ادیتی بہادری
افغانستان ۔ پاکستان سرحدوں پر دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان حالیہ جھڑپوں اور خاص طورپر پاکستان کے حملوں اور طالبان کے جوابی حملوں کے بارے میں یہ کہا جارہا ہے کہ ان دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان کشیدگی کی سب سے اہم وجہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی وہ خواہش ہے جس کے ذریعہ وہ چاہتے ہیں کہ افغان فوجی اڈہ (بگرام فضائی اڈوہ ) کو امریکہ دوبارہ اپنے کنٹرول میں لے ۔
صدر ٹرمپ نے واضح طورپر ایک نہیں بلکہ متعدد مرتبہ کہا ہے کہ وہ بگرام فضائی اڈہ کو امریکی کنٹرول میں لینا چاہتے ہیں ۔ انھوں نے طالبان حکومت کو یہ بھی انتباہ دیاکہ اگر بگرام فضائی اڈہ امریکہ کے کنٹرول میں نہیں دیا جاتا ہے تو طالبان حکومت کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا ۔ جواب میں طالبان نے بھی صاف صاف کہدیا کہ افغانستان میں کسی بھی بیرونی طاقت کو یا اس کی فوج کو کوئی جگہ ( اڈہ ) نہیں دیا جائے گا ۔
آپ سب جانتے ہیں کہ پاکستان ۔ افغانستان جھڑپوں باالفاظ دیگر حملوں کا آغاز اُس وقت ہوا جب افغانستان کے وزیر خارجہ ملا امیر خاں متقی ہندوستان کے دورے پر تھے لیکن اُن کے دورہ سے چند دن قبل ہی ٹرمپ نے اس بات کا انتباہ دیا تھا کہ اگر طالبان بگرام فضائی اڈوہ امریکہ کے حوالے کرنے سے انکار کریں گے تو پھر بہت کچھ برا ہوسکتا ہے ۔ اس ضمن میں ہمیں اس بات پر بھی غور کرنا ہوگا کہ حالیہ عرصہ کے دوران امریکی صدر ٹرمپ پاکستان پر بہت زیادہ ہی مہربان ہوگئے ہیں خاص طورپر پاکستانی فوجی سربراہ فیلڈ مارشل عاصم منیر کی وہ بار بار تعریفیں کرتے جارہے ہیں ۔
پاکستان نے امریکہ کے ساتھ کرپٹو جیسی معاملتوں کا بھی اعلان کیا ہے ۔ یہاں تک کہ نادر و نایاب معدنی حقوق سے متعلق معاہدہ پر بھی رضامندی ظاہر کی ۔ ویسے بھی امریکہ ایک تیر سے کئی شکار کررہا ہے ۔ وہ پچاس سے زائد مرتبہ یہ دعویٰ کرچکے ہیں کہ انھوں نے ہی ہندوستان ۔ پاکستان پر دباؤ ڈالکر دونوں جوہری طاقتوں کی جنگ رکوائی ورنہ یہ جنگ تباہ کن ثابت ہوتی اور جس میں لاکھوں انسانی جانوں کااتلاف ہوتا ۔ اگرچہ پاکستان نے جنگ رکوانے کا سہرا ٹرمپ کے سر باندھ کر اُنھیں امن کا نوبل انعام دینے کی سفارش تک کردی ۔ ہندوستان نے جنگ بندی کا کریڈٹ ٹرمپ کو دینے سے گریز کیا ) ۔
یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ بگرام فضائی اڈہ دنیا کے چند بڑے فضائی اڈوں میں سے ایک ہے جو افغان دارالحکومت کابل سے 60 کیلومیٹر کے فاصلہ پر صوبہ پروان میں واقع ہے ۔ ابتداء میں 1950 ء کے دہے میں سویت یونین نے اس کی تعمیر عمل میں لائی تھی لیکن 9/11 حملوں کے بعد جب طالبان حکومت کو بیدخل کیا گیا اس وقت امریکہ نے بگرام فضائی اڈہ کو اپنے قبضہ میں لے لیا اور اسے وسعت بھی دی جو فی الوقت بہت ہی غیرمعمولی رن ویز کا حامل ہے ۔ ان رن ویز کو امریکہ نے بھاری کنکریٹ اور اسٹیل سے تعمیر کیا۔ وہاں کے مستقل بیارکس بگرام فضائی اڈہ کی جغرافیائی لحاظ سے اہمیت کو واضح کرتے ہیں۔
افغانستان میں امریکہ کی 20 سالہ طویل جنگ کے دوران یہ امریکی فوج کا سب سے بڑا فوجی مرکز رہا ۔اگر امریکہ اس فضائی اڈہ کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے تو لاجسٹک سپورٹ اور سپلائی چین کو یقینی بنانے کیلئے اسے پاکستان کی ضرورت ہوگی ۔ اس سے پاکستان کو اچھی خاصی آمدنی بھی حاصل ہوگی ۔ بگرام فضائی اڈہ پر امریکی فورسس کی موجودگی سے طالبان پر قابو رکھنے میں امریکہ کو مدد ملے گی ۔پاکستان کے نقطہ نظر کو دیکھا جائے توطالبان بدقماش ہوچکے ہیں۔ دوسری جانب ہندوستان جو ماضی میں طالبان کا کٹر مخالف تھا اب ان ہی طالبان کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کررہا ہے ۔ اب ہندوستان نے کابل میں موجود اپنے ٹکنیکل مشن کو پوری طرح سفارتخانہ کا درجہ دے رہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان طالبان اور افغانستان کو قابو میں رکھنے کی خاطر خصوصی حکمت عملی اپناکر سعودی عرب کے ساتھ دفاعی معاہدہ کیا ہے لیکن افغانستان ۔ پاکستان سرحدی جھڑپوں کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس پر سعودی عرب ۔ پاکستان دفاعی معاہدہ کا کوئی اثر مرتب نہیں ہوا ۔
آپ کو بتادیں کہ امریکہ کے ان حامیوں کی کثیرتعداد افغانستان کے باہر مقیم ہے جن میں تاجک فوجی مزاحمتی محاذ سرفہرست ہے ۔ نیشنل ریزسٹنٹ فرنٹ کی سیاسی بیورو کے سربراہ عبداللہ خلیجانی کا ایک مضمون حال ہی میں منظرعام پر آیا جس میں انھوں نے لکھا کہ اگر ٹرمپ حقیقت میں بگرام فضائی اڈہ کو دوبارہ امریکی قبضہ میں لینا چاہتے ہیں تو وہ طالبان کے خلاف مزاحمتی گروپوں کو مضبوط بناسکتے ہیں جو ان سابق افغانی سپاہیوں نے بنائے تھے جنھوں نے امریکی اور اس کی اتحادی افواج کے ساتھ شانہ بشانہ طالبان کے خلاف لڑا تھا اور امریکی فورسس کے انخلاء کے بعد بھی طالبان کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھی ۔
تاریخ دہرائی جاسکتی ہے : طالبان کی مخالف قومی فرنٹ قریبی تاجکستان میں قائم اپنے دفتر کے ذریعہ افغانستان کی سرکاری طورپر نمائندگی کررہی ہے جہاں 1990 ء کے دہے میں 9/11 اور دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع ہونے سے پہلے ہندوستان ، ایران اور روس نے کبھی قومی فرنٹ تک اسلحہ اور دوسری فوجی رسدات پہنچائی تھی ۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ تاجکستان کی اس روٹ کو بھی ذہن میں رکھا گیا ہے اور طالبان کے مخالفین کے ساتھ کوآرڈنیشن کے ذریعہ بگرام کو قبضہ میں لینے کی تمام تیاریاں بھی کرلی گئیں لیکن ان پر کب عمل ہوگا یہ دیکھا جانا باقی ہے تاہم بگرام میں امریکی واپسی اس مرتبہ بہت مشکل ہوگی ۔ طالبان نے پہلے ہی امریکی مطالبہ اور دھمکی دونوں کو مسترد کردیا ۔ اسے پہلے کی طرح دوسرے ملکوں کی تائید نہیں ملے گی ۔