بینو میتھیو
غزہ میں جاری فلسطینیوں کا قتل عام اور ان کی نسلی تطہیر کا سلسلہ جاری ہے اور یہ قتل عام شروع ہوئے 600 دن ہورہے ہیں۔ سرکاری ریکارڈس یا اعداد و شمار کے مطابق اسرائیلی حملوں میں شہید ہوئے فلسطنیوں کی تعداد 54 ہزار سے تجاوز کرچکی ہے ۔ لانسیٹ اور دیگر تنظیموں اور اداروں کی جانب سے کئے گئے جائزوں میں شہداء کی تعداد سرکاری اعداد و شمار سے کئی گنا زیادہ ہے ، اس بارے میں یورو۔میڈ ہیومن رائٹس مانیٹر نے اسرائیل کے فضائی اور زمینی حملوں میں شہید ہوئے فلسطینی مرد و خواتین اور بچوں کے بارے میں بتایا کہ اسرائیل غزہ پٹی میں ہر گھنٹہ میں ایک فلسطینی خاتون کا قتل کر رہا ہے ۔ اس نے اب تک صرف غزہ پٹی میں 7,920 ماؤں کو قتل کیا جبکہ اسرائیل غزہ میں ہر 45 منٹ میں ایک فلسطینی بچے کو شہید کر رہا ہے ، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسرائیل ہر دن اوسطاً 30 فلسطینی بچوں کو قتل کر رہا ہے ۔ آپ کو بتادیں کہ 7 اکتوبر 2023 سے اب تک اسرائیل نے کم از کم 18 ہزار بچوں کا قتل کیا جن میں 15700 شہید بچوں کی شناخت ہوچکی ہے ۔ ہزاروں کی تعداد میں ایسے مرد و خواتین اور بچے بھی ہیں جن کی نعشیں ہنوز ملبے تلے دبی ہوئی ہیں اور اسرائیل کے ظلم و جبر کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ عمارتوں کے ملبہ تلے دبی نعشوں کو ہنوز نہیں نکالا جاسکا، اس کے باوجود نیا مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے ۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ غزہ پر اسرائیلی حملوں میں 232 صحافی اپنی زندگیوں سے محروم ہوئے یعنی ہر ماہ اوسطاً 13 صحافیوں کو مارا گیا اور صحافیوں کے خلاف اسرائیل۔فلسطین جنگ اب تک کی بدترین بلکہ ہلاکت خیز جنگ رہی اور اس کیلئے پوری طرح اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اور ان کی حکومت ذمہ دار ہے، واٹسن انسٹی ٹیوٹ فار انٹرنیشنل اینڈ پبلک افیرس کی جانب سے جنگ پراجکٹ کی قیمتیں کے زیر عنوان پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق دونوں جنگ عظیم یعنی پہلی اور دوسری جنگ عظیم ویٹنام جنگ ، یوگوسلاویہ کی جنگوں اور افغانستان میں امریکہ کی مسلط کردہ جنگ میں جتنے صحافی مارے گئے ان سے کہیں زیادہ صحافی صرف اسرائیل۔ فلسطین جنگ میں مارے گئے ہیں ۔ غزہ میں اسرائیل کی ہلاکت خیز کارروائیوں کے خوفناک نتائج برآمد ہوئے ۔ اس کے باوجود دنیا صرف تماشائی بنی ہوئی ہے اور فلسطینیوں کے قتل عام کا بڑی بے بسی سے مشاہدہ کر رہی ہے اور وہاں جو کچھ ہورہا ہے وہ دنیا کا پہلا لائیو قتل عام ہے ۔ اگرچہ دنیا اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کے قتل عام سے بر وقت واقف ہورہی ہے ، اس نسلی تطہیر پر دنیا کی بڑی طاقتیں اسرائیل کو روکنے سے قاصر ہیں۔ دنیا میں کوئی بھی اس بات کی ہمت نہیں کر رہا ہے کہ اسرائیل کو اس کے ظلم و جبر اور فلسطینیوں کے قتل عام سے روکیں۔ یہاں ایک اور اہم بات یہ ہے کہ اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کا جو قتل عام کر رہا ہے ، وہ مغربی طاقتوں کی مدد سے کر رہا ہے ۔ خاص طور پر امریکہ کی مدد اسرائیل کو حاصل ہے ۔ واضح رہے کہ اسرائیل نے غزہ پر تقریباً 90 ہزار ٹن بموں کی بارش کی اور ہر بم امریکہ نے فراہم کیا اگر ان بموں کا ہیروشیما ناگاساکی پر گرائے گئے جوہری بموں سے موازنہ کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ پر گرائے گئے بموں کا وزن ہیروشیما ناگاساکی پر گرائے گئے جوہری بموں سے 4.5 گنا زیادہ ہے ۔ اسرا ئیل اگر دیکھا جائے تو فلسطینیوں کے جذبہ حریت سے کافی پریشان ہے، وہ بوکھلاہٹ کا شکار ہوگیا ہے ، حالانکہ فلسطینی بے بس و مجبور ہیں، ان کی مدد کرنے والا کوئی نہیں۔ ان بے بس فلسطینیوں کے سامنے اسرائیل لاکھ ٹکنالوجی اور عصری آلات رکھنے کے باوجود بے بس و لاچار ہے ، ایسے میں وہ (اسرائیل) فلسطینیوں تک غذائی اشیاء پہنچنے سے روک رہا ہے ۔ انہیں بھوکا مارنا چاہتا ہے ۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ پچھلے 12-13 ہفتوں سے اسرائیل نے غزہ میں امداد پہنچانے پر مکمل روک لگادی ہے ۔ تاہم بتایا جارہا ہے کہ 22 مئی سے اسرائیل نے غزہ میں امداد لے جانے والی ٹرکس کی محدود تعداد کو اجازت دی ہے ۔ اس دوران اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیوگیویئرس نے کہا ہے کہ اسرائیل نے بالکل تھوری امداد غزہ میں لے جانے کی اجازت دی ہے جس سے غزہ کے لوگوں میں بھوک مزید بڑھ گئی ہے ۔ بے چینی میں اضافہ ہوا ہے ۔ اس پر طرفہ تماشہ یہ کہ اسرائیل نے اقوام متحدہ کی ایجنسیوں کو امداد کی تقسیم سے روک دیا ہے ۔ اس کی بجائے اسرائیل نے امریکہ کے ساتھ مل کر ’’دی غزہ ہیومانیٹیرین فاؤنڈیشن‘‘ نامی ایک غیر سرکاری تنظیم قائم کی ہے جو امداد کی تقسیم کی نگرانی کرے گی ، واشنگٹن پوسٹ نے اس سلسلہ میں ایک رپورٹ شائع کی جس میں بتایا گیا کہ خود ساحتہ غزہ ہیومانیٹیرین فاؤنڈیشن امریکہ کے سابق انٹلیجنس ، دفاعی عہدیداروں اور بزنس اگزیکیٹیوز نے قائم کیا اور یہ لوگ اسرائیل کے ساتھ قریبی مشاورت سے کام کر رہے ہیں ۔ آپ کو یہ بھی بتادیں کہ امدادی اشیاء بالخصوص اناج کی تقسیم کے عمل کی نگرانی امریکہ کے کرایہ کے سپاہی کر رہے ہیں اوران کی محدود کارروائیاں نہ صرف غزہ میں بے چینی کا باعث بن رہی ہیں بلکہ غزہ میں ناقص غذا اور بھوک کا شکار آبادی تک بھی امداد پہنچنے سے قاصر ہے۔ اقوام متحدہ اور عالمی سطح پر کام کرنے والی امدادی ایجنسیوں نے صاف طور پر کہہ دیا ہے کہ وہ کسی بھی طرح غزہ ہیومانیٹیرین فاؤنڈیشن سے تعاون و اشتراک نہیں کرے گا جو مسلح سیکوریٹی کنٹراکٹرس (امریکہ کے کرایہ کے سپاہیوں) کی نگرانی میں امداد تقسیم کر رہی ہے ۔ اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے، اس اسکیم کے نتیجہ میں بے گھر فلسطینیوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہوگا ۔ اقوام کی ہیومانیٹیرین چیف ٹام فیچر نے حالیہ عرصہ میں انتباہ دیا کہ غزہ میں 14000 نومولود بچے بچیاں بھوک اور ناقص غذا کا شکار ہوکر موت کے منہ میں پہنچ جائیں گے ۔ ایسے میں غزہ میں مزید تباہی و بربادی کے امکانات پائے جاتے ہیں۔ ویسے بھی غزہ اسرائیل کے فضائی اور زمینی حملوں میں مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے ۔ فلسطین کی وزارت صحت کے مطابق فی الوقت ناقص غذا اور بھوک سے فلسطینی بچوں کو سب سے زیادہ خطرات لاحق ہیں۔ ایک اور تشویش کی بات یہ ہے کہ فی الوقت غزہ میں 60 ہزار فلسطینی خواتین حاملہ ہیں۔ ناقص غذا بھوک اور نامناسب نگہداشت صحت کے باعث وہ صحت کے سنگین حالات سے دوچار ہیں ۔ غزہ میں دودھ پلانے والی مائیں بھی ہیں۔ غزہ پر فلسطینیوں پر ہر روز اسرائیل کی بمباری ہورہی ہے اور اسرائیل امداد اور بھوک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے ۔ اسرائیل نے دعویٰ کیا ہے کہ حماس کے خلاف اس کا آپریشن GIDEON’s CHARIOTS اپنے آخری بلکہ قطعی مراحل میں ہے ۔ اس آپریشن کے بارے میں اسرائیلی وزیر فینانس بینرالیل اسموٹ رچ نے اعلان کیا تھا کہ غزہ اندرون سال مکمل تباہ کردیا جائے گا ۔ شہریوں کو جنوبی علاقہ میں ہیومانیٹیرین زون میں بھیجا جائے گا اور وہاں سے وہ (فلسطینی تیسرے ملکوں کیلئے روانہ کردیئے جائیں گے) ۔ خود نیتن یاہو نے فلسطینیوں کی نسلی تطہیر سے متعلق ٹرمپ منصوبہ پر عمل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے بتایا تھا کہ یہ منصوبہ بہت ہی درست اور انقلابی ہے۔ آپ کو بتادیں مہاتما گاندھی نے 1938 میںفلسطین کے بارے میں لکھا تھا کہ فلسطین عربوں کا ہے ، ایسے ہی جیسے انگلینڈ انگریزوں کا اور فرانس ، فرانسیسی شہریوں کا ہے ۔ ایسے میں عربوں پر یہودیوں کو مسلط کرنا غلط اور غیر انسانی ہے۔