بہتر ہے کل کی فکر آج کرنا

   

محمد مصطفی علی سروری
اسرار شیخ کی عمر 32 برس ہے۔ وہ اتر پردیش کے شہر گورکھپور میں پلاسٹک کا سامان بیچ کر ماہانہ 10 ہزار کما لیتا تھا۔ گذشتہ مہینے مارچ میں جب کرونا وائرس کے سبب ملک گیر سطح پر لاک ڈائون کا اعلان ہوا تو پہلے یہ لوگ سمجھ ہی نہیں سکے اور جب ان کو حالات سمجھ میں آئے تب پتہ چلا کہ ان کے پاس پیسے تیزی سے ختم ہوتے جارہے ہیں۔ دوسرا بڑا مسئلہ اسرار کے لیے کھانے پینے کا پیدا ہوگیا تھا۔ تب اسرار نے فیصلہ لیا کہ وہ گورکھپور میں بھوکا نہیں مرے گا اور چاہے کیسے بھی ہو اپنے گائوں واپس چلا جائے گا۔ گورکھپور میں اسرار اکیلا نہیں تھا جو کھانے کے لیے پریشان تھا خود اس کے گائوں کے پانچ لوگ اور بھی تھے جو لاک ڈائون ہوجانے سے کچھ بھی کما نہیں پارہے تھے اور ایک وقت کے کھانے کے لیے بھی پریشان تھے۔ ان حالات سے پریشان ہوکر گورکھپور کے پانچ نوجوان واپس اپنے گائوں کے لیے نکل پڑے۔ ٹرین بند، بس کی سرویس بند ایسے میںان پانچ لوگوں نے اپنے گائوں کے لیے سفر کیسے کیا یہ اور دیگر ساری تفصیلات کولکتہ کے انگریزی اخبار دی ٹیلیگراف کی 30؍ مارچ 2020ء کی اشاعت میں اسہنا موئے چکربورتی کی رپورٹ سے معلوم ہوتی ہیں۔ اسرار روٹی روزی کمانے کے لیے اترپردیش گیا تھا۔ اب گورکھپور سے اسرار نے اپنے گائوں کے چار نوجوانوں کو ساتھ لے کر واپس مرشد آباد کے لیے 27؍ مارچ کو سفر شروع کیا۔ یہ لوگ چار گاڑیوں سے لفٹ لیتے ہوئے آگے بڑھتے گئے۔ 60 گھنٹوں کے دوران ان لوگوں کو تقریباً ایک سو بیس کیلومیٹر کا راستہ پیدل بھی طئے کرنا پڑا۔ کچھ راستہ لفٹ لے کر طئے کیا اور کچھ راستہ پیدل اور جب یہ لوگ اپنے گائوں سے صرف 112 کیلومیٹر دور تھے تب مغربی بنگال پولیس نے ان نوجوانوں کو پکڑ لیا اور ان لوگوں کو 48 گھنٹے کے بعد کھانا تو ملا مگر پولیس نے اب ان کو 14 ددنوں کے قرنطینہ میں بھیج دیا۔
27؍ مارچ کی رات 10 بجے گورکھپور سے شروع ہونے والا واپسی کا یہ سفر 30؍ مارچ کو ان لوگوں کی اصل منزل سے صرف 112 کیلو میٹر پر رک گیا۔ قارئین اس سارے واقعہ کو سنانے کا جو مقصد تھا وہ یہ کہ مغربی بنگال کے ان نوجوانوں کو اپنے گھر واپسی کا سفر کرنے کا خیال ایسے بھی آیا کہ ان کے ہاں کچھ پیسے تھے جو ان لوگوں نے راستے میں مختلف لاری اور ٹرک ڈرائیوروں کو دیئے تاکہ ان سے لفٹ لے سکیں۔ اخبار ٹیلیگراف کی رپورٹ کے مطابق مرشد آباد کے ان نوجوانوں نے تقریباً 6ہزار روپئے خرچ کیے تاکہ ٹرکوں کے ذریعہ لفٹ لے سکیں اور اگر ان کے پاس اتنی رقم نہیں ہوتی تو یہ لوگ اتر پردیش میں بھوکے اور پریشان رہتے۔ اپنے گھر واپسی کے بارے میں سونچ بھی نہیں سکتے تھے۔
قارئین لاک ڈائون کے پس منظر میں ہمارے ملک کا ہر دوسرا فرد اس بات سے پریشان ہے کہ جب وہ کام کاج نہیں کرے گا ، کاروبار نہیں کرسکے گا، محنت کرنے کے لیے باہر نہیں نکل سکے گا تب اس کے اخراجات کون پورے کرے گا اور وہ اپنی ضروریات کی تکمیل کے لیے کہاں جاسکے گا۔

یہ 10؍ اپریل 2020ء کی بات ہے جب مرشد آباد مغربی بنگال کے بلاک ڈیولپمنٹ آفس میں ایک فون کال آتی ہے۔ فون کرنے والی ایک لڑکی تھی جو اپنا تعارف کراتے ہوئے کہتی ہے کہ اس کی عمر صرف 16 سال ہے اور اس کے والد آج اس کی شادی کروا رہے ہیں اور وہ نہیں چاہتی ہے کہ اس کی شادی ہو۔ کیونکہ ابھی وہ دسویں جماعت میں زیر تعلیم ہے۔
قارئین اخبار دی نیو انڈین ایکسپریس 12؍ اپریل کو مرشد آباد کے بی ڈی او آفس کو آنے والی اس فون کال کے حوالے سے ایک تفصیلی خبر دی۔ اخبار کے نمائندے پرنب منڈل نے لکھا کہ ایک ایسے وقت جب سارا ملک کورونا وائرس کی وباء کے سبب لاگو کیے جانے والے لاک ڈائون سے پریشان ہے مرشد آباد کے رہنے والے اکرم شیخ نے اپنی لڑکی کی 10؍ اپریل کو شادی مقرر کردی اور عین شادی سے دو گھنٹے پہلے لڑکی نے بی ڈی او آفس کو فون کر کے مدد مانگی کہ وہ یہ شادی نہیں کرنا چاہتی ہے۔ اخبار نے اکرم شیخ کے متعلق لکھا کہ وہ مرشد آباد کا رہنے والا ہے اور اڈیشہ میں کام کرتا ہے لیکن کرونا وباء کے سبب ملک بھر میں لاک ڈائون نافذ کردیا گیا تو اکرم بھی 27؍ مارچ کو اڈیشہ سے اپنے ضلع مرشد آباد کو واپس آگیا۔ جہاں پر معائنہ کے بعد ڈاکٹر نے اکرم کو قرنطینہ کی مدت اپنے گھر میں گذارنے کی ہدایت دی۔ لیکن اس دوران اکرم شیخ کو اپنی بیٹی کی شادی کا خیال کیسے اور کیوں آیا۔ اس حوالے سے اخباری رپورٹ میں لکھا ہے کہ اکرم شیخ محنت مزدوری کر کے نہ صرف گھر کے اخراجات پورا کرتا تھا بلکہ اپنی بیٹی کی شادی کے لیے بھی بجٹ جمع کر رکھا تھا۔ اس نے اخبار کو بتلایا کہ ’’مجھے اب یہ نہیں معلوم ہے کہ دوبارہ کام کب ملنے والا ہے اور میں پھر کب کمانا شروع کروں گا۔ مجھے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ مجھ جیسے مزدوروں کو اگلے چھ مہینوں تک کوئی کام نہیں ملنے والا ہے۔ ایسے میں مجھے ڈر ہونے لگا کہ کہیں میں اپنی بچت کی ساری رقم مصیبت کی اس گھڑی میں خرچ نہ کردوں۔ اس ڈر سے میں نے طئے کیا تھا کہ اپنی بچی کی شادی کیوں نہ کردوں۔ وہ تو اکرم شیخ کی بچی نے بی ڈی او کو فون کر کے خود ہی شادی سے منع کردیا۔ ورنہ اکرم اپنی بچت سے اپنی بچی کی شادی ضرور کردیتا۔ بی ڈی آفیسر سورو گھوش نے اکرم شیخ سے ایک تحریری حلف نامہ یہ کہہ کر لکھوالیا کہ وہ اب اپنی لڑکی کی زبردستی شادی نہیں کروائے گا۔

قارئین میں اب اپنے کالم کے اصل موضوع کی طرف لوٹ آنا چاہوں گا کہ مسلم معاشرے میں Savings بچت کا نظریہ بہت غیر مقبول ہے۔ خاص کر ناگہانی حالات کا سامنا کرنے اور مالی وسائل کو محفوظ رکھنے کے بارے میں بہت کم سونچا جاتا ہے۔ ایسا کیوں؟ جماعت اسلامی کے ڈاکٹر اسلام الدین مجاہد صاحب کے مطابق اس میں کوئی شک نہیں کہ شہر حیدرآباد کے مسلمانوں نے گذشتہ تین دہائیوں کے دوران بہت پیسہ کمایا لیکن بچت کرنا اور غیر یقینی حالات کے بارے میں منصوبہ بندی کرنا یہ عادت بالکل نہیں ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ لاک ڈائون کے دوران ہر فرد اورادارہ بس لوگوں میں راشن اور کھانا تقسیم کر رہا ہے لیکن امت مسلمہ کو سوچنا ہوگا کہ وہ اگر کمپنی چلاتا ہے۔ اپنے ورکرس کو اس لاک ڈائون کے ایام کی تنخواہ جاری کرے۔ اگر تعلیمی ادارہ مسلم انتظامیہ کا ہے تو وہ اپنے ہاں کے اساتذہ و دیگر عملے کو اقل ترین تنخواہ مقرر کرے جو مناسب ہو تاکہ مسلمانوں میں بچت کا نظریہ فروغ پاسکے۔ کالج کے لکچرار کو 15 تا 20 ہزار تنخواہ دی جائے تو وہ اپنے گھر کے اخراجات، بچوں کی تعلیم اور دیگر ضروریات کے بعد بمشکل ہی کچھ رقم بچاسکتا ہے۔ اس لیے ڈاکٹر اسلام الدین مجاہد کہتے ہیں کہ مسلمان حقیقت پسند رویہ اختیار کریں۔
ڈاکٹر ساجد علی پرانے شہر حیدرآباد میں ایک عرصے سے تعلیمی میدان میں سرگرم عمل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت روزانہ کنواں کھودنا ، روزانہ پانی نکالنے کی عملی تفسیر پیش کرتی ہے۔ ان کے ہاں بچت کا تصور بالکل نہیں ہے۔ ڈاکٹر محمد ساجد علی صاحب کے مطابق لاک ڈائون سے بند ہونے والی معاشی سرگرمیوں کا اصل بوجھ مسلم سماج میں خواتین ڈھو رہی ہیں۔ غریب تو کسی طرح کسی فلاحی ادارے کا راشن اور کھانا قبول کر رہا ہے لیکن جو غیرت مند ہیں وہ پریشان ہے۔ نہ تو لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلا سکتا ہے اور نہ ہی محنت کر کے کما نے کے قابل ہے۔ ہاں یہ لوگ قرضوں کے جال میں پھنستے جارہے ہیں۔ نچلا متوسط طبقہ اور خاص کر اس طبقے کی عورتوں میں بچت کی عادت تھی۔ لیکن نوٹ بندی کے بعد یہ لوگ جس طرح سے خود اپنے ہی گھر والوں کے سامنے چھپا چھپاکر بچا بچا کر رکھنے والی رقم کو لے کر پریشان تھے اس کے بعد سے ان لوگوں نے بھی بچت سے توبہ ہی کرلی کہ کہیں یہی نوٹ ان کے لیے پھر سے آزمائش نہ بن جائیں۔
سید ظہور الدین سکندرآباد کو آپریٹیو بینک کے وائس چیئرمین ہیں ۔ ان کے مطابق مسلمانوں کی صحیح رہبری کی جانی چاہیے تاکہ وہ کورونا وائرس کے سبب لگے لاک ڈائون کی بدولت ہی صحیح مستقبل میں بچت کی عادت ڈالیں۔ ان کے مطابق مسلمان قوم اگر اپنی زکوٰـۃ کو صحیح طریقے سے استعمال کرے تو ناگہانی حالات میں یہ ایک بہترین مدد ثابت ہوسکتی ہے۔ ظہور الدین صاحب کے مطابق مسلمان زکوٰۃ کے لیے ایک ادارہ کو ذمہ دار بنادیں جو ضرورت مند کی مدد اس طریقے سے کرے کہ وہ اپنی ضرورت کی تکمیل کے بعد وہ رقم دوسرے کسی ضرورت مند کی تکمیل کے لیے واپس کرے۔

قارئین مختلف دانشور حضرات اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ کورونا وائرس کی وباء ابھی جلد ہی ختم ہونے والی نہیں ہے اور اس وباء کے ختم ہوجانے کے بعد بھی اس کے معاشی اثرات ایک طویل مدت تک محسوس کیے جائیں گے تو کیا یہ بات ضروری نہیں ہے کہ ہم مسلمان اللہ رب العزت سے اپنے معاملے کو رجوع کرنے کے ساتھ ساتھ عملی طور پر بھی قوم کو معاشی مسائل کے دلدل سے باہر نکالنے کے لیے اقدامات کریں۔
امداد باہمی کے اصول اسلامی تعلیمات سے بالکل میل کھاتے ہیں۔ کیا ہم اپنی مدد آپ کرنے کے نظریہ کے تحت کم سے کم اس مرتبہ زکوٰۃ کو ایسے موثر طریقے سے استعمال کریں کہ اس برس زکوٰۃ لینے والے لوگ زکوٰۃ کی رقم آئندہ برس یا ان کے معاشی حالات جیسے ہی اجازت دیں دوسروں کی مدد کے لیے واپس دینے کا تہیہ کرلیں۔
کیونکہ کوئی اس بات کی شکایت نہ کرے کہ جن کے باپ دادا زکوٰۃ لیتے تھے آج انہیں کے بچے بھی زکوٰۃ لے رہے ہیں۔ زکوٰۃ کو یقینا اس کے حق دار کو ادا کرنا ہے۔ لیکن مستحق افراد اس بات کو سمجھیں کہ انہیں جلد سے جلد اپنے آپ کو زکوٰۃ لینے والوں کے طبقے سے نکل کر دوسروں کی مدد کرنے والے طبقے تک کا سفر کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ کرونا وائرس کی وباء کو جلد سے جلد دور کرے اور ہم مسلمانوں کے لیے اور سارے عالم کے لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا فرمائے۔ (آمین)
کل کا کل نہیں ہے دیکھنا
بہتر ہے کل کی فکر آج کرنا
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)
[email protected]