ایک کروڑ 7 ہزار ووٹ اور عام انتخابات

   

مستعملہ ووٹوں کی قطعی تعداد پر آج سپریم کورٹ میں سماعت
حیدرآباد۔23۔ مئی ۔(سیاست نیوز) ملک میں جاری عام انتخابات کے دوران ابتدائی4مرحلوں میں ہوئی رائے دہی کے بعد الیکشن کمیشن آف انڈیا نے جو رائے دہی کی تفصیلات جاری کی ہیں ان میں مجموعی اعتبار سے ہر پارلیمانی حلقہ میں 28ہزار 232 ووٹوں کا اضافہ ہوا ہے ۔ ابتدائی 4مرحلوں میں جملہ 379حلقہ جات پارلیمان میں ہوئی رائے دہی کے بعد الیکشن کمیشن آف انڈیا نے جو قطعی اعداد و شمار جاری کئے ہیں ان کا مشاہدہ کیا جائے تو پہلے 4 مرحلوں کے دوران 1کروڑ 7 لاکھ ووٹ اضافہ ہوئے ہیں جبکہ انتخابات کے دن جاری گئی تفصیلات کا مشاہدہ کیا جائے تواس میں اضافہ ہوئے 1کروڑ 7 لاکھ ووٹ تمام 379 حلقہ جات پارلیمان میں تقسیم کئے جائیں تو ایسی صورت میں ہر پارلیمانی حلقہ میں مجموعی اعتبار سے 28ہزار232 ووٹ کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن آف انڈیا کی جانب سے پہلے مرحلہ کی رائے دہی کے 11دن بعد ووٹوں کی قطعی تعداد جاری کی گئی جبکہ دوسرے مرحلہ کے دوران مستعملہ ووٹوں کی تعداد جاری کرنے کے لئے الیکشن کمیشن کو 4یوم لگے اور اسی طرح تیسرے اور چوتھے مرحلہ کی رائے دہی کے تیسرے د ن الیکشن کمیشن آف انڈیا کی جانب سے قطعی ووٹوں کی تفصیلات جاری کی گئی اور پانچویں مرحلہ میں 2 دن بعد ہی الیکشن کمیشن کی جانب سے مستعملہ ووٹوں کی قطعی تعداد جاری کردی۔ سپریم کورٹ میں بوتھ واری اساس پر مستعملہ ووٹوں کی تفصیلات رائے دہی کے اختتام کے فوری بعد جاری کرنے کے سلسلہ میں دائر کی گئی درخواست کی سنوائی جاری ہے اور سپریم کورٹ نے 24 مئی کو اس سلسلہ میں سماعت مقرر کرنے کا فیصلہ کیا ہے گذشتہ یوم الیکشن کمیشن آف انڈیا کی جانب سے سپریم کورٹ میں داخل کئے گئے حلف نامہ میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ بوتھ واری اساس پر سیاسی جماعتوں کے پولنگ ایجنٹس کو دیئے جانے والے فارم 17C کو اپلوڈ کرنا یا اسے عام کیا جانا لازمی نہیں ہے بلکہ اگر اسے عام کیا جاتا ہے کئی مسائل پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ سپریم کورٹ میں جاری اس مقدمہ میں آج سماعت مقرر ہے لیکن الیکشن کمیشن کی جانب سے اختیار کردہ موقف سے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ وہ یہ تفصیلات جاری کرنے کے حق میں نہیں ہے۔ ملک کی تاریخ میں الیکشن کمیشن آف انڈیا کو مستعملہ ووٹ کی تفصیلات جاری کرنے میں کبھی اس قدر تاخیر نہیں ہوئی تھی جتنی اس مرتبہ ہو رہی ہے۔ الیکشن کمیشن آف انڈیا نے پہلے مرحلہ میں جو اعداد و شمار رائے دہی کے دن جاری کئے تھے ان میں 18لاکھ 60 ہزار اضافی ووٹوں کے ساتھ قطعی اعداد و شمار جاری کئے ہیں جبکہ دوسرے مرحلہ میں رائے دہی کے دن جاری کردہ اعداد و شمار میں 32لاکھ 20ہزار ووٹوں کے اضافہ کے ساتھ قطعی اعداد وشمار جاری کئے گئے ہیں تیسرے مرحلہ کی رائے دہی کے دوران ہوئی رائے دہی کے دن جاری کئے گئے اعداد وشمار اور قطعی اعداد وشمار میں 22لاکھ 10ہزار ووٹوں کا نمایاں فرق ریکارڈ کیا جا رہاہے جبکہ چوتھے مرحلہ کی رائے دہی کے دن جاری کئے گئے اعداد وشمار اور قطعی اعداد وشمارمیں 33لاکھ 90ہزار ووٹوں کا واضح فرق دیکھا جارہا ہے۔ الیکشن کمیشن آف انڈیا کی جانب سے رائے دہی کے بعد ریکارڈکئے جانے والے اس اضافہ کو دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ الیکشن کمیشن آف انڈیا سابق کی تمام روایات کو توڑتے ہوئے رائے دہی کے دن ہی رات دیر گئے اعداد وشمار جاری کرنے کے بجائے کافی تاخیر سے قطعی اعداد وشمار جاری کر رہا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے ذمہ داروں کا کہنا ہے کہ سابق میں کسی بھی انتخابات میںاعداد وشمار کے درمیان اس طرح کا فرق نہیں دیکھا گیا بلکہ گذشتہ گجرات اسمبلی انتخابات کے دوران اس بات کو محسوس کیاگیا کہ رائے دہی کا عمل مکمل ہونے کے بعد جاری کئے جانے والے قطعی اعداد و شمار بالخصوص رائے دہی کے آخری ایک گھنٹے کے دوران ریکارڈ کئے گئے اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو اس ایک گھنٹہ کے دوران رائے دہندوں نے محض58 سکنڈ میں ایک ووٹ کا استعمال کیاہے۔ الیکشن کمیشن آف انڈیا کے عہدیداروں نے سیاسی جماعتوں کی جانب سے رائے دہی کے بعد بڑی تعداد میں ووٹوں کی تعداد میں ہونے والے اضافہ کے سلسلہ میں کی گئی نمائندگیوں کو نظرانداز کیا اور جب کانگریس سربراہ مسٹر ملکارجن کھرگے نے اس سلسلہ میں مکتوب روانہ کیا تو انہیں یہ جواب دیا گیا کہ وہ اس طرح کے مکتوبات کے ذریعہ عوام میں شبہات نہ پیدا کریں۔ پانچویں مرحلہ کے دوران ہوئی رائے دہی کے قطعی اعداد و شمار جاری کرنے کے بجائے الیکشن کمیشن آف انڈیا نے جملہ ووٹوں کے استعمال کے فیصد میں محض 2 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کرتے ہوئے ووٹوں کی تفصیلات جاری کرنے سے گریز کیا ہے۔ الیکشن کمیش آف انڈیا کی جانب سے اختیار کردہ رویہ کے سبب عوام کے ذہنوں میں کئی طرح کے شبہات پیدا ہونے لگے ہیں اور وہ انتخابات کی شفافیت کے متعلق شبہات کا شکار ہورہے ہیںکیونکہ انہیں ووٹوں کی تعداد میں ریکارڈ کئے جانے والے اس اضافہ میں انتخابی دھاندلی کے آثار نظر آرہے ہیں۔3