز اصفہان کی جوہری تنصیب پر ٹام ہاک کروز میزائلس داغے گئے ۔ ٹرمپ بھی کہتے رہے ہیں کہ اس طرح کی صلاحیت امریکہ کے سواء کسی اور کے پاس نہیں ہے ۔ اب ایک سوال کا جواب دیجئے کہ 13جون کو اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا ، تب سے لیکر 22جون تک آپ نے اسرائیل کے ہتھیاروں کے بارے میںکچھ سنا کچھ نیا دیکھا کہ اسرائیل کے ان ہتھیاروں سے دنیا کو چونکا دیا ہے ۔ ایران کو بے بس و لاچار کردیا ہے ۔ اگر فوجی ٹیکنک کے معاملہ میں اسرائیل اتنا ہی ماہر ملک ہے تو پھر ایران کے جوہری تنصیبات کو کیوں تباہ نہیں کرسکا ، حملہ تو اس نے بھی کیا جیسا کہ اسرائیل دعویٰ کررہا ہے ۔ کیونکہ اسرائیل کو B2 بسٹر بم کیلئے امریکہ کا انتظار کرنا پڑا ۔ اسرائیل کا بھوت کھڑا کیا جاتا ہے کہ اس کے پاس یہ ٹکنالوجی ہے ، وہ ٹکنالوجی ہے ۔ اسرائیل کی اس فوجی صلاحیتوں کو لیکر کتنے قصے کہانیاں گھڑی گئیں ہیں ابھی تک بھی اس کے نام پر اس سے دوستی کے بہانہ بنائے جاتے ہیں ، اس کی ناانصافیوں کو نظر انداز کیا جاتا رہا اور پیچھے سے دھوکہ سے مارنے کی اس کی صلاحیت ضرور ہے ۔ پیجر دھماکہ کردے گا لیکن اس جنگ میں وہ اپنے کسی ہتھیار کا مظاہرہ نہیں کرسکا ، کیوں اسرائیل کے آئرن ڈوم کے چرچے تھے لیکن اب اس کے چرچے کچھ کم نہیں پڑگئے ۔ ایران کے سوپر سانک میزائیلوں نے آئرن ڈوم کو بے کار کردیا ، تب ہی تو امریکہ نے اپنا جہاز بھیجا تاکہ ایران کے میزائلوں کا پتہ چلاکر انہیں تباہ کیا جاسکے ۔ بات یا تو ایران کے سوپر سانک میزائیلوں کی ہورہی ہے یا پھر امریکہ کے B2 بمبار کی ، ہم یہ بات کرنا چاہتے ہیں کہ کیسے جنگ کے وقت مغربی میڈیا امریکی ہتھیاروں کو ناقابل تسخیر بتاتا ہے ، مضبوط بتاتا ہے ، تباہ کن بتاتا ہے ، ان کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلاے ملا دیتا ہے اور فوجی ہتھیاروں کے بازار میں انہیں غیر معمولی بنا دیتا ہے ۔ اسٹپلتھ گیم چینجر کسی بھی وقت کہیں بھی حملہ کرنے والا جس کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا ۔ عصری ، انقلابی ، فیصلہ کن غرض ہر قسم کے القابات سے امریکی بمبار طیارہ کو نوازا گیا ۔ میڈیا میں کم از کم 15 الفاظ کے ذریعہ اس بمبار طیارہ کی خوبیاں بیان کی گئیں اور بتاتے ہیں کہ یہ طیارہ راڈار کو چکمہ دے سکتا ہے ، میدان میں حکمت عملی تبدیل کرسکتا ، اسے دیکھتے ہی دشمن پر ہیبت طاری ہوجاتی ہے ، طویل فاصلہ تک حملہ کرسکتا ہے ، خطرناک حملہ کرتا ہے اور زمین میں گہرے ( زمین میں گہرائی تک ) دبے ہدف پر حملہ کرسکتا ہے ۔ B2 کا نام اکثر امریکہ کے ساتھ لیا جاتا ہے ۔ امریکہ کا یہ ، امریکہ کا وہ عوام حیرت سے دیکھنے لگ جاتی ہے ۔ طاقت یہ ہوتی ہے کہ سوپر پاور ایسا ہونا چاہیئے وغیرہ وغیرہ ۔ ٹوئیٹر پر اس بمبار طیارے کے بہت چرچے چلتے رہیں، اس کے بارے میں بہت سارے مضامین لکھے گئے ۔ ٹرمپ نے حملہ کے بعد ان حملوں کو کامیاب بتادیا لیکن ان کا دعویٰ صحیح نہیں نکلا تو B2 کی کیا درگت ہوگی اور ایران اس طرح سے جوہری پلانٹ بنایا ہے کہ 12 بم گراکر بھی امریکہ اسے تباہ نہیں کرپایا ۔