بدلہ اور انتقام کی سیاست

   

جانے کیا ہو پلک جھپکنے میں
زندگی جاگتی ہی رہتی ہے
بدلہ اور انتقام کی سیاست
اترپردیش کی سیاست ایسا لگتا ہے کہ مکمل فرقہ واریت کی سمت آگے بڑھ رہی ہے ۔ یہاں جمہوری اور دستوری اصولوںکو بالکل خاطر میں نہیںلایا جا رہا ہے اور ایسی روایات کو پروان چڑھایا جا رہا ہے جو ہندوستان کی سیاست اور ملک کی روایات کے یکسر مغائر ہے ۔ ہندوستان کی روایت رہی ہے کہ اختلاف رائے کا بھی بہت احترام کیا جاتا تھا اور اس کا پورا خیال بھی رکھا جاتا تھا تاہم اب آدتیہ ناتھ کی حکومت میں اترپردیش میں بدلہ اور انتقام کی سیاست شروع کردی گئی ہے اور یہ انتہائی افسوسناک اور مذموم عمل ہے ۔ حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ریاست کے چیف منسٹر خود بدلہ اور انتقام کا اعلان کرتے ہیں اور اس کی آڑ میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ سی اے اے اور این آرسی کے خلاف احتجاج کو کچلنے کیلئے جو طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے وہ ایک جمہوری ملک میںبالکل غیر جمہوری عمل ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ جو لوگ احتجاج کا حصہ ہی نہیں رہے انہیں بھی نوٹسیںجاری کرتے ہوئے ہرجانہ وصول کیا جا رہا ہے ۔ جمہوریت میں احتجاج ایک بنیادی حق ہے ۔ احتجاج میں تشدد نہیں ہونا چاہئے لیکن ہندوستان میں ایسے کئی احتجاج ہوئے ہیں جن میں تشدد بھی ہوا ہے ۔ سرکاری اور خانگی املاک کو بے تحاشہ نقصان پہونچایا گیا ہے لیکن کسی بھی حکومت نے عوام سے ہرجانہ اور نقصانات وصول نہیں کئے ۔ پھر اترپردیش کی جہاں تک بات ہے وہاں تو یہ بات ابھی ثابت بھی نہیں ہوئی ہے کہ احتجاج میں حصہ لینے والوں نے ہی تشدد کیا تھا ۔ یہ شبہات ظاہر کئے جار ہے ہیں کہ سنگھ اور بی جے پی کے کارکن خود احتجاج میں شامل ہوئے تھے اور انہوں نے ہی تشدد کا راستہ اختیار کیا تھا اور احتجاج میں شامل کارکنوں نے پولیس کو تشدد برپا کرنے والوں کو گرفتار کرنے کی دہائی بھی دی تھی لیکن یو پی پولیس بی جے پی کی خانگی فورس کے طور پر کام کر رہی ہے ۔ شائد یہی وجہ ہے کہ اصل تشدد برپا کرنے والوں کو گرفتار کرنے کی بجائے پرامن اور دستوری احتجاج کرنے والوں کو نشانہ بنایا گیا اور انہیں گرفتار کیا گیا اور ان پر مالی بوجھ عائد کرتے ہوئے اس جمہوری احتجاج کو کچلنے کا طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے ۔ یہ انتہائی غیر جمہوری عمل ہے ۔
چیف منسٹر آدتیہ ناتھ کا جو طریقہ کار طاقت کے استعمال کا ہے اس کی جمہوری عمل میں کوئی گنجائش نہیںہوسکتی ۔ خود بی جے پی لیڈر و مرکزی وزیر مختار عباس نقوی نے بھی یو پی پولیس کی جانب سے طاقت کے استعمال اور احتجاجیوں کو پاکستان جانے کے مشورے کو قبول نہیں کیا ہے اور ایسا مشورہ دینے والے عہدیدار کے خلاف کارروائی کی بھی بات کہی ہے ۔ اس حقیقت کے باوجود یو پی حکومت اور سارا انتظامیہ ایسے عہدیداروں کو بچانے کی کوشش کر رہا ہے اور کھلے عام بیان بازی کرتے ہوئے ان کی مدافعت کی جا رہی ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ اترپردیش کی بی جے پی حکومت نے ریاست میں اپنے طور پر ہندو راشٹر نافذ کرنے کی تیاری تیز کردی ہے اورا س پر عمل بھی شروع کردیا گیا ہے ۔ پولیس کی جانب سے این آر سی کے اندراج کا عمل بھی شروع کردیا گیا ہے اور مرکزی حکومت کے خلاف احتجاج بلند کرنے والوں کے خلاف طاقت کا استعمال کیا جا رہا ہے ۔ احتجاجیوں میں فسادیوں کو داخل کرکے تشدد برپا کیا جار ہا ہے ۔ احتجاج کو بدنام کرتے ہوئے احتجاج میںشامل کرنے والوں پر مالی بوجھ عائد کیا جا رہا ہے ۔ یہ در اصل احتجاج کو کچلنے کی ایک سامراجی کوشش ہے جو آدتیہ ناتھ حکومت نے اختیار کی ہوئی ہے ۔ ایسا کرتے ہوئے آدتیہ ناتھ حکومت جمہوری اصولوںکی دھجیاں اڑا رہی ہے اور ایسا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے جو خوف اور دہشت پر مبنی ہے ۔
عام عوام کو پولیس کی طاقت کے بل پر صدائے احتجاج بلند کرنے سے روکا جا رہا ہے اور سیاسی قائدین تک کو نہیں بخشا جا رہا ہے ۔ کانگریس جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی کے ساتھ جو رویہ یو پی حکومت نے اختیار کیا تھا اس کو دیکھتے ہوئے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ عام عوام پر کس طرح کے مظالم ڈھائے جا رہے ہونگے ۔ آدتیہ ناتھ کی جہاں تک بات ہے وہ طاقت کے استعمال ہی میں یقین رکھتے ہیں اور جمہوری اور دستوری اصولوں کی دھجیاں اڑاتے ہوئے انہیں کوئی عار محسوس نہیں ہوتا ۔ وہ ان ہی عوام کو طاقت کے استعمال سے کچل رہے ہیں جنہوں نے ان کی حکومت کے حق میں ووٹ دیا تھا ۔ یہ عمل انتہائی مذموم ہے اور ہندوستان جیسے دستوری اور جمہوری ملک میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہوسکتی ۔ حکومت کو یہ سمجھنے کی بھی ضرورت ہے کہ جو عوام آدتیہ ناتھ کو اقتدار دے سکتے ہیں وہ انہیں زوال کا شکار بھی کرسکتے ہیں۔