ہر ماں باپ کو یہ جان لینا چاہئے کہ بچپن میں جو اچھی بری عادتیں بچوں میں پختہ ہوجاتی ہیں وہ عمر بھر نہیں چھوٹتیں ، اس لئے ماں باپ پر لازم ہے کہ وہ بچوں کو بچپن ہی میں اچھی عادتوں کا عادی بنائیں اور بری باتوں سے بچائیں بعض لوگ یہ کہہ کر کہ ’’ ابھی بچہ ہے بڑا ہوگا تو ٹھیک ہوجائے گا ‘‘ بچوں کو شرارتوں اور بری باتوں سے نہیں روکتے وہ لوگ درحقیقت بچوں کا مستقبل تاریک کرتے ہیں اور بعد میں پچھتاتے ہیں لیکن ’’ اب پچھتانے سے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت ‘‘ اس لئے ضرورت ہے کہ بچپن ہی میں بچوں کی کوئی شرارت یا بری عادت دیکھیں تو اس پر روک ٹوک کرتے رہیں بلکہ سختی کے ساتھ نمٹیں اور بری باتوں کی برائیوں کو بچوں کے سامنے ظاہر کر کے بچوں کو ان خراب عادتوں سے نفرت دلاتے رہیں خوبیوں اور اچھی باتوں پر شاباش دے کر ان کا حوصلہ بڑھائیں ۔ بچوں کی ہر ضد پوری کرنا بھی حماقت ہے کہ اس سے بچوں کا مزاج بگڑتا ہے اور وہ ضدی ہوجاتے ہیں اور یہ عادت عمر بھر نہیں چھوٹتی ۔ بچوں کے ہاتھوں سے غربا کو کھانا کھلوایا کریں ، اسی طرح کھانے پینے کی چیزیں بچوں کے ہاتھ سے اس کے بھائی بہنوں کو یا دوسرے بچوں کو دلوایا کریں تاکہ وہ سخاوت کے عادی ہوں اور خود غرضی اور نفس پروری کی عادت پیدا نہ ہو ۔ چیخ کر بولنے اور جواب دینے سے ہمیشہ بچوں کو رکیں اور بچیوں کو تو خاص طور پر ، ورنہ بڑے ہونے کے بعد بھی یہی عادت رہے گی اور میکے اور سسرال دونوں جگہ سب کی نظروں میں منہ پھٹ اور بدتمیز کہلائیں گی ۔ اگر بچہ کہیں سے کسی کی کوئی چیز اُٹھالائے چاہے اس کی کوئی اہمیت نہ ہو ۔ اس پر سختی سے ایکشن لیں ، سب گھر والے خفا ہوجائیں اور اسے مجبور کریں کہ فوراً اس چیز کو جہاں سے لایا ہے اسی جگہ رکھ آئے ۔ایسی کتابیں بچوں کو پڑھنے کیلئے دیں جو اخلاق سوز نہ ہوں ، لڑکوں اور لڑکیوں کو ضرور کوئی ایسا ہنر سکھائیں جو بوقت ضرورت ان کے کام آئے ۔ بچوں کو بچپن ہی سے اس بات کی عادت ڈالیں کہ وہ اپنا کام اپنے ہاتھ سے کریں اپنا بستر صاف کریں اپنے کپڑوں اور چیزوں کو خود سنبھال کر رکھیں بچوں اور بچیوں کو کھانے پینے اور لوگوں سے ملنے اور محفلوں میں اٹھنے بیٹھنے کا طریقہ و سلیقہ سکھانا ماں باپ کیلئے بہت ضروری ہے ۔ بچے جب بولنے کے قابل ہوجائیں تو ماں کو چاہئے کہ انہیں بار بار اللہ عزوجل و رسولﷺ کا نام سنائے ، ان کے سامنے کلمہ پڑھے یہاں تک کہ وہ کلمہ پڑھنا سیکھ جائیں ۔ ان کو قرآن شریف اور دینیات کی تعلیم دلائیں ۔ بچوں کو اسلامی آداب و اخلاق اور دین مذہب کی باتیں بتائیں اچھی باتوں کی رغبت اور بری باتوں سے نفرت دلائیں ، تعلیم و تربیت پر خاص طور پر توجہ دیں کیونکہ بچے سادہ ورق کے مانند ہوتے ہیں سادہ کاغذ پر جو نقش و نگار بنائے جائیں وہ بن جاتے ہیں ۔ بچوں کا سب سے پہلا مدرسہ ماں کی گود ہے اس لئے ماں کی تعلیم و تربیت کا بچوں پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے لہذا ہر ماں کا فرض منصبی ہے کہ بچوں کو اسلامی تہذیب و تمدن کے سانچے میں ڈھال کر ان کی بہترین تربیت کرے ۔
٭٭٭٭٭