امجد خان
ہندوستان میں ایسی بے شمار مائیں ہیں جو فرقہ وارانہ تشدد میں شہید اپنے بیٹوں کی جدائی کا غم سہتے ہوئے زندگیاں گذار رہی ہیں یا پھر برسوں سے لاپتہ اپنے بیٹوں کی واپسی کا بڑی بے چینی سے انتظار کررہیں۔ اس ضمن میں وہ پولیس سے لے کر نفاذ قانون کی ایجنسیوں اور عدالتوں سے رجوع بھی ہوئی ہیں لیکن ان تڑپتی بلکتی ماؤں کو پولیس، نفاذ قانون کی ایجنسیاں اور عدالتیں انصاف دلانے میں بری طرح ناکام ہوگئی ہیں۔ اپنے لاپتہ نورنظر کی تلاش میں ملک بھر میں مارے مارے پھر رہی ایسی ہی ایک ماں فاطمہ نفیس ہیں اور ان کو اگرچہ گودی میڈیا نے تعصب و جانبداری کے باعث بری طرح نظرانداز کردیا ہے لیکن سچائی پر یقین رکھنے اور جرات و بے بابی کے ذریعہ اقتدار کے ایوانوں کو دہلا دینے والے صحافیوں اور عالمی ذرائع ابلاغ نے فاطمہ نفیس کی آواز کو دنیا تک پہنچانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ واضح رہے کہ 30 جون کو دہلی کی ایک عدالت نے جے این یو کے طالب علم نجیب احمد گمشدگی معاملہ میں مرکزی تحقیقاتی ایجنسی سی بی آئی کی جانب سے پیش کی گئی کلوز رپورٹ کو منظور کرلیا۔ فاطمہ نفیس کے فرزند دلبند نجیب احمد 15 اکتوبر 2016ء سے جے این یو نئی دہلی سے لاپتہ ہوگئے۔ اگرچہ وہ 8 سال 8 ماہ اور 16 دن سے لاپتہ ہیں ۔ سی بی آئی جیسی ملک کی مرکزی تحقیقاتی ایجنسی بھی ان کا اتہ پتہ معلوم کرنے سے قاصر ہیں۔ نجیب احمد جے این یو میں ایم ایس سی بائیو ٹیکنالوجی سال اول کے طالب علم تھے اور یونیورسٹی کیمپس کے ماہی مانڈوی ہاسٹل کے ایک کمرہ میں مقیم تھے۔ جے این یو اسٹوڈنٹ یونین اور نجیب کے خاندان کا کہنا تھا کہ لاپتہ ہونے سے ایک رات قبل بی جے پی کی طلباء ونگ اے بی وی پی (ABVP) کے کم از کم 9 ارکان نے ان پر حملہ کیا تھا اور انہیں شدید زدوکوب کیا۔ نتیجہ میں ان کے منہ سے خون بہہ رہا تھا۔ اے بی وی پی کے ارکان نجیب کے روم پہنچ کر ہاسٹل الیکشن کیلئے ووٹ مانگا تھا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ نجیب کے لاپتہ ہونے کے بعد حکومت، دہلی پولیس، دہلی پولیس کی اسپیشل انوسٹیگیشن ٹیم ، دہلی پولیس کی کرائم برانچ اور سی بی آئی نے اگرچہ ان کا پتہ چلانے کی کوشش کی لیکن تمام کے تمام بری طرح ناکام رہے۔ اہم بات یہ ہے کہ دہلی پولیس اور سی بی آئی اپنی کارکردگی کو لے کر بلند بانگ دعوے کرتے ہیں، ایسے کیس حل کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں جو بہت مشکل تھے۔ بہرحال مختلف مراحل پر دہلی ہائیکورٹ نے نفاذ قانون کی مذکورہ ایجنسیوں کی سرزنش کی تھی۔ دہلی پولیس کا دعویٰ ہے کہ اس نے نجیب کا پتہ لگانے کیلئے اخبارات وغیرہ میں جو اشتہارات شائع کروائے، اس پر 24,55,600 روپئے کے مصارف (سال 2020ء تک) آئے لیکن کچھ فائدہ نہیں، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر نجیب زندہ بھی ہے یا نہیں؟ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ نجیب کا پتہ بتانے والوں کیلئے 29 جون 2017ء کو سی بی آئی نے 10 لاکھ روپئے انعام دینے کا اعلان کیا۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ سی بی آئی نے دہلی ہائیکورٹ میں دہلی پولیس پر الزام عائد کیا کہ اس نے ایک آٹو ڈرائیورکو یہ جھوٹا بیان دینے کیلئے مجبور کیا کہ اس نے اُس دن نجیب کو جامعہ ملیہ اِسلامیہ پہنچایا تھا۔ اس کیس کا ایک اور افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ٹائمس آف انڈیا، ٹائمس ناؤ اور زی نیوز نے بقول فاطمہ نفیس کے غلط طور پر یہ رپورٹنگ کی تھی کہ نجیب احمد دہشت گرد گروپ آئی ایس آئی ایس سے رابطہ میں تھا۔ اس طرح کی دروغ گوئی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے میڈیا کے ان تینوں اداروں کو قانونی نوٹسیں جاری کی تھی۔ فاطمہ نفیس نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ جے این یو انتظامیہ نے متعصبانہ اور جانبدارانہ رویہ اپنایا تھا۔ نجیب کی تلاشی کو یقینی بنانے کیلئے فاطمہ نفیس نے اروندھی رائے، سپریم کورٹ کے سینئر وکیل پرشانت بھوشن، عمر خالد، کنہیا کمار، پروفیسر نندیتا نارائن، سائی بالاجی اور ندیم خان کے ساتھ بڑے پیمانے پر مہم چلائی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نجیب احمد کو اے بی وی پی کے ارکان نے وارڈن اور پرائیویٹ سکیورٹی عملہ کی تعیناتی کے باوجود شدید زدوکوب کیا اور عینی شاہدین نے انہیں یہ کہتے سنا کہ اس (نجیب) کو 72 حوروں کے پاس بھیجنا ہے۔ حیرت اس بات کی ہے کہ سی بی آئی 8 برسوں اور 8 ماہ کے دوران یہ پتہ لگانے میں ناکام رہی کہ نجیب زندہ بھی ہے یا نہیں۔ اگر وہ نجیب کو تلاش کرنے میں ناکام ہوجاتی ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نجیب کو زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔ حقوق انسانی کے اکثر جہد کاروں نے اس کیس میں سی بی آئی کی ناکامی پر حیرت کا اظہار کیا۔ یہ وہی سی بی آئی ہے جو یہ دعویٰ کرتے نہیں تھکتی کہ پارلیمنٹ، عدلیہ، حکومت اور عوام کا اسے مکمل اعتماد حاصل ہے۔ واضح رہے کہ سی بی آئی نے اس کیس میں سال 2018ء میں کلوز رپورٹ داخل کی تھی اور اس کے خلاف نجیب کی ماں فاطمہ نفیس نے عدالت میں درخواست دائر کی تھی۔ ان کا الزام تھا کہ سی بی آئی 9 مشتبہ عناصر کی صحیح طریقہ سے تفتیش نہ کرسکی۔ اگر قتل، اغوا اور دوسرے واقعات میں پولیس مشتبہ افراد کی جس انداز میں تفتیش کرتی ہے دہلی پولیس اس طرح کی تفتیش اے بی وی پی کے 9 ارکان سے کرتی تو تمام حقائق کا پتہ چل جاتا۔ شاید پولیس نے بی جے پی کے طلباء وِنگ ABVP کے ان سے تعلق ہونے کے باعث ان کی اس طرح تفتیش نہیں کی، جیسا کی جانی چاہئے۔ آپ کو بتادیں کہ نجیب احمد کی پیدائش 1989ء کو ہوئی اور ان کے خاندان کا تعلق اترپردیش کے بدایوں سے ہے۔ نجیب کی ماں فاطمہ نفیس کے مطابق وہ اپنے فرزند نجیب کا انتظار اپنی آخری سانس تک کریں گی، وہ مزید کہتی ہیں کہ وہ ہر روز اپنے بیٹے کی سلامتی اور اس کی واپسی کیلئے بارگاہ رب العزت میں دعا کرتی رہی ہیں۔ انہیں امید ہے کہ ایک دن ان کے ساتھ انصاف کیا جائے گا۔ نفیس فاطمہ کے وکلاء نے ماضی میں یہ کہہ کر شکوک و شبہات کو مزید گہرا کردیا تھا کہ یہ ایک سیاسی مقدمہ ہے جس میں سی بی آئی اپنے آقاؤں کے دباؤ میں آگئی۔ بہرحال اب دیکھنا یہ ہے کہ نجیب کا پتہ چلے گا بھی یا نہیں۔ نجیب احمد کی غم زدہ ماہ اکثر مظاہروں میں ایسا پوسٹر تھامے رہتی ہیں جس پر لکھا ہوتا ہے : ’’بتایئے وزیراعظم! نجیب کہاں ہے؟‘‘