بابری مسجد۔ رام جنم بھومی حق ملکیت کیس کا آغاز، 1934ء سے پانچوں نمازیں بند، 1949ء میں وہاں مورتیاں رکھی گئیں۔ نرموہی اکھاڑے کے کیل سشیل کمار کا دعویٰ

,

   

نئی دہلی: بابری مسجد۔ رام جنم بھومی حق ملکیت کیس کی سماعت کا آغاز ہوگیا ہے۔چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی صدارت والی سپریم کورٹ کی 5رکنی آئینی بنچ نے کیس کی سماعت شروع کی اور سب سے پہلے نرموہی اکھاڑے کے موقف کو سنا۔ واضح رہے کہ مصالحت کی کوشش ناکام ہونے کے بعد سپریم کورٹ نے گذشتہ 2اگست کو فیصلہ کیا تھا کہ اب ا س معاملہ کی روزانہ کی اساس پر سماعت ہوگی۔ اب ہرہفتہ، منگل، بدھ او رجمعرار کو اس کی سماعت ہوگی۔

سپریمکورٹ نے نرموہی اکھاڑے کے موقف کوسنا۔ نرموہی اکھاڑے کی جانب سے ایڈوکیٹ سشیل کمار جین نے اپنا موقف پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس زمین پر نرموہی اکھاڑے کا سینکڑوں سال سے حق تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس احاطہ پر ہمارا حق تھا۔ انہوں نے عدالت کو ایک نقشہ پیش کیا او رکہا کہ ہمارا سوٹ متنازعہ احاطہ کے اندر ہے اور ا س پر پہلے ہمارا حق تھا بعد میں طاقت کی بنیاد پر ہم سے چھین لیاگیا۔ ایڈوکیٹ سشیل کمار نے کہا کہ اس اراضی پر ہمارا سو سال سے قبضہ تھا اس جگہ کو رام جنم استھان کے نام سے جانی جاتی تھی۔ پہلے یہ نرموہی اکھاڑہ کے قبضہ میں تھی۔ سشیل کمار نے کہا کہ میرامطالبہ متنازعہ زمین کے اندورنی حصہ کو لے کر ہے۔

انہوں نے کہا کہ دسمبر 1992ء کے بعد اس جگہ پر شرپسندوں نے نرموہی اکھاڑہ کے مندر کو بھی توڑدیا۔ سشیل کمارنے کہا کہ نرموہی اکھاڑہ 19مارچ 1949سے رجسٹرد ہے۔ انہوں نے کہا کہ جھانسی کی لڑائی کے بعدجھانسی کی رانی کی حفاظت گوالیار میں نرموہی اکھاڑہ نے ہی کی تھی۔ ایڈوکیٹ نے دعوی کیا کہ مسلمانوں نے1934ء سے وہاں پانچوں وقت کی نمازیں پڑھنا بند کردی تھی۔ اس کے بعد 16دسمبر 1949ء کے بعد تو جمعہ کی نماز پڑھنا بھی بند کردی گئی تھی۔ ایڈوکیٹ جین نے کہا کہ 22-23دسمبر 1949ء کو وہاں اندر مورتیاں رکھی گئیں۔ سماعت کے اس موقع پر جمعیۃ علماء ہند کے وکلاء بھی موجودتھے۔