بخشو اور مظلوم اُونٹ

   

پیارے بچو! ایک ریگستانی علاقے میں چھوٹا سا گاؤں تھا۔یہ کہانی اس گاؤں کے ایک لڑکے کی ہے جس کانام ’’خدا بخش‘‘ تھا۔ سب گاؤں والے خدابخش کو ’’بخشو‘‘ کے نام سے پکارتے تھے۔ یہ گاؤں صحراکے ساتھ لگتا تھا جس کی وجہ سے گاؤں والوں کیلئے پینے کا پانی حاصل کرنا ایک بہت بڑا مسئلہ تھا۔ گاؤں کے لوگ کا زیادہ تر وقت پانی کی تلاش میں گزار دیتے تھے، کبھی سال میں ایک آدھ بار بارش ہو جاتی تھی اور پانی گڑھوں یا تالابوں کی شکل میں جمع ہو جاتا تو گاؤں والے وہاں سے پانی حاصل کرلیتے ۔گاؤں میں کئی مقامات پر سینکڑوں فٹ گہرے کنویں تھے۔ گاؤں والوں کو دور دور تک جاکر پانی لینے جانا پڑتا۔ان ساری مشکلات میں وہ اونٹوں کی مدد لیتے تھے کیونکہ صحرا میں ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرنا اُونٹوں کے بغیر ممکن نہیں ، اس لئے گاؤں کے اکثر لوگوں کے پاس اُونٹ تھے۔بخشو جس کے بارے میں آپ نے اوپر پڑھا ، اُس کے والد نے بھی دو اُونٹ پال رکھے تھے۔ یہ اُونٹ اُن کے مختصر سے خاندان کا حصہ بن چکے تھے۔بخشو کے والد کو ان اُونٹوں سے بہت پیارتھا۔ وہ اُن کو اپنے ہاتھوں سے غذا دیتے اور تو اور بخشو کی ماں بھی اُن کی دیکھ بھال کرتی تھی۔
مگر میرے عزیز بچو!بخشو کی عادت اپنے والدین سے بالکل مختلف تھی۔ اس کا دماغ ہر وقت شرارتوں میں لگا رہتا۔ وہ اکثر ان اُونٹوں کے چارہ میں مٹی ملا دیتا، کبھی اُن کے پینے کے پانی میں صابن گھول دیتا، بخشو کے والد اُونٹوں کو چَرانے کیلئے جنگل میں چھوڑتے اور بخشو کو اُن کی نگرانی پر لگا دیتے۔ یہ موقع بخشو کیلئے بہترین موقع ہوتا ۔ وہ اس موقع سے خوب فائدہ اُٹھاتا۔بخشو چھوٹے چھوٹے پتھر جمع کر کے کسی درخت پر چڑھ جاتا اور نشانہ بناکر مارتا ۔ بیچارے اُونٹ درد سے بلبلاتے اور ان کی تکلیف کو دیکھ کر بخشو بہت خوش ہوتا۔ بعض اوقات تو خارش کی وجہ سے اُونٹوں کے جسم پر کہیں کہیں زخم بھی آجاتے تھے، بخشو غلیل سے انہی زخموں پر نشانہ لگاتا، اُونٹ اُچھل کر اِدھراُدھر بھاگتے تو بخشو کو بڑا مزہ آتا۔
بخشو کے چچا نے جب اُسے ایسی حرکتیں کرتے ہوئے دیکھا تو اُس کو اس سب سے منع کیا اور یہ جانورتمہیں بد دُعائیں دیں گے ، اُن کی بددُعا لگ گئی تو تمہارے ساتھ بہت برا ہوگا، لیکن بخشو نے اس نصیحت پہ کوئی کان نہ دھرے اور اپنی ہرکتوں سے باز نہ آیا۔ ایک دن گاؤں کے ایک بزرگ نے بخشو کی یہ حرکت دیکھی تو اسے سمجھاتے ہوئے کہا: بخشو ! اُونٹ کی دشمنی سے ڈر، جب یہ جانور اپنا غصّہ نکالنے پر آتا ہے تو جان لے کر ہی چھوڑتا ہے۔
پیارے بچو! ایک اور خاص بات ،بخشو کے گاؤں میں کوئی مدرسہ نہیں تھا، اس کا سارا دن انہی شرارتوں میں گزر جاتا تھا، اس کے ہم عمر بھی اسی کی طرح جنگل میں اُونٹ چراتے تھے اور شرارتیں کرتے تھے، ایک دن مغرب کے وقت یہ لڑکے اُونٹ چرا کر گاؤں کو لَوٹ رہے تھے کہ اُن کے کانوں میں یہ بات پڑی کہ گاؤں کی مسجد میں نئے امام صاحب آئے ہیں، بچے صرف اُن کو دیکھنے کے شوق میں نماز پڑھنے چلے گئے، دیکھا تو ایک سفید عمامہ والے باوقار مولانا صاحب مصلیٰ پر تھے۔
مولانا صاحب نے بڑی اچھی آواز میں قرأت قرآن پاک کی، نمازیوں کو روحانی سکون محسوس ہوا۔ نماز کے بعد مولوی صاحب نے اعلان کیا کہ کل سے یہاں بچوں کیلئے صبح قرآن پاک کی تعلیم کا آغاز ہو گا، آپ تمام اپنے بچوں کو داخلہ دلوائیں تا کہ اُن کے بچے قرآن پاک کی تعلیم سے محروم نہ رہیں۔ عشاء کی نماز کے بعد اللہ کے پاک کلام کا درس دیا جائے گا۔ اگلے دن بخشو اور اُس کے کئی دوستوں کو امام صاحب کے پاس پڑھنے کیلئے بٹھا دیا گیا، ان کو تو الف ، با بھی نہیں آتا تھا ، امام صاحب نے اُنہیں نورانی قاعدہ شروع کروا دیا، رات کو مولوی صاحب درسِ قرآن میں اچھی اچھی باتیں بتاتے جس سے لوگوں کی اصلاح ہونے لگی، ایک دن مولوی صاحب نے بخشو اور اس کے دوستوں کو جنگل میں اُونٹوں کے ستاتے اور تکلیف دیتے ہوئے دیکھ لیا، اُس وقت تو کچھ نہیں کہا : مگر رات کو درسِ قرآن میں انہوں نے موقع کی مناسبت سے یہ واقعہ سنایا:ایک دن پیارے رسول ﷺنے پوچھا اس اونٹ کا مالک کون ہے؟ ایک انصاری صحابی نے آکر عرض کیا : یہ میرا اونٹ ہے!‘‘آپؐ نے فرمایا : ’’جس اللہ نے تمہیں اُس کا مالک بنایا ہے، تم اس اُونٹ کے بارے میں اللہ سے نہیں ڈرتے۔ یہ اونٹ تمہاری شکایت کررہا ہے، تم اس کو بھوکا رکھتے ہو، اس سے اس کی طاقت سے زیادہ کام لیتے ہو۔اس کے بعد وہ انصاری صحابی اُونٹ کا زیادہ خیال رکھنے لگے ، اس کو چارہ بھی زیادہ دیتے اور اس کو آرام کا موقع بھی دیتے۔ امام صاحب سے یہ باتیں سن کر بخشو اور اس کے دوستو کو بہت اثر ہوا، اس لئے کہ روزانہ اللہ اور اس کے پیارے رسولؐ کی باتیں سن سن کر اللہ اور رسولؐ کی محبت ان کے بھی دل میں بیٹھ گئی تھی۔ بخشو اور اس کے دوستوں نے اُس کے بعد اُونٹوں کوکبھی نہیں تنگ کیا بلکہ ان کے ساتھ رحم دلی کا سلوک کیا اور ان کے کھانے کا بھی خیال رکھا۔
تو پیارے دوستو! اپنے آپ سے وعدہ کر لو کہ آج کے بعد کسی جانور یا جاندار کو تکلیف نہیں دوگے اور اُن کا بھی اتنا ہی خیال رکھو گے جتنا اپنا رکھتے ہو۔