مہاراشٹرا نتیجہ اویسی صاحب کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی، مفتی مشکور قاسمی کا سیاسی تجزیہ
منچریال /24 نومبر (ذریعہ میل)مہاراشٹرا کا نتیجہ اویسی صاحب کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں مسلمانوں کا حد سے زیادہ جوش و خروش فرقہ پرستوں کو متحد کرنے میں اہم رول ادا کیا ۔ مفتی مشکور احمد قاسمی نے اپنے سیاسی تجزیہ میں یہ بات بتائی ۔مہاراشٹر کا الیکشن ملکی سیاست میں بہت اہمیت کا حامل تھا لیکن حالیہ الیکشن میں جو نتیجہ سامنے آیا وہ مایوس کن رہا حالانکہ پیش قیاسی کی جا رہی تھی کہ کانگریس گٹھ بندھن کی سرکار بنے گی تمام سیاسی تبصرہ نگاروں کا یہی کہنا تھا لیکن نتیجہ بالکل برعکس رہا ۔اس میں شک نہیں کہ بی جے پی گٹھ بندھن اپنی پوری طاقت ہندو مسلم کے نام پر لگا دی اور تمام فرقہ پرست ایڑی چوٹی کا زور لگا کر اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئی لیکن اگر حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جائے تو مسلمانوں کا جو ش و خروش بھی اس میں شامل ہے اس میں خاص کر مجلس اتحاد المسلمین کا کردار بہت نمایاں رہا ایک دو سیٹ کے لیے پورے ماحول کو گرما گرم کر دیا گیا ہندوؤں کو مزید متحد کر دیا گیا مسلمان خوب جوش میں تھے ہمارا لیڈر ہمارا شیر پورے مہاراشٹر میں بڑے بڑے جلسے اور فلک شگاف نعر لگائے گئے ۔سیاسی جلسوں میں نعرے تکبیر کی صدائیں بلند ہو رہی تھی ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ سیرت النبی کا جلسہ ہے اسی حماقت کی وجہ سے پورے مہاراشٹر میں ماحول یکسر بدل گیا اور اورنگ آباد سے بمبئی تک ہزاروں گاڑیوں کا قافلہ خوب دکھایا گیا پورے ملک میں میڈیا کے ذریعے بتایا گیا اور یہ تاثر میڈیا والوں نے پیش کیا دیکھو مسلمان کیسے متحد ہیں میں پہلے سے کہہ رہا تھا کہ اویسی صاحب کا الیکشن لڑنا تلنگانہ تک صحیح ہے لیکن ملکی سطح پر سیاست میں داخلہ لینا پورے ملک کے لیے نقصان دہ ہے ۔ میرا ایک سوال ہے کہ وہ اویسی صاحب اپنی ریاست کی تلنگانہ میں حیدرآباد شہر چھوڑ کر کہیں اپنا امیدوار کیوں نہیں کھڑا کرتے 70 سالہ تاریخ میں اویسی صاحب پورے تلنگانہ وآندھرا میں حیدرآباد شہر چھوڑ کر آج تک ایک سیٹ بھی نہیں جیت سکے جب آپ اپنی ریاست میں ایک امیدوار نہیں کھڑا کر سکتے تو دیگر ریاستوں میں جا کر آپ کیسے کامیاب ہو سکتے ہیں ایک دو سیٹ پر کامیابی ملنا یہ اپ کی پارٹی کی وجہ سے نہیں ہے وہاں کوئی بھی مسلمان کسی بھی پارٹی کا جیت سکتا تھا اس لیے کہ وہ مسلم اکثریتی علاقہ ہے مسلمانوں کی اکثریت ہے وہاں ہمیشہ سے مسلمان جیتتا آرہا ہے جیسے مالیگاؤں میں مفتی اسمعیل صاحب کی جیت ہوئی ہے بنگال میں 42 مسلمان ملے ہیں وہ کس پارٹی کے ہیں مسلمانوں کو اس بارے میں بہت گہرائی سے جائزہ لینا چاہیے اور ایک بات طے ہے کہ ہندوستان میں مسلمان اپنی الگ سیاسی پارٹی بنا کر کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ ملک میں 95 فیصد مسلمان غیروں کے مقابلے میں اقلیت میں ہیں اگر صرف پانچ فیصد مسلمان محفوظ ہو ں اور 95 فیصد مسلمان غیر محفوظ ہو ں تو ہمیں صرف پانچ فیصد حصے میں کامیاب ہو کر خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔ مسلمانوں کو ہر الیکشن میں خاموش کام کرنے کی ضرورت ہے بہت زیادہ جوش و خروش دکھانے کی ضرورت نہیں آج فرقہ پرست طاقتیں مسلمانوں کو مشتعل کر کے ہندوؤں کو متحد کرنے کا کام کر رہی ہیں ۔ مسلمانوں سے اپیل ہے کہ وہ جوشیلی جذباتی تقریروں میں نہ آئیں بی جے پی کے مقابل جو بھی پارٹی ہو اس کو خاموشی سے سپورٹ کریں کسی پارٹی سے زیادہ امید نہ رکھیں ہر پارٹی کو بی جے پی سے غنیمت جانیں۔