رام پنیانی
راہول گاندھی کی ’’بھارت جوڑو یاترا‘‘ کو زبردست کامیابی مل رہی ہے اور اس یاترا کے نتیجہ میں ہندوستانی معاشرہ کو درپیش سلگتے مسائل منظر عام پر آرہے ہیں جبکہ اس یاترا کو جو نام دیا گیا ہے وہ گزشتہ تین دہوں (30 برسوں) سے مذہبی خطوط پر کی جارہی سماجی تقسیم سے نمٹنے ، اس کے خلاف مقابلہ کرنے کا ایک اشارہ ہے۔ ایک بات تو ضرور ہے کہ اس یاترا کے ذریعہ راہول گاندھی نے ملک کو درپیش اہم مسائل اٹھائے ہیں۔ لوگوں کو اُن مسائل سے بہتر انداز میں واقف کروایا ہے۔ مثال کے طور پر کسانوں اور نوجوانوں کے مسائل، اشیائے ضروریہ کی بڑھتی قیمتوں، آدی واسیوں (قبائلیوں) کی بگڑتی حالت خواتین میں پائے جانے والے احساس عدم تحفظ اور دوسرے مسائل کو اس مہم کے دوران اچھی طرح لوگوں تک پہنچایا جارہا ہے۔ یہ جذبہ نہ صرف یاترا میں شامل لیڈران کے بیانات میں دیکھا جارہا ہے بلکہ ان لوگوں میں بھی بخوبی دیکھا جارہا ہے جو یاترا میں شامل ہوکر غیرمعمولی جوش و خروش کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ وہ اس یاترا کو ہندوستان کیلئے ایک اُمید کی نئی کرن کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ جہاں تک ہندوستانی معاشرہ کا سوال ہے، ہندوستانی معاشرہ نے عوام کو مذہب کے نام پر تقسیم کرنے، جذباتی مسائل کو اُٹھائے جانے اور نہ صرف تشدد کو بڑھاوا دیئے جانے کے واقعات کا مشاہدہ کیا بلکہ عام شہریوں کی حالت بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔ معاشرہ کے غریب کمزور طبقات کے ساتھ ساتھ متوسط طبقہ کی بھی حالت بہت خراب ہے۔ ان پر مہنگائی، بیروزگاری، تشدد، ناقص حکمرانی اور پالیسیوں کا بوجھ بڑھتا ہی جارہا ہے جبکہ قومی میڈیا جسے نام نہاد ’’گودی میڈیا‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ وہ ملک کو درپیش ان سنگین مسائل کو بری طرح نظرانداز کررہا ہے لیکن اچھا ہوا کہ سوشیل میڈیا، چھوٹے موٹے ٹی وی چیانلس اور یوٹیوبرس ہمارے معاشرہ کے ماحولیاتی نظام کو تبدیل کررہے ہیں جو فرقہ پرستی کی آلودگی سے بہت زیادہ آلودہ ہوگیا تھا۔ اب لوگوں میں پایا جانے والا احساس مایوسی، احساس اُمید میں تبدیل ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ انتخابی سطح پر دیکھا جائے تو بی جے پی نے ہندوستانی سیاسی نظام میں ناقابل تسخیر مقام حاصل کرلیا ہے اور اس نے آر ایس ایس اور اس کی قبیل کی تنظیموں کے تیار کردہ ہندو قوم پرستی کو اپنایا ہوا ہے۔ بی جے پی نے روپئے پیسے اور طاقت کے ساتھ ساتھ مرکزی ایجنسیوں خاص کر انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) کو استعمال کرتے ہوئے موقع پرست سیاست دانوں کو اپنے دائرہ میں شامل کرکے اپنے سیاسی اثر و رسوخ میں بہت زیادہ اضافہ کرلیا ہے۔ اب ایسا لگتا ہے کہ یہ پارٹی ناقابل تسخیر ہوگئی ہے۔ بی جے پی ایسی پارٹی بن گئی ہے جسے لاکھوں کروڑوں سوئم سیوکوں اور پرچارکوں سے لے کر سخت مذہبیت کو اپناکر اس نے خود کو مضبوط کرلیا ہے۔ ایک نکتہ پر وہ اس مقام تک آگئی کہ اس کے لیڈر امیت شاہ نے یہ دعویٰ کردیا کہ بی جے پی آئندہ 50 برسوں تک حکومت کرے گی۔
کانگریس دوسری بڑی قومی سیاسی جماعت ہے جو فی الوقت ایک کمزور مشین بن کر رہ گئی ہے جس کے کئی قائدین جو سکیولرازم اور دستور ہند کے اقدار پر یقین کامل نہیں رکھتے، اسے (کانگریس کو) خیرباد کہنے لگے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ ان کیلئے دوسری پارٹیوں میں سیاسی مواقع و امکانات زیادہ ہیں۔ خاص طور پر بی جے پی جس نے انہیں زبردست موقعوں اور ثمرات کی پیشکش کی ہے، تاہم جیسے جیسے ’’بھارت جوڑو یاترا‘‘ آگے بڑھتی جارہی ہے، کانگریس اور راہول گاندھی کی شبیہ بہتر ہوتی جارہی ہے۔ راہول گاندھی جو اگنی پرکشا یعنی کڑی آزمائشوں سے گذر رہے تھے، اب کامیاب و کامران لیڈر کے طور پر ابھر رہے ہیں۔ ایک ایسے راست باز اور حساس لیڈر کے طور پر جو اس ویژن کے تئیں پابند ِ عہد ہے جو ہمارے ملک کے مجاہدین آزادی نے دیا تھا۔ بھارت جوڑو یاترا سے ایسا لگتا ہے کہ راہول گاندھی مجاہدین آزادی کے ویژن کو لے کر آگے بڑھ رہی ہے۔ کانگریس جو نظریاتی اور تنظیمی زوال سے گذر رہی تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ بھارت جوڑو یاترا سے اُسے ایک نئی زندگی ملی ہے۔ اس میں ایک نیا جوش و ولولہ پیدا ہوا ہے اور اسے ایک نئی توانائی حاصل ہوئی ہے اور اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کانگریس کسی بھی نئی صورتحال کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہے، تاہم اب سوال یہ ہے کہ آیا کانگریس پارٹی قومی زندگی میں اپنا مقام و مرتبہ بحال کرنے کیلئے چیلنجس کا سامنا کرسکتی ہے؟ قومی زندگی میں کانگریس ایک منفرد مقام رکھتی ہے جو نہ صرف تحریک آزادی کے دوران غیرمتزلزل رہا بلکہ ملک کی آزادی کے بعد بھی وہ اپنے مقام و مرتبہ کا تحفظ کرنے میں وہ کامیاب رہی۔
وہ مہاتما گاندھی ہی تھے جنہوں نے تحریک آزادی میں کسانوں اور سماج کے دوسرے طبقات کو شامل کیا۔ انہوں نے بڑی کامیابی کے ساتھ بڑے پیمانے پر خواتین کے جمہوری عزائم کو جلا بخشی، ہمارے ملک کو جہاں انگریزوں کی غلامی سے آزادی ملی، وہیں کئی داخلی خامیاں اور خارجی طاقتیں بھی تھیں جنہوں نے ہماری قومی پالیسی پر اثرانداز ہونا شروع کیا اور ملک کی اس قدیم جماعت کانگریس میں لوگ عوامی خدمت کیلئے نہیں بلکہ اقتدار کیلئے داخل ہوئے ۔ اس میں شمولیت اختیار کی۔ یہ یاترا ایسی ہے جس کے ذریعہ پارٹی قیادت عوام کے مسائل کو سمجھ سکتی ہے، نہ کہ صرف کارپوریٹ اداروں یا صنعت کاروں کے مفادات کی تکمیل کرتی ہے کیونکہ صنعتی گھرانوں کو ہمیشہ اقتدار کے مراکز تک رسائی حاصل رہتی ہے۔ موجودہ یاترا تھرڈ کلاس کمپارٹمنٹ میں مہاتما گاندھی کے سفر کی یادوں کو تازہ کرتی ہے جس کے نتیجہ میں گاندھی کو ملک کی نبض ٹٹولنے میں مدد ملی تھی۔ کیا موجودہ حالات میں راہول گاندھی کی ’’بھارت جوڑو یاترا‘‘ ہندوستان کی نبض ٹٹولنے میں کامیاب رہے گی؟ یہ سب سے بڑا سوال ہے اور ہاں اس یاترا میں اقلیتوں؍ ذات؍ صنف کی شمولیت کی بہت ضرورت ہے کیونکہ ہمارے ملک کے لوگوں کی اکثریت مشمولیاتی سماج اور مساوات کی خواہاں ہے۔ ایسے بہت لوگ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ انہیں یاترا سے دور رکھا گیا ہے۔ ان کی نمائندگی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ ہندوستان کی آزادی، مساوات اور اخوت کی راہ پر واپسی کیلئے ’’بھارت جوڑو یاترا‘‘ اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔