رام پنیانی
ملک میں حالیہ برسوں کے دوران ایسی فلمیں تیار کی گئیں ہیں جن کا مقصد ایک مخصوص مذہب کے ماننے والوں کے خلاف بھولے بھالے عوام کے اذہان و قلوب میں نفرت کا زہر گھولا جائے اور اپنے ناپاک مقاصد کی تکمیل کی جاسکے۔ ان فلموں میں زیادہ تر جھوٹ کا سہارا لیا گیا اور تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ ان میں سے بعض فلموں کی سرکاری سطح پر نہ صرف سرپرستی و حوصلہ افزائی کی گئی بلکہ وزیر اعظم نریندر مودی وزیر داخلہ امیت شاہ اور بی جے پی ارکان پارلیمان و ارکان اسمبلی نے بھی ان فلموں کو بڑی دلچسپی کے ساتھ گروپوں کی شکل میں دیکھا اور ان کی ستائش کی حالانکہ ساری دنیا اچھی طرح جانتی ہے کہ ان فلموں میں کتنا سچ دکھایا گیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وزیر اعظم نریندر مودی اور چیف منسٹر مہاراشٹرا مسٹر دیویندر فڈنویس جیسی قابل شخصیتیں ایسی فلموں کی تشہیر کریں گی جن میں ماضی میں کمزور طبقات بالخصوص دلتوں اور خواتین کے خلاف کئے گئے مظالم کو دکھایا گیا ہے۔ ایک بات ضرور ہیکہ راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے اتحاد کے ذریعہ 1992 میں شہادت بابری مسجد کا واقعہ پیش آیا اور تب تاریخ سماج اور سماجی مسائل پر حاوی ہونے لگی۔ ایک خاص ورژن جو بادشاہوں اور ان کے مذہب کے ذریعہ تاریخ کا مطالعہ کرتا ہے، تاریخ کا مشاہدہ کرتا وہ ایک منصوبہ بند سازش کے ذریعہ چنندہ طریقہ سے کیا جارہا ہے۔ اب ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے فرقہ پرست طاقتیں تاریخ کو قوم پرستی سے جوڑ رہی ہیں اور دلچسپی کی بات یہ ہے کہ بادشاہوں اور راجہ رجواڑوں کے دور کی تاریخ کو قوم پرستی سے جوڑا جارہا ہے اور وہ بھی اس حقیقت کو فراموش کرتے ہوئے کہ ملک، ریاست ایک جدید رجحان ہے اور ہندوستان کا تصور استعماری طاقتوں کے خلاف جدوجہد کے متوازی کے طور پر ابھرا ہے۔ فرقہ پرست طاقتیں آج ان ہندو راجاؤں و حکمرانوں کو محب وطن عظیم قوم پرست اور قومی ہیروز و حب الوطنی کی علامت کے طور پر پیش کررہی ہیں جنہوں نے مسلم بادشاہوں سے جنگیں لڑیں۔ ناتھورام گوڈسے جس نے مہاتما گاندھی کے سینے میں تین گولیاں اتاردیں، عدالت میں گوڈسے کی گواہی اور بیانات پر مبنی کتاب May it Please Your honor گاندھی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ وہ چھترپتی شیواجی مہاراج یا مہارانا پرتاپ کے برعکس کوئی قدآور شخصیت کے حامل نہیں تھے۔ ان دونوں کے سامنے ان کی شخصیت ایک بونا کی طرح تھی بہرحال آج حالت یہ ہوگئی ہے کہ گوڈسے کے نظریہ سے تعلق رکھنے والے اس کے نظریہ میں یقین رکھنے والے اس بات کو زیادہ شدت کے ساتھ ہوا دے رہے ہیں۔ اس قدر زیادہ شدت کے ساتھ دہرا رہے ہیں کہ ان کی جھوٹ بھی سچ دکھائی دیتی ہے۔ یعنی یہ عناصر جھوٹ اس مہارت کے ساتھ پھیلا رہے ہیں کہ اس سے سچ بھی شرما رہی ہے۔ چیف منسٹر اترپردیش یوگی آدتیہ ناتھ جو مسلمانوں کے خلاف اپنے اشتعال انگیز بیانات کے لئے کافی بدنام ہیں حال ہی میں تاریخ کے حملہ آوروں کی عزت و توقیر کرنے ان کی تعریف و ستائش کرنیوالوں پر شدید تنقید کی اور اسے غداری کا ایک فعل قراردیا۔ یعنی انہوں نے کہا کہ جو لوگ حملہ آوروں کی تعریف و ستائش کرتے ہیں وہ اصل میں ملک سے غداری کررہے ہیں اور ان کی غداری کے اس فعل کو نئے ہندوستان میں برداشت نہیں کیا جائے گا۔ بی جے پی کے اس اشتعال انگیز بیانات دینے کے معاملہ میں بدنام لیڈر کے ریمارکس ایک ایسے وقت منظر عام پر آئے جب مہاراشٹرا کے اورنگ آباد میں واقع مغل حکمراں شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر ؒ کی مزار کو مسمار کرنے کا مطالبہ زور پکڑتا جارہا ہے۔ مہاراشٹرا میں حکومت نے اورنگ آباد کا نام تبدیل کرکے چھترپتی سمبھاجی نگر رکھ دیا ہے۔ اس خطوط پر آر ایس ایس کے جنرل سکریٹری دتاترے ہوسابالے نے سوال کیا کہ کیا کسی ایسے شخص کو ہیرو کے طور پر پیش کرنا جو ہندوستان کی اخلاقیات کا مخالف تھا درست ہے؟ ان کا یہ بھی سوال تھا کہ گنگا جمنی تہذیب کی وکالت کرنے والوں نے اورنگ زیب کے بڑے بھائی داراشکوہ کو ہیرو کے طور پر پیش کرنے کے بارے میں کبھی کیوں نہیں سوچا حالانکہ دارشکوہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ گنگا جمنی تہذیب کے کٹر حامی تھے۔ اگر دیکھا جائے تو ملک میں چھترپتی شیواجی اور مغل حکمراں اورنگ زیب کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب کچھ اورنگ زیب کو حملہ آور ظالم و جابر ولن کے طور پر پیش کرنے کے لئے کیا جارہا ہے (حالانکہ اورنگ زیب پیدائشی ہندوستانی تھے ان کی پیدائش گجرات میں ہوئی) آئیے بی جے پی اور آرا یس ایس کے لیڈران جس طرح کی باتیں کررہے ہیں جس طرح کے بیانات جاری کررہے ہیں اس پر غور کرتے ہیں۔ سب سے اہم سوال یہ ہیکہ حملہ آور کون تھے؟ کیا اورنگ زیب حملہ آور تھے؟ سادہ سی بات یہ ہیکہ اورنگ زیب کو سلطنت اپنے والد شاہجہاں سے وراثت میں ملی تھی۔ سلطنت مغلیہ کا آغاز ظہیر الدین بابر سے ہوا تھا جو کابل میں حکومت کیا کرتے تھے لیکن رانا سانگا نے انہیں خط بھیجا کہ وہ دہلی کے حکمراں ابراہیم لودھی کو شکست دینے ہندوستان آئے، بابر نے رانا سانگا کی دعوت قبول کی اور بابر نے دہلی سلطنت پر حکمومت کرنے کی اطر رانا سانگا اور ابراہیم لودھی کے ساتھ لڑائی شروع کی۔ بابر سے پہلے بھی یونانیوں، کشاکش، ہن اورشاکاس نے بھی ہندوستان کے شمال مغربی علاقوں پر حملے کئے اور آبادی کا حصہ بن گئے، ہندوستان پر حکمرانی کرنے والے صرف مغل ہی نہیں تھے بلکہ خلیجی، غلام اور غزنوییوں نے مقامی راجاؤں کو شکست دینے کے بعد یہاں حکومت کی ہندوستان اس وقت موجودہ شکل میں نہیں تھا۔ دہلی سے ایک قوم حکمرانی کرتی تھی، بادشاہ اقتدار اور اپنی اجارہ داری کو یقینی بنانے کے لئے ایک دوسرے سے لڑا کرتے تھے اور دلچسپی کی بات یہ ہے کہ مشرق میں مختلف لوگوں شاکاس، ہن، کشانس اور آہومس کے باہمی میل جول نے یہاں مخلوط ہم آہنگی پیدا کی۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آج ہندوستانی قوم کا ICON کون ہے؟ یوگی اور گوڈسے شواجی اور رانا پرتاپ کو نیشنل آسکون یا قومی ہیروز کے طور پر پیش کرتے ہیں حالانکہ شیواجی کی فوج میں کئی مسلم جرنیل ہوا کرتے تھے۔ اسی طرح شیواجی کے انتظامیہ میں متعدد اعلیٰ عہدیدار مسلمان تھے۔ اس نے اورنگ زیب کے خلاف لڑائی لڑکی اورنگ زیب کی فوج کی قیادت راجہ جئے سنگھ کیا کرتے تھے۔ ہلدی گھاٹ میں رانا پرتاپ نے بہادری کے جو جوہر دکھائے وہ قابل تعریف ہیں لیکن کیا یہ ہندوستانی قوم پرستی کی لڑائی کی نمائندگی کرتی ہے؟ اس کی فوج میں 3000 سپاہی تھے جس میں سے 1000 سپاہی پٹھان تھے جن کی قیادت حکیم خان سوری کیا کرتے تھے، دوسری طرف اکبر کی فوج کے کمانڈر انچیف کوئی اور نہیں بلکہ مان سنگھ تھے؟ ان لوگوں کے درمیان جو لڑائی ہوئی وہ لڑائیاں قوم پرستی کے مسئلہ پر نہیں لڑی گئیں بلکہ وہ لڑائیاں منصب کے لئے تھیں وہ لڑائیاں بادشاہ بمقابلہ بادشاہ تھیں نہ کہ ہندو بمقابلہ مسلم تھیں۔ ایسا نہیں ہے کہ تمام مسلمان بادشاہ ظالم تھے اور ہندو بادشاہ امن کے پیامبر تھے۔ اشوک اپنی کلنگا جنگ کے لئے بھی بدنام ہیں چالوکیہ کے ساتھ چول بادشاہوں کی جنگ ایک بار پھر بہت سی چیزوں کی ایک مثال تھی جیسے چولاکی فوج نے جیتنے کے بعد شکست خوردہ چالوکیہ بادشاہ جنرل سمدرا راج کا سر تن سے جدا کردیا اور اس کی بیٹی کی ناک کاٹ دی۔ اب آپ کو بتاتے ہیں کہ اورنگ زیب کو سیاسی مقاصد کے لئے بدنام کیا جارہا ہے اور مسلمانوں کے ایک گوشہ کو ڈرایا دھمکایا جارہا ہے۔ انہیں الگ تھلگ کیا جارہا ہے۔ ان کی الگ بتیاں بسائی جارہی ہیں نتیجہ میں مسلمانوں کا ایک گوشہ یا طبقہ فرقہ وارانہ تشدد، ذبیحہ گاؤ اور لو جہاد، لینڈ جہاد وغیرہ جیسے مسائل کی وجہ سے خوف زدہ اور گھبراکر اس میں قدرے عزت نفس کو تلاش کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ جب ہم تاریخ کی بات کرتے ہیں تو اسے پیش کرنے کے مختلف طریقہ ہیں ہندو فرقہ پرست، راجاؤں کو زیادہ سے زیادہ پراجکٹ کرتے ہیں کیونکہ وہ ماضی میں ذات پات کی درجہ بندی کے ظلم و ستم اور خواتین کی محکومی و محرومی پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں۔ ڈاکٹر بی آر امبیڈکر ہندوستان کی تاریخ کو بدھ مت اور برہمنی ازم کے درمیان جنگ کے طور پر پیش کرتے ہیں ان کے مطابق بدھ مت برہمنی ذات پات کی اقدار کے خلاف ایک انقلاب کے طور پر ابھرا اور ہندوستان بھر میں بڑے پیمانے پر بدھ مت ملک کا پھیلاؤ ہوا اور وہ ہندوستان کا ایک بڑا مذہب بن گیا۔ اشوک نے جنوب مشرقی ایشیاء میں بدھ مت کو پھیلایا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ عالمی مذہب بن گیا۔ ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کے مطابق اس انقلاب کے بعد پشیامتراتنگ کی قیادت میں ایک جوابی انقلاب برپا ہوا جس نے بدھسٹوں کو مٹا دیا اور ہندوستان سے بدھ مت اس وقت تک غائب ہوگیا جب تک امبیڈکر نے اسے دوبارہ واپس نہیں لایا، یعنی ہندوستان میں ڈاکٹر بی آر امبیڈکر نے بدھ مت کا احیاء کیا۔