پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)
بلقیس بانو کیس جس بدسلوکی کا مظاہرہ کیا گیا اس بارے میں جان کر سن کر اور پڑھ کر رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، وہ ایک مظلوم اور سوگوار ماں غمزدہ بہن اور اپنے ارکان خاندان بشمول ماں کے قتل پر غموں میں گھری بیٹی اور ایسی مظلوم بیوی جس کے ساتھ درندوں نے درندگی کی حد کردی اور اسے اجتماعی عصمت ریزی کا نشانہ بنایا اسے جو دکھ درد اور تکلیف پہنچی شاید اس کا احساس ببلقیس بانو کے سواء اور کوئی بہتر انداز میں نہیں کرسکتا۔ چند سادہ لیکن دل کو چھولینے والے الفاظ میں اس نے لاکھوں غریب شہریوں کی صورتحال کا خلاصہ کیا جو تعصب و جانبداری کے ساتھ ساتھ امتیازی سلوک کا شکار ہوئے اور جنہیں ناقابل بیان ظلم سے گذرنا پڑا۔ بلقیس بانو نے ان مظلوم شہریوں کی حالت زار کا بڑے ہی سادہ الفاظ میں یوں خلاصہ کیا ’’مجھے بلا خوف جینے کا میرا حق واپس دو‘‘
گھناو نا جرم: پارٹ 1 یا حصہ اول بلقیس بانو کی کہانی ہے جو کہنے اور سنانے بلکہ بار بار سنانے کی قابل ہے۔ سال 2002 میں ایک ٹرین کی بوگیوں میں آگ بھڑکنے کے بعد گجرات میں فرقہ وارانہ تشدد پھوٹ پڑا اس وقت بلقیس بانو کی عمر 21 سال تھی۔ ایک تین سالہ بیٹی کی ماں تھی اور دوبارہ حمل سے تھیں، بتایا جاتا ہے کہ اس وقت بلقیس بانو 5 ماہ کی حاملہ تھیں۔ تشدد میں اشرار کے ایک ہجوم نے حملہ کردیا اس حملے میں بلقیس بانو کے سات ارکان خاندان بشمول ان کی 3 سالہ شیرخوار بیٹی جاں بحق ہوگئی۔ شر پسندوں نے صرف اس کے ارکان خاندان کو انتہائی بیدردی سے قتل کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ درندگی کی تمام حدود کو پھلانگتے ہوئے بلقیس بانو کی اجتماعی عصمت ریزی کی۔ یہ اچھا ہوا کہ خوش قسمتی سے وہ مرنے سے بچ گئی اور پھر اپنی دردناک کہانی ساری دنیا کو سنائی۔ بلقیس بانو کے زانیوں اس پر جان لیوا حملہ کرنے والوں اور اس کے ارکان خاندان کے قاتلوں کے خلاف بمبئی کی ایک خصوصی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا اور پھر 21 جنوری 2018 کو اس مقدمہ کا فیصلہ بھی آگیا جس میں 11 ملزمین خاطی پائے گئے اور پھر خصوصی عدالت نے ان تمام ملزمین کو سزائے عمر قید سنائی، لیکن 15 اگست 2022 کو وزیر اعظم نریندر مودی نے جشن آزادی کے اپنے خطاب میں عوام سے کہا کہ ناری شکتی یا عورت کی قوت و طاقت پر فخر کرے ایک طرف مودی جی بڑے فخر کے ساتھ ناری شکتی کی بات کررہے تھے تو دوسری طرف اس وقت گجرات کی بی جے پی حکومت نے ان خاطیوں زانیوں اور قاتلوں کی مابقی سزاء معاف کرتے ہوئے انہیں رہا کردیا۔ ان خاطیوں نے کسی افسوس اور پچھتاوے کا اظہار تک نہیں کیا اور نہ ہی انہیں رات کی تاریکی میں رہا کیا گیا بلکہ دن دھاڑے ان تمام کی رہائی عمل میں آئی۔ ان کا شاندار استقبال کیا گیا، پھولوں کے ہار پہنائے گئے، یعنی گلپوشی کی گئی اور تواور اِن زانیوں اور قاتلوں کو مٹھائیاں بھی کھلائی گئیں۔ الغرض ان کا ایسے والہانہ انداز میں استقبال کیا گیا جیسے ان لوگوں نے ملک و قوم کے لئے بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہو۔ حد تو یہ ہیکہ خیرمقدم و استقبال کرنے والوں میں سے بعض نے ان کے پیر بھی چھوئے ان سے عقیدت کا اظہار کیا، ایک نے تو یہ کہہ کر ہلچل مچادی کہ یہ سنسکاری برہمن ہیں۔
سخت قانونی چارہ جوئی: حصہ دوم عدالتوں کے بارے میں ہے 8 جنوری 2024 کو ایک تاریخی فیصلہ صادر کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے درخواست گذاروں کے موقف کی تائید و حمایت کرتے ہوئے نہ صرف 11 مجرمین کو دی گئی معافی سے متعلق حکومت گجرات کے فیصلہ کو کالعدم قرار دیا بلکہ تمام رہا شدہ 11 مجرمین کو ہدایت دی کہ وہ اندرون دو ہفتے جیل حکام کے یہاں خود سپردگی اختیار کریں اور مابقی سزا کاٹیں، یہ کالم مجرمین کو حکومت گجرات کی جانب سے دی گئی غیر منصفانہ راحت کے بارے میں نہیں ہے بلکہ یہ کالم قانون کی حکمرانی، قانون پر عمل آوری اور حقوق انسانی کے بارے میں اٹھنے والے تمام وسیع تر سوالات کے بارے میں ہے۔
عدالت نے جو کچھ کہا (میں یہاں اس کالم سے متعلق فیصلہ کے حصہ کا حوالہ دیتا ہوں)
٭ ایک خاتون چاہے وہ کتنی ہی اعلیٰ ہو یا ادنی (مطلب امیر ہو یا غریب، تعلیم یافتہ ہو یا غیر تعلیم یافتہ) عزت و احترام کی مستحق ہوتی ہے۔٭ تحقیقاتی ایجنسی نے یہ کہتے ہوئے کیس کی تحقیقات بند کرنے Closer Report پیش کی تھی کہ ملزمین کا پتہ نہیں چلایا جاسکا اور حیرت کی بات یہ ہیکہ جوڈیشیل مجسٹریٹ نے اس رپورٹ کو قبول بھی کرلیا۔ ٭ عدالت نے کیس کو دوبارہ کھولنے اور تحقیقات سی بی آئی کو تفویض کرنے کی ہدایت دی … اور عظیم تر ممبئی کی خصوصی عدالت کے جج نے 11 ملزمین کو قصوروار (خاطی) پایا۔٭ 4 مئی 2017 کے فیصلہ تک … بمبئی ہائی کورٹ نے 11 ملزمین کو خاطی قرار دیئے جانے کو برقرار رکھا۔٭ مدعی علیہ نمبر 3۔ (چیلنج کیا گیا) اس کی قبل از وقت رہائی سے متعلق درخواست پر غور نہ کرنے پر گجرات ہائی کورٹ نے مورخہ 17-07-2019 کے حکم کے ذریعہ درخواست گذار کو ریاست مہاراشٹرا سے رجوع کرنے کی ہدایت دی۔٭ (31 مئی 2022 کو سپریم کورٹ کے فیصلہ میں) یہاں تک کہ کسی چیلنج کی غیر موجودگی میں گجرات ہائی کورٹ کی جانب سے 17 جولائی 2019 کے حکم کو ایک طرف رکھ دیا گیا اور ریاست کو ہدایت دی گئی۔ ریاست گجرات اپنی پالیسی مورخہ 9 جولائی 1992 ء کی مدت میں قبل از وقت رہائی کے لئے درخواست گذار (رادھے شیام شاہ) کی درخواست پر غور کرے گی۔ ریاست گجرات کی جیل اڈوائزری کمیٹی کے ایک اجلاس میں جو 26 مئی 2022 کو منعقد ہوا اور تمام ارکان نے قبل از وقت رہائی کے لئے رائے دی۔ ٭ مورخہ 11 جولائی 2022 کو ایک مکتوب کے ذریعہ وزارت داخلہ نے تمام 11 مجرمین کی قبل از وقت رہائی کے لئے اپنی منظوری سے مطلع یا آگاہ کیا۔ اس سے پہلے سیشن جج گودھرا نے پالیسی مورخہ 09-07-1992 ء کا اطلاق کیا اور قبل از وقت رہائی سے متعلق اثبات میں رائے دی۔ ٭ لیکن ایک مکتوب مورخہ 11-07-2022 کے ذریعہ وزارت امور داخلہ نے تمام 11 حاطیوں کی قبل از وقت رہائی کے لئے اپنی منظوری سے آگاہ کیا۔
8 جنوری 2023 کو دیئے گئے اپنے فیصلہ میں سپریم کورٹ نے پایا کہ ان مجرمین کی قبل از وقت رہائی سے متعلق عمل آوری سپریم کورٹ کی جانب سے 13 مئی 2022 کو دیا گیا فیصلہ حقائق کو دبانے، دھوکہ دہی یا فراڈ سے حاصل کیا گیا تھا اور اب وہ فیصلہ بھی کالعدم ہے۔ اس مقدمہ میں سپریم کورٹ کا فیصلہ تاریخی رہا۔ (لائیو لا کے مطابق جسٹس بی وی ناگ رتنا اور اجول بھوئیاں پر مشتمل ڈیویژن بنچ نے اپنے فیصلہ میں کہا کہ گجرات حکومت نے مجرمین کے ساتھ ملی بھگت سے کام کیا اور مزید کہا کہ اسی خدشہ کے باعث اس عدالت کو پہلے مقدمہ کو گجرات سے باہر مہاراشٹرا منتقل کرنا پڑا) اس مقدمہ میں عدالت نے جو ریمارکس کئے ہیں وہ مرکز اور ریاست گجرات دونوں حکومتوں کے خلاف جاتے ہیں۔ عدالت کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر محرم اپنی سزاء کے نتائج سے بچ سکتے ہیں تو معاشرہ میں امن و امان محض ایک خیال بن کر رہ جائے گا۔
کڑوا سچ : حصہ سوم ہندوستانیوں کی تشویش اور فکرمندی ہے۔ بلقیس بانو کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا اس سے یہ سبق ملتے ہیں کہ شہریوں کے وقار، ان کی آزادی، خلوت (پرائیویسی) اور انسانی حقوق کو سزاؤں میں معافی کے ذریعہ پامال کیا گیا لیکن ہمارے ملک اور معاشرہ میں ایسے تدر و بیاک پولیس عہدیدار اور باہمت و حوصلہ مند ججس بھی ہیں جو خاطیوں کو سزا دیں گے۔ ریاست جرائم کے مرتکبین (مجرمین) کے ساتھ ملی بھگت کرسکتی ہے ان کی مدد کرسکتی ہے انہیں وہ آزادی دے سکتی ہے جس کے وہ مستحق نہیں۔ عدالتوں کو دھوکہ دیا جاسکتا ہے، ججس غلطی کرسکتے ہیں لیکن عوامی عزم و حوصلہ دوسرے ججس کو غلطیوں کے ازالہ کی طرف راغب کرسکتا ہے۔