پی چدمبرم
سابق مرکزی وزیر داخلہ
مجھے عام طورپر کسی حکومت کی جانب سے کئے جانے والے بلند بانگ دعوؤں اور وعدوں پر شک ہوتا ہے اور جہاں تک میرا سوال ہے میں وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ٹائم ٹیبل اور آخر میں کارکردگی کی رپورٹ کو ترجیح دیتا ہوں ۔ ذیل کی سطور میں راقم الحروف نریندر مودی اور اُن کی حکومت کی جانب سے کئے گئے ایسے بے شمار وعدوں کی مثالیں پیش کررہا ہے جو اب تک وفا نہیں ہوئے بلکہ وعدے ہی رہ گئے ۔ آپ سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ 2014 ء کی انتخابی مہم میں مودی کو بی جے پی نے عہدہ وزارت عظمیٰ کے امیدوار کی حیثیت سے پیش کیا جس کے بعد انھوں نے عوام سے ڈھیر سارے وعدے کئے اور دعوے بھی کئے تاہم ان کے وعدوں اور دعوؤں پر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ دعوے جھوٹے تھے اور جو بھی وعدے کئے گئے وہ نامکمل رہے ۔
٭ مودی نے کہاکہ معیشت 2022 ء تک دگنی ہوکر 5 گھرب ڈالرس ہوجائے گی ۔ ( دی ہندو مورخہ 20 ستمبر 2014)
٭ مودی نے کہا کہ سال 2022 ء میں ہندوستان کے ہر گھر میں 24 گھنٹے برقی ہونی چاہئے اور ہوگی ۔ ( بزنس اسٹانڈرڈ کی اشاعت مورخہ 4 ستمبر 2015 ء میں پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے حوالے سے وزیراعظم کا یہ بیان منظرعام پر آیا تھا ) ۔
٭ وزیراعظم نریندر مودی نے کہاکہ 2022 ء تک ہر ہندوستانی کے پاس مکان ہوگا ۔ ( انڈین ایکسپریس نے اس بارے میں خبر شائع کی تھی ) ۔
٭ وزیراعظم نریندر مودی نے 2022 ء تک کسانوں کی آمدنی دگنی کرنے کا وعدہ کیا ۔ ( ہندو کی اشاعت مورخہ 20 جون 2018 )
٭ وزیراعظم نریندر مودی نے عمان میں ہندوستانی تارکین وطن سے خطاب میں کہا کہ سال 2022 ء تک ہندوستان میں بلٹ ٹرین حقیقت ہوگی ۔ ( انفو ڈاٹ کام ، فوٹو گراف ، گزشتہ سال مودی اور اُن کے جاپانی ہم منصب شنزو آبے ) ۔
جب میں مودی کے مذکورہ وعدوں پر غور کرتا ہوں اور اُن کاجائزہ لیتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے اور میں حیران ہوکر یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہوں کہ سال 2022 ء ہم سے پیچھے ہے یا ہم سے آگے ؟
جہاں تک حکومت کے کسی بھی وعدہ کا سوال ہے اسے پورا کرنے کیلئے پیسہ کی ضرورت ہوتی ہے اور پیسہ ہی سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے ۔ یہاں اس بات کاتذکرہ ضروری ہوگا کہ بجٹ 2025-26 ء میں بھی حکومت نے بہت سے وعدے کئے جن میں 7 اسکیمات ، 8 مشن اور 4 فنڈس شامل ہیں۔
ان میں سے کئی اسکیمات اور مشنس کیلئے کوئی رقم مختص نہیں کی گئی اور یہ بھی فطری امر ہے کہ بجٹ پر مباحث کے دوران عزت مآب وزیر فینانس سے بجٹ میں مختص کی گئی رقومات پر کئی سوالات کئے ہم نے سطور بالا میں بتایا ہے کہ بجٹ دراصل رقومات مختص کئے جانے اور اُن رقومات کو مختلف ترقیاتی پراجکٹس کیلئے خرچ کرنے کا عمل ہے ۔ اگر دیکھا جائے تو وزیرفینانس نے متناسب یا Proportions جیسے الفاظ میں پناہ لی ہے ۔ انھوں نے مطلق اعداد کو نظرانداز کیا ۔ مثال کے طورپر وزیرفینانس نے اس بات کا اعتراف کیا کہ انکم ٹیکس ادا کرنے والوں کیلئے انھوںنے 100,000 کروڑ روپئے کی جو راحت دی ہے اس میں وہ راحت بھی شامل ہے جو دولت مندوں کو دی گئی ( ایک کروڑ روپئے سے زائد سالانہ آمدنی ) ، بہت زیادہ دولت مندوں ( 100 کروڑ روپئے سے زائد سالانہ آمدنی کے حامل ) اور بہت زیادہ دولت مندوں سے بھی کہیں زیادہ متمول یعنی Super Rich ( 500 کروڑ روپئے سے زائد سالانہ آمدنی ) لیکن وزیرفینانس نے یہ بھی وضاحت کردی کہ انھوں نے دولت مندوں کو نسبتاً کم راحت دی ہے ۔ تاہم انھوں نے اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا کہ آخر سالانہ ایک کروڑ روپئے سے لیکر 500 کروڑ روپیوں سے زائد آمدنی کے حامل افراد کس طرح کسی بھی راحت کے مستحق کیوں ہیں ۔ ہر اقتصادی فیصلہ میں مساوات اور اخلاقیات کے عنصر شامل ہوتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مودی حکومت نے بہت پہلے ہی ان اُصولوں کو خیرباد کہہ دیا ہے، ان پر عمل کرنا ترک کردیا ہے ۔ اور عزت مآب وزیر فینانس بڑی فرض شناسی سے اپنے لیڈر کے نقش قدم پر چل رہی ہیں اور اس معاملہ میں بھی انھوں نے اپنے لیڈر کی تقلید کی اور خاص طورپر ٹیکس ریلیف دیتے ہوئے۔ آپ کو بتادیں کہ فینانس منسٹر سرمایہ مصارف میں کٹوتی کی وضاحت کرتے ہوئے اس طرح کی ٹکنیک کو اپنایا اور کہا کہ کٹوتی حقیقی ہے۔
آپ کو یہ بھی بتاتے ہیں کہ کیاپٹل اکاؤنٹ پر بجٹ تخمینہ برائے سال 2024-25 ، 11,11,111کروڑ روپئے تھا جبکہ نظرثانی تخمینہ برائے سال 2024-25 ، 10 ,18,429کروڑ بتایا گیا۔ اس طرح بجٹ تخمینہ برائے سال 2025-26 کی بات کریں تو یہ 11,21,090 کروڑ روئے بتایا گیا۔ دوسری جانب سرمایہ ماصرف کیلئے ریاستوں کے جو گرانٹس مقرر کی گئی وہ مالی سال 2024-25 میں 15,01,889 ، مالی سال 2024-25 (نظرثانی ، تخمینہ) کے تحت سرمایہ مصارف 13,18,320 کروڑ روپئے اور بجٹ برائے سال 2025-26 میں 15,48282 کروڑ روپئے مختص کئے گئے ۔ اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ سال 2024-25 میں مرکزی حکومت کے سرمایہ مصارف میں 92,682 کروڑ روپئے کی کٹوتی کی گئی اور ریاستوں کیلئے گرانٹس برائے سرمایہ مصارف میں 90887 کروڑ روپئے کی کٹوتی کی گئی۔ وزیر فینانس نے قومی مجموعی پیداوار کے تناسب کے طور پر کسی قسم کی کٹوتی کی تردید کی اور کہا کہ 2025-26 بجٹ تخمینہ زیادہ تھے۔ فرض کریں کہ 2025-26 کے تخمینہ درست تھے۔ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ 2025-26 میں بھی کٹوتی نہیں ہوگی ۔ کیا ریاستوں کو 2025-26 میں سرمایہ کے اثاثے بنانے کا وعدہ کیا گیا کہ گرانٹس میں کمی نہیں کی جائے گی ۔ جیسا کہ 2024-25 میں کیا گیا۔
اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر کٹوتی کہاں کمی گئی۔ کیاپٹل اور ریونیو مصارف دونوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اہم ترین شعبوں میں 2024-25 میں بڑی کٹوتیاں کی گئیں۔ مثال کے طور پر صحت کے شعبہ میں 1255 کروڑ روپئے تعلیمی شعبہ میں 11,584 کروڑ روپئے ، سماجی بہبود کے شعبہ میں 10,019 کروڑ روپئے ، زرعی شعبہ میں 1099 کروڑ روپئے ، دیہی ترقی کے شعبہ میں 75,133 کروڑ روپئے ، شہری ترقیات کے شعبہ میں 18,907 کروڑ روپئے اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے شعبہ میں 8283 کروڑ روپئے کی کٹوتی کی گئی ۔ مذکورہ اہمت رین شعبوں کے مصارف میں کٹوتی سے آخر سب سے زیادہ کون متاثر ہوئے، وزیر فینانس کے انکٹ ٹیکس راحت سے کس کو فائدہہوا، غریبوں کو تو نہیں۔ اگر وزیر فینانس مساوات اور اخلاقیات برقرار رکھنے کی خواہاں ہوں تو انہیں جی ایس ٹی شرحوں پر پٹرول اور ڈیزل پر عائد ٹیکسوں میں کمی کے ذریعہ ٹیکس راحت دینی چاہئے تھی۔