اُنتی شرما
کورونا وائرس سے متاثر ہونے کے خوف نے ساری دنیا کو لاک ڈاون کردیا ہے۔ لوگ اپنے گھروں میں بند ہیں۔ باہر نکلنے سے گریز کررہے ہیں لیکن حیوانات انسانوں کے لاک ڈاون ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ کئی ملکوں میں بے شمار جانوروں کو سڑکوںپر بڑے آرام سے چلتے پھرتے دیکھا گیا۔ ان میں شیر، تیندوا، نیل گائے، ہرن، جنگلی بِلی، مشک بلاو، ارنا بھینسا، گینڈا، کوہوٹی یا امریکی بھیڑیا، فیل مرغ، مور، ریچھ وغیرہ شامل ہیں۔ جیسے ہی دنیا کے مختلف ممالک میں لاک ڈاون نافذ کیا گیا۔ لاک ڈاون کے 10 دن تک جنگلاتی حیات خاموش رہیں اور جیسے ہی شہر و گاوں سنسان ہوگئے، بازاروں سے لوگ غائب دکھائی دیئے تب یہ جنگلی جانور اپنی پناہ گاہوں سے نکل کر سڑکوں پر آگئے۔ عام مقامات پر دکھائی دینے لگے۔ ہندوستان کی ریاست و جھارکھنڈ میں لاک ڈاون کے 10 دن بعد تین سامبر ہرنوں کو سڑکوں پر ٹہلتے ہوئے دیکھا گیا جبکہ نوئیڈا میں ایک نیل گائے آہستہ آہستہ سڑکوں پر چل رہی تھی۔ اتراکھنڈ دہردون میں جنگل سے نکل کر آبادی میں پہنچنے والے ایک ہاتھی کو پکڑا گیا۔ کیرالا کے کوزیکوڈ میں ایک مشک بلاو کو دیکھا گیا۔ اسی طرح اڈیشہ کے ایک ساحل پر راڈلی کچھوے کثیر تعداد میں نظر آئے۔ کرناٹک کے ایک بازار کے قریب سے ارنا بھینسا گذرا جبکہ موروں نے ممبئی کی سڑکوں پر رقص کیا۔ اسی طرح بہار کے پٹنہ کے قریب واقع ایک فضائی اڈے کے نزدیک ایک تیندوا پہنچ گیا۔
جیسے ہی انسانوں سے سڑکیں خالی ہوئیں جانور یا حیوانات ان سڑکوں پر آنے لگے، ایسا صرف ہندوستان میں ہی نہیں ہوا بلکہ ہندوستان سے لے کر امریکہ اور فرانس سے لے کر اٹلی، جاپان پولینڈ اور کر برطانیہ تک ایسے مناظر دیکھے گئے جہاں جنگلی جانور جنگلات سے نکل کر سڑکوں پر پہنچ گئے۔ دراصل انسانوں اور جنگلاتی حیات کے درمیان تصادم میں ایک سبق پوشیدہ ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ ہم نے کس طرح مختلف مقامات پر قبضہ کرلیا اور جیسے ہی موقع ملا جانوروں نے کیسے ان مقامات کو بازیافت کرلیا۔ مثال کے طور پر شمالی یوکرین میں ایک ویران شہر ہے جسے انسانوں نے ایسے ہی چھوڑ دیا۔ اس شہر کا نام پرپیات ہے، یہ وہی مقام ہے جہاں چیرنوبل نیوکلیر پلانٹ واقع ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ اس پلانٹ میں ایک بہت بڑی جوہری تباہی مچ گئی تھی۔ یہ واقعہ 30 سال سے زائد عرصہ قبل پیش آیا لیکن آپ کو جان کر تعجب ہوگا کہ ایک ایسا علاقہ جہاں انسانوں نے رہنا پسند نہیں کیا اور اسے چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں اپنی زندگیاں دوبارہ شروع کیں۔ وہاں اب پرندوں اور جانوروں کی 200 سے زائد اقسام مقیم ہیں۔ ان میں وہ غیر مشمولیاتی منطقہ بھی شامل ہے جس کی دھماکے کے بعد انسانوں نے تخلیق کی تھی۔
شاید یہ قدرت کا طریقہ ہے کہ حیاتیاتی تنوع میں توازن پیدا کیا جائے اور دوسرے جانداروں کی اقسام کو دوبارہ ان کی وہ چیزیں واپس کی جائیں جنہیں زبردستی ان سے انسانوں نے حاصل کرلی تھیں۔ ہندوستانی سڑکوں پر جو جانور دکھائی دے رہے ہیں وہ کسی بھی طرح جارحانہ انداز میں نہیں بھاگ رہے ہیں اور نہ ہی عوامی املاک کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ کسی کو نقصان پہنچانے کا باعث بھی نہیں بن رہے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حقیقی درانداز کون ہے۔ اس کے برعکس ہم نے جارحانہ ترقیاتی مہم اور طرز زندگی اپنائی ہوئی ہے۔ ہم نے قدرت کے حسین مناظر اور علامتوں میں توڑ پھوڑ کی ان کی ہئیت بدل کر رکھ دی ہے اور یہ سب کچھ ہم نے اپنی ضروریات اور خواہشات کی تکمیل کے لئے کیا ہے۔ ایک طرح سے ہم نے اپنے اقدامات کے ذریعہ قدرت سے بغاوت کی ہے۔ آپ کو ایک بات پر غور کرنا چاہئے کہ ہم جانوروں کو غذا کی حیثیت سے پسند کرتے ہیں یا پھر جب انہیں زو میں رکھا جاتا ہے تو وہ ہماری پسند ہوتے ہیں لیکن جیسے ہی چند بندر ہماری چھتوں پر امڈ آتے ہیں یا پھر بعض گینڈے جیسے ہی انسانی آبادیوں میں داخل ہوتے ہیں تو پھر خوف کا بٹن دباتے ہیں۔ تاہم صرف ہندوستان ہی واحد ملک نہیں ہے جہاں لاک ڈاون نافذ کیا گیا ہے بلکہ بیشتر ملکوں میں لاک ڈاؤن کیا گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ جنگلی جانور بھی خود کو آزاد محسوس کررہے ہیں اور انہیں گھومنے پھرنے کے لئے پرسکون ماحول بھی دستیاب ہوگیا ہے۔ اس سلسلہ میں کئی ویڈیوز منظر عام پر آئے ہیں جس میں جنگلی جانوروں کو شہروں کی سڑکوں پر چلتے پھرتے دیکھا جاسکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر اس طرح کے ویڈیوز وائرل ہوئے ہیں۔
جنگلی فیل مرغوں کو ہم اور آپ نے کیلی فورنیا امریکہ کے اسکولی میدان میں دیکھا ہے۔ کوہوٹی یا امریکی بھیڑیا ہمیں سان فرانسسکو کی سڑکوں پر نظر آیا۔ ہرن پولینڈ کے ایک شہر میں دکھائی دیئے۔ اسپین کے بارسلونا اور فرانس کے پیرس میں بھی بے شمار جنگلی جانور سڑکوں پر نظر آئے۔ یہ تمام دراصل ایک پیام دیتے ہیں اور وہ پیام بالکل واضح ہے کہ جانور ایک خاموش و پرسکون ایسی دنیا سے محبت رکھتے ہیں جو انسانوں سے پاک ہو۔
کورونا وائرس لاک ڈاؤن فطرت سے تعلقات کے بارے میں ازسر نو غور کرنے انسانوں کے لئے ایک سبق ہے۔ محققین نے یہ دکھایا ہے کہ کس طرح انسان نئی بیماریوں کو دعوت دیتے ہیں اور انسانوں و جانوروں کے دیگر اقسام کے درمیان پائی جانے والی خلیج کو کس طرح پاٹتے ہیں۔ حالیہ عرصہ کے دوران کی گئی ایک اسٹیڈی یا جائزہ میں بتایا گیا ہیکہ دنیا بھر میں ہر سال جو نئی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں ان میں 60 فیصد بیماریوں کا تعلق حیوانات سے ہوتا ہے۔ اس طرح کی بیماریوں کو Zoonotik Diseases کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ بیماریاں پالتو جانوروں یا جنگلی جانوروں سے پھیلی ہیں جنہوں نے مقررہ حد بندی کو پھلانگا ہے۔
COVID-19 بھی حیوانات سے پھیلی ایک بیماری ہے اور یہ وائرس چینی شہر ووہان کے کچے بازاروں سے آیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چینیوں نے کبھی بھی زندہ جانوروں کی تجارت کے لئے جو غیر قانونی بلیک مارکٹس یا بازار ہیں ان پر کوئی توجہ نہیں دی۔ انہیں حقیقت میں باقاعدہ بنانے کی کوشش نہیں کی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ ووہان جیسے وائرس سے تباہ شدہ شہر میں دو ماہ کے لاک ڈاون کے بعد بازار دوبارہ کھول دیئے گئے۔ اب وہاں جانوروں کو ذبح کیا جارہا ہے اور ان کی دوبارہ فروخت عمل میں آرہی ہے۔
اس طرح کے حالات میں کیا انسان جانوروں پر الزام عائد کرسکتے ہیں اور انہیں ذمہ دار قرار دے سکتے ہیں؟ یہ بھی ستم ظریفی ہے کہ جانوروں سے آنے والے وائرس سے لڑائی کے لئے انسان ایک ایسے ٹیکہ کی تیاری پر غور کررہا ہے جو جانوروں کی مدد سے تیار کیا جائے گا۔ چینی حکومت COVID-19 سے متاثرہ مریضوں کے علاج کے لئے Tan Re Quing نامی انجکشن استعمال کررہی ہے۔ واضح رہے کہ یہ انجکشن دراصل ریچھ کے صفرے سے تیار کیا جاتا ہے۔ یہ بھی بتایا جاتا ہیکہ ہندوستان کے شمال مشرقی علاقہ میں ریچھ بہت زیادہ تعداد میں پائے جاتے ہیں اور چین ٹیکہ کی تلاش کرتے ہوئے ہندوستان میں جنگلاتی اقسام کے لئے عملاً خطرہ بن گیا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ انسان نے کورونا وائرس کی تباہی کے باوجود کوئی سبق نہیں سیکھا۔
اب یہ دیکھنا ہے کہ لاک ڈاون کے ختم ہونے کے بعد کیا تبدیلیاں رونما ہوں گی۔ ہم اپنے روز کے معمول پر واپس ہو جائیں گے۔ سڑکوں پر ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں گاڑیاں دکھائی دیں گی۔ ایسی صورتحال میں جانور اپنے جنگلاتی علاقوں، منطقوں اور چڑیاں گھڑوں میں واپس ہونے کے لئے مجبور ہو جائیں گے۔ اس بات کا بھی امکان ہیکہ انسان اور جانوروں کی یہ لڑائیاں بڑھ بھی سکتی ہیں اگر جانور انسانوں سے پاک ماحول کے عادی ہو جائیں گے۔ بہرحال کورونا وائرس لاک ڈاون نے ہم سے جو کچھ کہا ہے وہ یہی ہے کہ انسانوں اور جنگلاتی حیات کے درمیان روابط میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ ہمیں زیادہ سے زیادہ شمولیاتی ہونے کی ضرورت ہے اور ماحولیاتی پہلو کو ذہن میں رکھتے ہوئے قانون بنانے کی ضرورت ہے یا کم از کم فطرت کے کام میں مداخلت نہ کرنا ضروری ہے۔ ہم ہوسکتا ہے کہ فطرت سے محروم ہو جائیں لیکن فطرت یقینی طور پر ہم سے محروم نہیں ہوگی۔