بی ایل سنتوش اور کویتا کو بچانے کیلئے بی جے پی اور بی آر ایس میں ’ایکسچینج آفر ‘

   

تحقیقاتی ایجنسیاں اچانک خاموش، شراب اسکام اور ارکان اسمبلی خریدی معاملہ کی جانچ ادھوری، خفیہ مفاہمت کی اطلاعات

حیدرآباد۔/5 جولائی، ( سیاست نیوز) بی آر ایس اور بی جے پی میں صرف انتخابات کیلئے مفاہمت نہیں ہوئی بلکہ مقدمات سے ایک دوسرے کے قائدین کو نجات دلانے کے معاملہ میں بھی پیش رفت دکھائی دے رہی ہے۔ شراب اسکام میں چیف منسٹر کی دختر کویتا کے خلاف انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ کے پاس مبینہ طور پر ثبوت کے باوجود ان کے خلاف مزید کارروائی نہیں کی گئی۔ اسی طرح بی آر ایس کے 4 ارکان اسمبلی کے خریدی معاملہ میں بی جے پی کے قومی جنرل سکریٹری بی ایل سنتوش کو خصوصی تحقیقاتی ٹیم میں اہم ملزم کے طور پر شامل کیا تھا لیکن ان کے خلاف بھی کارروائی سُست روی کا شکار ہوچکی ہے۔ مبصرین کے مطابق کویتا اور بی ایل سنتوش کے خلاف مزید کارروائی نہ کرنے کیلئے اتفاق رائے ہوا ہے جس کے بعد ہی دونوں معاملات میں تحقیقاتی ایجنسیاں خاموش ہیں۔ گذشتہ سال 26 اکٹوبر کو سائبرآباد پولیس نے بی آر ایس کے ارکان اسمبلی روہت ریڈی، جی بالراجو، بی ہرش وردھن ریڈی اور آر کانتا راؤ کو شہر کے مضافاتی علاقہ میں فارم ہاوز پر طلب کرتے ہوئے بی جے پی میں شمولیت کا پیشکش کیا گیا اور بھاری رقم اور دیگر مراعات کی پیشکش کی گئی۔ پولیس نے فارم ہاوز سے تین افراد کو گرفتار کیا تھا۔ حکومت کی جانب سے اس معاملہ کی جانچ کیلئے خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی گئی جس نے اے سی بی کی خصوصی عدالت میں ملزمین کے خلاف چارج شیٹ داخل کی۔ اہم ملزم نند کمار کو حیدرآباد سے گرفتار کیا گیا جبکہ تروپتی سے سمبھاجی سوامی کی گرفتاری عمل میں آئی۔ تیسرے ملزم رامچندرا بھارتی کو ہریانہ کے فریدآباد سے گرفتار کیا گیا۔ بی جے پی نے تحقیقات کو سی بی آئی منتقل کرنے کیلئے ہائی کورٹ میں درخواست داخل کی اور ہائی کورٹ نے سی بی آئی کے ذریعہ تحقیقات کا فیصلہ سنایا لیکن بعد میں سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے احکامات کو کالعدم کردیا۔ پولیس کی خصوصی تحقیقاتی ٹیم نے بی جے پی کے قومی جنرل سکریٹری بی ایل سنتوش کو سازش کا اہم ملزم قرار دیا تاہم عدلیہ سے راحت کے سبب انہیں گرفتار نہیں کیا جاسکا۔ جس طرح شراب اسکام کی تحقیقات کویتا کے خلاف اچانک برفدان کی نذر ہوگئیں اسی طرح بی ایل سنتوش کے معاملہ میں بھی خصوصی تحقیقاتی ٹیم نے اپنی رفتار سُست کردی ہے۔ بی ایل سنتوش قومی جنرل سکریٹری کے علاوہ بی جے پی میں انتہائی بااثر سمجھے جاتے ہیں۔ وزیر اعظم اور دیگر قومی قائدین سے ان کی قربت کے نتیجہ میں تلنگانہ حکومت کو ان کے خلاف کارروائی سے روکنے میں کامیابی حاصل ہوئی۔ دونوں پارٹیوں کو اپنے اپنے اہم قائدین کو تحقیقات سے بچانا تھا لہذا بی جے پی اور بی آر ایس کے درمیان ’’ ایکسچینج آفر‘‘ معاہدہ طئے پانے کی اطلاعات ہیں جس کے تحت دونوں حکومتوں کی تحقیقاتی ایجنسیاں کویتا اور بی ایل سنتوش کے خلاف مزید کارروائی نہیں کریں گی۔ اپنے اپنے قائدین کو بچانے کیلئے بتایا جاتا ہے کہ اعلیٰ سطح پر اتفاق رائے ہوا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ شراب اسکام اور ارکان اسمبلی خریدی معاملہ کی تحقیقات میں اچانک سُست روی اس بات کا ثبوت ہے کہ درپردہ مفاہمت ہوچکی ہے۔ چیف منسٹر کے سی آر نے ارکان اسمبلی خریدی معاملہ کو قومی سطح پر پیش کیا تھا اور خاطیوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا اعلان کیا تھا لیکن گذشتہ چند ماہ سے چیف منسٹر اور ان کی ٹیم ارکان اسمبلی خریدی معاملہ میں خاموش ہیں تو دوسری طرف بی جے پی قائدین بھی شراب اسکام میں کویتا کے رول پر اظہار خیال سے گریز کررہے ہیں۔ چیف منسٹر کے سی آر کو تلنگانہ میں اقتدار اور اپنی دختر کو الزامات سے بچانے کی فکر لاحق ہوچکی ہے۔ تحقیقاتی ایجنسیاں اور دونوں پارٹیوں کے قائدین کی اسکامس کے بارے میں خاموشی سے عوام میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ کچھ نہ کچھ درپردہ مفاہمت ضرور ہوئی ہوگی ورنہ انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ اور تلنگانہ کی اسپیشل انوسٹی گیشن ٹیم کی خاموشی بے وجہ نہیں ہوگی۔ر