بھاگوت جی کا مسجد اور مدرسہ دورہ ایک بہت سوچی سمجھی پہل تھی

   

ظفر آغا
آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت مسجد میں! کیا آپ اس خبر پر کچھ دن قبل یقین کر سکتے تھے۔ ظاہر ہے کہ نہیں۔ یہی کہتے کہ بھائی کو مسجدیں گروانے میں تو دلچسپی ہو سکتی ہے، لیکن مسجد جانے سے اس کا کیا واسطہ! لیکن بذات خود موہن بھاگوت نے یہ بھرم توڑ دیا۔ پچھلے ہفتے وہ بہ نفس نفیس اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ دہلی کی ایک مسجد تشریف لے گئے۔ وہاں کے پیش امام کے ساتھ تقریباً ایک گھنٹے وقت گزارا۔ صرف یہی نہیں بلکہ اسی روز وہ دہلی کے ایک مدرسہ بھی گئے۔ ظاہر ہے کہ پہلے لوگ حیرت زدہ رہ گئے۔ پھر ایسے حالات میں جو ہوتا ہے وہی شروع ہو گیا۔ فوراً چہ می گوئیاں ہونے لگیں اور اٹکلیں لگائی جانے لگیں کہ کیا آر ایس ایس مسلمانوں کے تئیں اپنی پالیسی میں بنیادی تبدیلی کر رہا ہے!
بہرکیف، بھاگوت جی کی مسجد-مدرسہ ٹرپ ایک بہت سوچی سمجھی پہل تھی۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ سنگھ نے ان کی اس پہل کی خوب میڈیا پبلسٹی بھی کروائی۔ مسجد کے دورے سے قبل پہلے یہ خبر لیک ہوئی کہ آر ایس ایس سربراہ کی دہلی میں ہی پانچ مسلم شہریوں سے ملاقات ہوئی۔ وہ پانچ افراد تھے سابق الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی، سابق دہلی لیفٹیننٹ گورنر نجیب جنگ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ضمیر الدین شاہ، اردو صحافی شاہد صدیقی اور تاجر شیروانی۔ بس اس خبر کے لیک ہوتے ہی بھاگوت جی مسجد اور پھر مدرسہ پہنچ گئے۔
حقیقت یہ ہیکہ سنگھ نہ بدلی ہے، اور نہ ہی بدلے گی۔ اگر یہ کٹر ہندو تنظیم بدل جاتی ہے تو پھر اس کے وجود کی ضرورت ہی کیا ہے۔ بدلی ہوئی سنگھ ہندو راشٹر کا ایجنڈا کیسے پورا کر سکتی ہے۔ سنگھ میں مسلم منافرت اس قدر کوٹ کوٹ کر بھری ہے کہ اگر بھاگوت مسلمانوں کے تئیں نرم پڑتے ہیں تو خود آر ایس ایس میں ان کے خلاف بغاوت پھوٹ سکتی ہے۔ ایسا نہیں کہ بھاگوت کو ان باتوں کا اندازہ نہیں ہے۔ لیکن پھربھی وہ مسجد و مدرسہ گئے۔ یہ ایک بہت اہم پہل تھی اور یہ یوں ہی نہیں کی گئی۔ اس کے کچھ نہ کچھ سیاسی مقاصد ضرور رہے ہوں گے۔
دراصل سنگھ اور بی جے پی دو باتوں سے فکرمند ہے۔ سب سے پہلے تو پچھلے ماہ بی جے پی کی لیڈر نوپور شرما نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلق سے جو اہانت آمیز بیان دیا اس سے تمام اسلامی ممالک میں ہندوستان کے خلاف زبردست رد عمل ہوا۔ اسلامی ممالک میں اس سلسلے میں جو رد عمل ہوا اس سے نہ صرف ہندوستان کے وقار کو دھکا لگا بلکہ اس سے ہندوستانی معیشت پر منفی اثرات کا خدشہ بھی پیدا ہو گیا۔ وہ لاکھوں ہندوستانی جو عرب ممالک میں روزگار سے لگے ہیں اور جو ہندوستانی ہر سال کروڑہا ڈالر بھیج رہے ہیں ان کے مستقبل کو بھی خدشہ پیدا ہو گیا۔ اور ان حضرات میں اکثریت ہندوؤں کی ہے۔ اس صورت حال نے مودی حکومت اور سنگھ دونوں کے لیے تشویش پیدا کر دی۔ دنیا واقف ہے کہ مسجد اور مدرسہ دونوں تمام مسلم ممالک میں انتہائی قابل احترام ادارے ہیں۔ ان کا دورہ کر موہن بھاگوت اسلامی ممالک کو یہ سگنل دے رہے تھے کہ سنگھ کی اسلام سے کوئی دشمنی نہیں ہے۔ اس مقصد میں وہ کتنا کامیاب رہے، یہ وقت بتائے گا۔ لیکن ان کی مسجد یاترا نے فارن آفس کو موقع دے دیا کہ وہ مسجد کے سفر کا استعمال مسلم ممالک میں ہندوستان کی امیج ٹھیک کرنے کیلئے کرے۔سنگھ اور بی جے پی کی دوسری پریشانی یہ ہے کہ پچھلے چند ہفتوں میں بی جے پی مخالف اپوزیشن پارٹیوں میں آپسی اتحاد کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ ایک تو نتیش کمار کی کوشش اور پھر کانگریس پارٹی کے صدارتی چناؤ کے بعد یہ کام اور تیز ہو جائے گا۔ الغرض، اپوزیشن میں یہ فکر تیز ہو گئی ہے کہ سنہ 2024 کا لوک سبھا چناؤ مل جل کر لڑنے میں ہی بقا ہے۔ اور اس اتحاد کے امکانات بھی بڑھ گئے ہیں۔ یہ صورت حال مودی اور بی جے پی ہی نہیں سنگھ کے لیے بھی تشویشناک ہے۔اس صورت حال میں بی جے پی کے لیے یہ لازمی ہے کہ اپوزیشن کے حق میں جانے والے زیادہ سے زیادہ ووٹ کا بٹورا ہو۔ سب واقف ہیں کہ متحد مسلم ووٹ بینک ملک کا ایک بہت اہم اپوزیشن ووٹ بینک ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق متحدہ مسلم ووٹ بینک 100 سے کچھ زیادہ لوک سبھا سیٹوں کو متاثر کر سکتا ہے۔ اس پس منظر میں بی جے پی اور سنگھ کے حق میں ضروری ہے کہ کسی طرح سے مسلم ووٹ بینک کو پاٹ دیا جائے۔ سب جانتے ہیں کہ مسجدوں کے پیش امام اور مدارس دو ایسے گروہ ہیں جو مسلم ووٹ بینک پر اثرانداز ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا ان دونوں اداروں کے ذریعہ پیسوں کا استعمال کر مسلم ووٹر میں بھرم پیدا کیا جائے اور مسلم ووٹ بینک کو توڑ دیا جائے۔ یاد رکھیے، سنہ 2024 میں ان دونوں تنظیموں کا استعمال اسی مقصد کے تحت ہوگا۔ بھاگوت جی نے اسی کام کی پہل کے لیے ہی مسجد اور مدرسہ کا دورہ کیا۔ اور وہ جس مسجد گئے ان کو بھاگوت جی ’راشٹرپتا‘ لگنے بھی لگے۔
اگر بھاگوت کا مقصد واقعی مسلمانوں کے ساتھ مفاہمت ہے تو پھر پچھلے چند برسوں میں مسلمانوں کے جو مسائل پیدا ہوئے ہیں، پہلے مودی حکومت کی جانب سے ان معاملات میں کچھ نرمی ہونی چاہیے۔ لیکن ایسا نہیں ہو رہا ہے۔ مثلاً، جس روز بھاگوت جی مسجد گئے، اسی روز مودی حکومت کے اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ میں کرناٹک حکومت کی جانب سے کھڑے ہو کر اسکولوں اور کالجوں میں حجاب کی مخالفت کی۔ اسی روز وارانسی کورٹ میں ہندو تنظیموں نے گیان واپی معاملے میں مسلم پارٹی کی مخالفت کی۔ تیسری سب سے اہم بات، کیا بی جے پی ملک میں کہیں بھی مسلم منافرت پیدا کیے بغیر چناؤ جیت سکتی ہے! ہرگز نہیں۔اس لیے بھاگوت جی کی مسجد و مدرسہ ڈپلومیسی محض ایک بھٹکاؤ ہے، اور یہ امید نہیں کی جا سکتی ہے کہ سنگھ کی مسلم پالیسی میں کوئی بنیادی تبدیلی ہونے والی ہے۔