برکت علی خاں ، ایڈوکیٹ
ایک قوم ایک الیکشن آج کے وقت کا خاص موضوع بنا ہوا ہے۔ اخبارات، نیوز چیانل، نیوز پورٹل ہر دوسرے دن اس عنوان پر بحث میں مصروف نظر آتے ہیں۔ اکثر و بیشتر کا یہی خیال ہے کہ ایک قوم ایک الیکشن سے سیاسی نظام میں بہتری اور بھلائی و ترقی کی نئی راہیں پیدا ہوں گی۔
ایک قوم ایک الیکشن کا تصور صرف ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا کے مختلف ممالک میں رائج ہے اور وہاں ایک ہی وقت میں الیکشن ہوتے ہیں جن میں قابل ذکر امریکہ، فرانس، انڈونیشیا، ساؤتھ افریقہ، نارتھ افریقہ، میکسیکو، بوٹسوانیا اور زامبیا شامل ہیں۔ ہندوستان میں تجویز کردہ ماڈل ان ممالک میں ہونے والے انتخابات سے کچھ مختلف ہے۔ اس کا مقصد عالمی طریقوں پر من و عن عمل کرنے کی بجائے ملک کے حالات اور ضروریات کو مدنظر رکھنا ہے۔
ہندوستان میں لوک سبھا اور اسمبلی کے انتخابات مختلف اوقات اور تاریخوں میں الیکشن کمیشن کے ذریعہ عمل میں لائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے ہر وقت کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی مقام پر الیکشن کی سرگرمیاں چلتی رہتی ہیں جس کے لئے الیکشن کمیشن کو ہمیشہ مصروف رہنا پڑتا ہے اور اس علاقہ کے حساب سے انتخابی ضابطہ اخلاق پر عمل آوری کروانا پڑتا ہے اور اس طرح طویل مدتی ترقیاتی عمل اور حکومت کی پالیسیوں میں رکاوٹ آتی رہتی ہے بلکہ انتظامی نظام میں کمزوری اور اخراجات میں اضافہ بھی دیکھا گیا ہے۔
ایک قوم ایک الیکشن کی تجویز کے مطابق لوک سبھا اور تمام ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کو ہر 5 سال میں ایک ساتھ منعقد کرنا ہے۔ اس تجویز پر سیاسی ماہرین، پالیسی ساز ادارے اور دانشور مسلسل بحث کرتے نظر آرہے ہیں۔
ہندوستان میں اس تجویز پر عمل آوری کے امکانات اور حالات کا جائزہ لینے کے لئے حکومت نے ستمبر 2023 ء میں ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی کا اعلان کیا جس کی صدارت سابق صدر رام ناتھ کووند کو دی جس میں 6 نمایاں شخصیات بھی شامل ہیں۔
اس تجویز پر تفصیلی جائزہ لینے کے بعد ڈسمبر 2024 ء میں اس کمیٹی نے مرکزی کابینہ کو اپنی رپورٹ پیش کردی اور مرکزی کابینہ نے اسے منظوری دے کر جنوری 2025 ء میں اسے پارلیمنٹ میں پیش کیا لیکن دو تہائی اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے یہ بل پارلیمنٹ میں پاس نہ ہوسکا۔ اس بل کے مطابق 2029 ء کے الیکشن کی تیاریوں کے لئے جملہ 7951 کروڑ کا خرچ آئے گا۔
ہندوستان میں ایک قوم ایک الیکشن کا تصور اور تاریخ نئی نہیں ہے بلکہ آزادی کے بعد 1951-50 ء سے لے کر 1967 ء تک لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی ساتھ منعقد ہوتے تھے۔ تاہم 1968 ء میں ریاستی اسمبلی کی قبل ازوقت تحلیل اور 1970 ء میں پارلیمنٹ کی تحلیل سے یہ تسلسل ٹوٹ گیا۔
1983 ء میں الیکشن کمیشن نے ایک ساتھ الیکشن کو بحال کرنے کی تجویز رکھی اور یہی بات 1999 ء میں لاء کمیشن نے اور 2017 ء میں نیتی آیوگ نے دہرائی۔ نیتی آیوگ کی ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں ہر سال کم سے کم ایک الیکشن ضرور ہوتا ہے جبکہ ریاستوں کے الگ الگ انتخابات بھی جاری رہتے ہیں۔
ایک قوم ایک الیکشن کی تائید میں بحث کرنے والوں کے دلائل کے مطابق اس تجویز پر عمل آوری سے اقتصادی بہتری، انتخابی اخراجات میں کمی، طویل مدتی پالیسیوں پر مؤثر عمل آوری، انتظامات کی پختگی، ووٹر کی شرح میں اضافہ، عوام کی الیکشن میں دلچسپی کے علاوہ مضبوط حکمرانی اور انتخابی مصروفیات کی کمی ہے۔ جبکہ اس کے نقصانات بھی دلائل کے ساتھ پیش کئے جارہے ہیں جن میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس تجویز سے جمہوری انتخاب میں کمی واقع ہوگی۔ اس تجویز پر عمل آوری سے کئی اور نقصانات بھی واقع ہوں گے جن میں علاقائی پارٹیوں کی عملی میدان سے دوری، قومی مسائل کا علاقائی مسائل پر حاوی ہونا، ریاستی حکومتوں کی مضبوط حکمرانی میں دخل، ریاستی پالیسیوں پر عمل آوری میں رکاوٹ، لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں کی مدت میں ہم آہنگی کی مجبوری، علاقائی اور قومی پارٹیوں کا ٹکراؤ، ایک ہی پارٹی کے حق میں ووٹر کا رجحان، ووٹرس کی پسند میں اُلجھن پیدا کرنا کے علاوہ دستور کے بنیادی ڈھانچہ وفاقیت کو کمزور کرنے اور ریاستوں کی خود مختاری میں دخل کے امکانات وغیرہ۔
2015 ء کی ایک رپورٹ کے مطابق اگر ون نیشن ون الیکشن کی تجویز پر عمل ہوگا تب ایک ہی پارٹی کو 77% رائے دہندے پسند کریں گے جبکہ ریاستی اور قومی الیکشن الگ الگ تواریخ پر منعقد ہوں گے تب یہی پسند 77% سے گھٹ کر 61% پر آجائے گی۔
ایک قوم ایک الیکشن کی ناکامی کی حالیہ مثال انڈونیشیا ہے جہاں 2024 ء میں انتخابات ہوئے اور مختلف خطوں میں بڑی اور قومی سیاسی جماعتوں کے درمیان ساز باز کے نتیجہ میں 37 ایسے خطے تھے جہاں صرف ایک ہی امیدوار کے انتخابات میں حصہ لیا۔ اس طرح ووٹرس کی پسند محدود ہوگی اور اس طرح علاقائی اپوزیشن کو ختم کردیا گیا۔
جمہوری نظام میں اپوزیشن ایک اہم کردار ادا کرتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ علاقائی اور قومی مسائل اور ان کا حل بھی مختلف ہوتا ہے اور اپوزیشن اس حل میں کافی مدد کرتی ہے۔ ون نیشن ون الیکشن کا نظریہ جہاں فوائد اور ترقی کی راہیں کھولنے کی بات کرتا ہے وہیں ملک کے وفاقی نظام اور دستوری ڈھانچہ کے لئے خطرناک ہے جو ریاستوں کی خود مختاری کو کمزور کرنے کا باعث ہوگا۔