برطانیہ، جاپان اورجنوبی کوریا میں جھلسادینے والی گرمی

   

لندن، 2 ستمبر (یو این آئی) رواں سال برطانیہ، جاپان اور جنوبی کوریا نے اپنی تاریخ کا سب سے شدید اور جھلسا دینے والا موسمِ گرما دیکھا، جس نے درجہ حرارت کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیے ۔ ڈان نیوزمیں شائع خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ، جاپان اور جنوبی کوریا کے محکمہ موسمیات نے بتایا کہ ان ممالک نے رواں سال ریکارڈ کے مطابق سب سے زیادہ گرم موسمِ گرما برداشت کیا۔ محکمئہ موسمیات نے کہا کہ دنیا بھر میں درجہ حرارت حالیہ برسوں میں تیزی سے بڑھ رہا ہے کیونکہ انسانی عمل سے ہونے والی ماحولیاتی تبدیلی موسم کے نظام کو مزید غیر متوازن بنا رہی ہے ۔ برطانیہ کا جون تا اگست اوسط درجہ حرارت 16.1 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ ہوا، جو طویل المدتی اوسط سے 1.51 ڈگری زیادہ تھا اور 1884 سے اب تک کا سب سے بلند درجہ حرارت ثابت ہوا، 2018 کے ریکارڈ کو پیچھے چھوڑتے ہوئے ۔ برطانیہ کے موسمِ گرما میں چار ہیٹ ویوز آئیں، اوسط سے کم بارش ہوئی اور سورج مسلسل چمکتا رہا، یہ سب اس وقت ہوا جب ملک نے ایک صدی سے زائد عرصے کے بعد سب سے گرم بہار دیکھی۔ جاپان میٹیرولوجیکل ایجنسی نے بتایا کہ جاپان میں تین ماہ کے اسی عرصے میں اوسط درجہ حرارت معمول سے 2.36 ڈگری زیادہ رہا، جو 1898 سے ریکارڈ رکھنے کے بعد سب سے زیادہ ہے ، یہ مسلسل تیسرا سال تھا جب گرمی کے ریکارڈ ٹوٹے ۔ جاپان کی فائر اینڈ ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایجنسی کے مطابق اس سال کی شدید گرمی کے باعث یکم مئی سے 24 اگست کے درمیان جاپان بھر میں تقریباً 84 ہزار 521 افراد کو اسپتال میں داخل کرایا گیا۔ کوریا میٹیرولوجیکل ایڈمنسٹریشن نے کہا کہ جنوبی کوریا میں جون تا اگست اوسط درجہ حرارت 25.7 ڈگری ریکارڈ کیا گیا۔
، جو 1973 سے ڈیٹا جمع کرنے کے بعد سب سے زیادہ ہے ، اس سے قبل ریکارڈ 25.6 ڈگری تھا، جو گزشتہ سال بنا تھا۔ انتہائی گرم برطانیہ جو عموماً مرطوب اور سرمئی موسم کیلئے جانا جاتا ہے ، اس بار ریکارڈ گرمی سے دوچار رہا، یہ ایک ایسے ملک کیلئے بڑا چیلنج تھا جو اس طرح کے حالات کیلئے تیار نہیں ہے ۔ برطانوی گھروں کا ڈیزائن سردیوں میں گرمی روکنے کیلئے ہے اور عام گھروں یا عوامی مقامات جیسے لندن کے زیرِ زمین میٹرو سسٹم میں ایئر کنڈیشنر نایاب ہیں۔ لندن میں اگست کی ہیٹ ویو کے دوران 26 سالہ چینی طالب علم روئیڈی لیو نے کہا کہ یہاں گرم دن گزارنا مشکل ہے ، ہمارے ہاسٹل میں ایئر کنڈیشنر نہیں ہے ، بعض اوقات بہت زیادہ گرمی ہو جاتی ہے ، خاص طور پر پبلک ٹرانسپورٹ میں۔ انگلینڈ کے 14 میں سے پانچ خطوں میں قحط کا اعلان کیا گیا، جبکہ ماحولیاتی ایجنسی نے پانی کی کمی کو قومی سطح پر سنگین قرار دیا کیونکہ کسانوں کو کمزور فصلوں کا سامنا ہے۔
ٹوکیو میں 22 سالہ کاروباری خاتون میو فوجیتا نے بتایا کہ انہوں نے زیادہ تر وقت اندر گزارا تاکہ سخت گرمی سے بچ سکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جب وہ بچی تھیں تو گرمیوں میں باہر جا کر کھیلتے تھے ، کیا اب بچے باہر کھیل سکتے ہیں؟ ان کے خیال میں یہ ناممکن ہے ۔ ماہرین کے مطابق جاپان کے مشہور چیری کے درخت اب پہلے کھلنے لگے ہیں یا پھر بالکل نہیں کھلتے کیونکہ خزاں اور سردیاں اتنی ٹھنڈی نہیں رہیں کہ پھول آنے کا عمل شروع ہو سکے ۔ پچھلے سال ماؤنٹ فوجی کی مشہور برفانی چادر ریکارڈ طویل مدت تک غائب رہی اور نومبر کے اوائل تک نہیں دیکھی گئی، حالانکہ عام طور پر یہ اکتوبر کے اوائل میں ظاہر ہو جاتی ہے ۔ دوسری جانب جنوبی کوریا مشرقی ساحلی شہر گانگ نینگ میں طویل قحط سے نبرد آزما ہے ، دو لاکھ آبادی والے اس شہر میں قومی آفت کا اعلان کیا گیا ہے کیونکہ اوبونگ ذخیرے میں پانی کی سطح، جو شہر کا بنیادی ذریعہ آب ہے ، 15 فیصد سے بھی کم رہ گئی۔ خشک سالی کے باعث حکام نے پانی کی پابندیاں عائد کی ہیں، جن میں گھروں کے 75 فیصد پانی کے میٹر بند کرنا بھی شامل ہے ۔ کی میونگ یونیورسٹی کے موسمیات کے پروفیسر کم ہی ڈونگ نے کہا کہ یہ شدید گرمی عالمی حدت کے باعث آرکٹک کی ٹھنڈی ہوا کے کمزور ہونے سے منسلک ہے ۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ عالمی حدت کے ساتھ یہ کمزوری برقرار رہے گی، ہم اگلے سال بھی ایسے ہی موسمی پیٹرن کی توقع کرتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق انسانی سرگرمیوں سے ہونے والی ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے دنیا بھر میں ہیٹ ویوز زیادہ شدید اور بار بار آ رہی ہیں۔