اے حجر اسود تیرا مقدر اللہ اکبر اللہ اکبر

   

شجاعت علی آئی آئی ایس ‘ریٹائرڈ
عالمی سطح پر پھیلے ہوئے کورونا وائرس کی وجہ سے خادمین حرمین وشریفین نے مکہ و مدینہ میں عمرہ کے لئے آنے والے مسلمانوں کی آمد و رفت پر پابندی لگادی ہے جس کے سبب عمرہ کی ادائیگی مسدود ہوگئی ہے۔ حکام نے یہ قدم قرآن کریم کی اس آیت کے پیش نظر کیا ہے جس میں اللہ سبحانہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ’’ اور جب کہ ہم نے ابراہیم کو اس گھر کا ٹھکانا ٹھیک بتادیا اور حکم دیا کہ میرا کوئی شریک نہ کر اور میرا گھر صاف ستھرا رکھ طواف ،اعتکاف، رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لئے‘‘۔
اس آیت مبارکہ میں اللہ رب العزت کا واضح حکم موجود ہے کہ کعبۃ اللہ کو طواف اور عبادت کرنے والوں کے لئے پاک و صاف رکھا جائے۔ پچھلے چند دنوں سے مسلمان آپس میں یہ بحث کررہے ہیں کہ حرم کعبہ میں طواف مسدود ہوگیا ہے۔ گویا ان کی نظر میں یہ قیامت کی نشانی ہے۔ اس طرح کی سوچ کو ایمان کی کمزوری ہی سمجھا جائے گا۔ ہم سب کو اس بات پر غور کرنا ہوگا کہ بلا تحقیق بات کرنا کس قدر شرمناک ہوسکتا ہے کہ آپ قرآن کریم کے مقابل آکھڑے ہوتے ہیں۔ کیا اس میں کوئی شک ہے کہ بیت الحرام اللہ کا مقدس گھر ہے جہاں دنیا بھر کے مسلمان کونے کونے سے جوق در جوق آتے ہیں اور اللہ سبحانہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں۔ ایسی گھڑی میں خانہ کعبہ کو پاک و صاف رکھنا ہر قسم کے جراثیم ، گندگی یا بیماری کے پھیلاؤ سے محفوظ رکھنا حاکم وقت کی اہم ترین ذمہ داری ہے۔
کورونا وائرس سے محفوظ رہنے کے لئے احتیاط ـضروری ہے۔ اسی مقصد کے پیش نظر بیت اللہ شریف کے گرد مطاف کو خالی کرا دیا گیا ہے تو بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے جو سراسر غلط ہے۔ حالانکہ ماضی کی تاریخ پر غور کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ ایسا کئی بار ہوا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس سے پہلے مسجد الحرام میں مختلف وجوہات کی بناء پر نماز کا اہتمام نہیں کیا جاسکا کیونکہ سیلاب ، بیماریوں کے پھیلاؤ سے بچاؤ ،سیاسی وجوہات اور جنگ و جدل کی بناء پر اس وقت کے حکماء نے بڑے پیمانے پر نماز کی ادائیگی سے انحراف کیا۔ اسلامی تاریخ میں صرف طواف ہی بند نہیں ہوا بلکہ ایسے کچھ سال بھی گزرے جن میں حج کی ادائیگی بھی نہیں ہو پائی۔ ایک واقعہ ایسا بھی ہوا کہ 9 ذی الحجہ یعنی یوم عرفہ کو میدان عرفات پہنچنے والے عازمین حج کو حدود عرفات سے باہر نکال دیا گیا۔
ساری دنیا آج مختلف احتیاطی اقدامات کے ذریعہ اس وباء کے پھیلاؤ کو روکنے میں لگی ہوئی ہے۔ سعودی عرب بھی عالمی ایڈوائزری پر کام کررہا ہے تاکہ مسلمانوں کو اس وباء کے قہر سے بچایا جاسکے۔ اسلامی تاریخ میں 7ذی الحجہ 317 ہجری کے اس واقعہ کو نہیں بھلایا جاسکتا جب بحرین کے حاکم ابو طاہر سلیمان نے مکہ معظمہ پر قبضہ کرلیا تھا۔ خوف و ہراس کا ایسا ماحول تھا کہ حج بیت اللہ موقوف ہوگیا۔ کہا جاتا ہے کہ ایسا واقعہ حج کی تاریخ میں پہلی بار پیش آیا تھا۔ کوئی بھی عازم حج عرفات نہ جاسکا۔ ابو طاہر سلیمان نے کعبتہ اللہ سے حجر اسود نکال لیا اور اسے اپنے ساتھ بحرین لے کر چلا گیا۔ پھر بنو عباس کے خلیفہ مقتدب باللہ نے ابو طاہر سلیمان سے ایک معاہدہ کرکے فیصلہ کیا کہ حاکم بحرین کو 30ہزار دینار دیئے جائیں اور حجر اسود کو واپس لیا جائے۔ 339 ہجری یعنی 22 سال کے عرصہ تک خانہ کعبہ حجر اسود سے محروم رہا۔ معاہدہ کے مطابق حجر اسود کو واپس لانے کے لئے عالم دین اور عظیم محدث عبداللہ کی زیر قیادت ایک وفد بحرین بھیجا گیا۔ علامہ صیواتی کی روایت سے اس طرح نقل کیا گیا ہے کہ جب عبداللہ بحرین پہنچے تو وہاں پر ایک خاص محفل کا اہتمام کیا گیا اور جب سلیمان نے ایک پتھر جو خوشبو دار اور نہایت ہی چمکدار تھا نکالا اور حضرت عبداللہ کو پیش کیا تو انہوں نے کہا کہ یہ اصلی نہیں ہے۔ حجر اسود میں دو خاص نشانیاں ہیں ایک یہ کہ اگر اسے پانی میں ڈالا جائے تو وہ ڈوبتا نہیں اور وہ آگ سے گرم نہیں ہوتا ۔ پھر دوسرا پتھر لایا گیا تو اس کے ساتھ بھی ایسا ہی عمل کیا گیا اور ثابت کیا گیا کہ وہ بھی اصلی نہیں ہے۔ عالم دین و محدث عبداللہ نے کہا کہ ہم اصلی حجر اسود ہی لے جائیں گے۔ پھر جو تیسرا پتھر پیش کیا گیا وہ اصل تھا جب اسے پانی میں ڈالا گیا تو وہ نہیں ڈوبا بلکہ ایک پھول کی طرح پانی میں لہرایا اور آگ میں ڈالا گیا تو ٹھنڈا ہی رہا۔ حضرت عبداللہ نے کہا کہ یہ وہی پتھر ہے جسے جنت سے لایا گیا ہے اور جسے آقائے نامدار حضور اکرم ﷺ نے چوما تھا۔ بحرین کے حاکم نے ان سے پوچھا کہ آپ کو یہ کیسے پتہ چلا کہ یہی اصلی سنگ اسود ہے تو آپ نے فرمایا کہ یہ باتیں ہمیں حضور اکرم ﷺ سے معلوم ہوئیں کہ سنگ اسود پانی میں نہیں ڈوبے گا اور آگ سے گرم نہیں ہوگا۔ اس پتھر کو ایک کمزور اوٹنی پر رکھا گیا جس نے اس پتھر کو تیزی کے ساتھ کعبتہ اللہ کو منتقل کیا اور یہی پتھر ڈکیتی کے ذریعہ بحرین لے جایا جارہا تھا تو وہاں تک پہنچنے کے دوران کوئی چالیس اونٹ مر گئے جو حجر اسود کو تھوڑی ہی دور لے جاتے اوریکے بعد دیگرے مر تے چلے جاتے۔ حجر اسود کے بارے میں بس یہی کہا جاسکتا ہے کہ
اے حجر اسود بھیجا ہے جنت سے تجھ کو خدا نے
چوما ہے تجھ کو میرے مصطفی نے
اے حجر اسود تیرا مقدر اللہ اکبر اللہ اکبر
بہرحال یہ ایک سچائی ہے کہ مرض اور شفا کے بیچ دوا ایک فریب کے سوا کچھ بھی نہیں اور یہ بھی ایک سچائی ہے کہ دوائی لینا بھی اللہ کا حکم ہے اور وہی شفا سے نوازتے ہیں۔ اس وقت 50ہزا ر سے زائد افراد اس جان لیوا وائرس کا شکار ہوگئے ہیں۔ ساری دنیا اپنے اپنے ڈھنگ سے اس وبا کو پھیلنے سے روکنے لگی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کا موثر ڈھنگ سے نپٹارا نہ کیا جائے تو یہ اور بھی خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ اس بیماری کی روک تھام کے لئے سب سے بڑا قدم یہ ہونا چاہئے کہ ہم کسی سے بھی ہاتھ ملانے سے گریز کریں یعنی بہتر ہوگاکہ ہم کسی کے ٹچ میں نہ آئیں تاکہ وہ وائرس ہمارے جسم پر حملہ نہ کرسکے۔ کھانسنے والوں کے قریب نہ جائیں اور ہر پل اپنے ہاتھ دھوتے رہیں تاکہ کسی بھی وجہ سے یہ وائرس ہم پر حملہ نہ کرسکے۔ ہاتھ دھوئے بغیر آنکھ اور ناک میں انگلی نہ ڈالیں۔ اس طرح سے ہم وائرس کو شکست دے سکتے ہیں۔ اس وائرس سے متعلق بے شمار افواہیں پھیلائی جارہی ہیں جس سے ہمیں ڈرنے یا گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ بڑے ہجوم سے دور رہنا اس لئے ضروری ہے کہ کسی کو بھی یہ پتہ نہیں چلتا کہ کون وائرس کا شکار ہوچکا ہے۔ اگر کوئی مریض اس ہجوم میں ہے تو وہ اپنی کھانسی یا چھینک کے ذریعہ ایک مربع میٹر میں موجود تمام لوگوں میں اپنا وائرس منتقل کرسکتا ہے۔ حکام نے جن تحدیدات کا حکم دیا ہے ہمیں اس کو قبول کرنا چاہئے تاکہ ہم اس موذی وائرس سے بچے رہیں۔ سارے عالم میں مختلف فرقوں کے بڑے بڑے مذہبی اجتماعات کو موقوف کردیا گیا ہے۔ سعودی عرب میں بھی جو اقدامات کئے گئے ہیں اسی پالیسی کا حصہ ہے۔
آج کل ہم لوگ قیامت سے متعلق بہت زیادہ گفتگو کررہے ہیں۔ زندگی اور موت ، خوشحالی اور بدحالی ، امن و جنگ سبھی کچھ تو اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ اس پس منظر میں حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول مکرم ﷺ سے پوچھا کہ قیامت کب ہوگی تو آپ نے اس سے دریافت کیا کہ قیامت کے لئے تو نے کیا تیاری کی ہے تو اس شخص نے عرض کیا کہ میری تو کوئی تیاری نہیں ہے البتہ میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہوں تو حضور نے فرمایا تم اسی کے ساتھ ہو جس سے محبت رکھتے ہو۔ تم ہمارے ساتھ ہوں گے کیونکہ تم مجھے سے اور اللہ تعالیٰ سے پیار کرتے ہو۔حضرت اُنس ؓ کہتے ہیں کہ اسلام کے بعد میں نے مسلمانو ں کو کسی بات سے اتنا خوش ہوتے نہیں دیکھا جتنا آپ کے اس ارشاد سے خوش ہوئے۔ (بخاری و مسلم)
irshadho@gmail.com
https://www.facebook.com/ShujathAliSufi/