پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)
کہا جاتا ہیکہ بدقسمتی تنہا نہیں آتی بلکہ ایپنے ساتھ کئی ایک پریشانیوں کو بھی لاتی ہے۔ اس سلسلہ میں یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ اونٹ پر بھی بیٹھتے ہیں تو کتا کاٹنے لگتا ہے۔ فی الوقت یہی حال بی جے پی کا ہے جسے قانونی اور انتخابی دونوں محاذوں پر بدترین شکستوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ خاص طور پر 7 مئی 2023 سے شروع ہونے والا ہفتہ بی جے پی کے لئے بڑا ہی ظالمانہ ثابت ہوا۔ 11 مئی کو سپریم کورٹ نے دو فیصلے صادر کئے۔ دونوں فیصلے دستوری بنچیں (پانچ ججس پر مشتمل) نے دیئے اور دونوں پنچس نے دستور کی دفعات کی تشریح کرتے ہوئے حکومت کو اس کی دستوری ذمہ داریوں و فرائض کا احساس دلایا اور عدالت عظمیٰ کے دونوں فیصلے حکومت کے چہرے پر زور دار طمانچوں سے کم نہیں تھے۔ بی جے پی کے لئے دوسری بدبختی یا بدنصیبی کی بات کرناٹک اسمبلی انتخابات کے نتائج رہے۔ وزیر اعظم، وزیر داخلہ اور دوسرے بی جے پی قائدین کی لاکھ کوششوں دعوؤں اور وعدوں کے باوجود جنوبی ہند کی اس ریاست میں بی جے پی کو کانگریس کے مقابلہ شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا جس سے اس کے خیموں میں مایوسی کی لہر دوڑ گئی کیونکہ اسے اچھی طرح احساس ہوگیا ہیکہ جنوبی ہند کے عوام نے اسے بڑی حقارت سے مسترد کردیا۔ عوام کے مذہبی جذبات سے کھلواڑ کی تمام کوشش بری طرح ناکام ہوگئیں۔ بی جے پی اور بی جے پی قائدین کے بارے میں آپ کو ایک اہم بات بتادوں کہ جب بھی بی جے پی کو شکست یا ناکامی ہوتی ہے تو وہ خاموشی کا سہارا لیتے ہیں اور ایسے چپ ہو جاتے ہیں جیسے ان لوگوں کو سانپ سونگھ گیا ہو۔ مثال کے طور پر جب سپریم کورٹ کے دستوری پنچ نے حکومت کے خلاف فیصلہ دیا۔ انتہائی سخت ریمارکس کئے اس پر ہمارے وزیر داخلہ کچھ بولے اور نہ ہی عزت مآب وزیر اعظم نے اپنا منہ کھولنے اور کچھ بولنے یعنی ردعمل ظاہر کرنے کی زحمت گوارا کی۔
دہلی کیس بڑا آسان تھا۔ سال 2018 میں عدالت عظمیٰ نے دستور کی دفعہ 239AA کی تشریح کی کہ نظم عامہ، پولیس اور اراضی کے سواء تمام امور بشمول ایگزیکٹیو پاورس دہلی حکومت کی مجلس وزراء اور لیفٹننٹ گورنر کو تفویض کئے گئے ہیں اور دہلی کو یعنی دہلی حکومت کو مجلس وزراء کے مشورہ اور اس کی مدد سے کام کرنا ہوگا کیونکہ خدمات کے بارے میں شکوک و شبہات برقرار تھے کہ سیول سرونٹس پر کنٹرول کون کرے گا اور یہ مسئلہ 11 مئی کے فیصلہ پر چھوڑ دیا گیا اور پھر یہ فیصلہ کی تاریخ بھی آگئی اور سپریم کورٹ نے اپنے تاریخی فیصلہ میں پرزور انداز میں کہا کہ وزراء کو ’’خدمات‘‘ پر کنٹرول حاصل ہے بعض خدمات پر کسی اور کا نہیں بلکہ مجلس وزراء کا کنٹرول ہوگا۔ ہر لفٹننٹ گورنر کو 2014 سے حکومت کے جمہوری وفاقی نظام کو اہمیت نہ دینے کا برابر ذمہ دار قرار دیا گیا۔ دوسرا معاملہ صرف اس لئے پیچیدہ تھا کیونکہ آئین کے دسویں شیڈول کی دفعات کی پچھلے فیصلوں میں مستند اور غیر معمولی طور پر تشریح نہیں کی گئی۔ 2004 میں دسویں شیڈول میں ترمیم کی گئی تھی ایک اور اہم بات یہ کہ لیجسلیچر پارٹی میں ایک پھوٹ یا تقسیم کا تصور نہیں پایا جاتا۔ دسویں شیڈول نے صرف اس صورت میں انحراف کے خطرہ سے استثنیٰ دیاتھا اور کہا تھا کہ اگر وہ دو شرائط میں سے ایک پر بھی مطمئن ہوتا ہے تو اس استثنیٰ کا اطلاق ہوگا۔ سطور بالا میں جن دو شرائط کی بات کی گئی ان میں سے ایک شرط یہ ہے کہ جو اصل سیاسی جماعت ہے یعنی Parent Party کے ارکان دوسری سیاسی جماعت میں ضم ہونا چاہتے ہیں تو وہ ایک دو کی شکل میں نہیں بلکہ دو تہائی ارکان کی تعداد میں دوسری سیاسی پارٹی میں ضم ہوسکتے ہیں۔ یعنی اس پارٹی کے دو تہائی ارکان اسمبلی دوسری سیاسی پارٹی میں ضم ہونے سے اتفاق کرتے ہیں تب ہی وہ ضم ہوسکتے ہیں۔ دوسری شرط یہ ہیکہ اگر ارکان اسمبلی انضمام کو قبول نہیں کرتے اور مقننہ میں علیحدہ گروپ کے طور پر کام کرنے کو اپناتے ہیں۔ اگر وہ ان دونوں شرائط سے مطمئن نہیں ناراض ارکان اپنی اصل پارٹی کے لیجسلیچر پارٹی سے تعلق جاری رکھ سکتے ہیں اور وہ اپنی Parent Political party کے کسی بھی وہپ پر عمل کرنے کے پابند ہیں، اگر وہ اپنی پارٹی کے وہپ پر عمل نہیں کرتے ہیں تو ان کے خلاف قانون انسداد انحراف کے تحت کارروائی ہوسکتی ہے۔
غیر دستوری حکومت : ۔ جہاں تک مہاراشٹرا کا سوال ہے مہاراشٹرا میں جہاں مسٹر ایکناتھ شنڈے کی قیادت میں 16 ارکان اسمبلی نے شیوسینا لیجسلیچر پارٹی سے خودکو علیحدہ کرلیا تھا حالانکہ شیوسینا سے ان کا تعلق تھا اور دیکھا جائے تو آج بھی اس گروپ نے خود کی انفرادیت برقرار رکھی ہے۔ حد تو یہ ہیکہ منحرف و ناراض ارکان اسمبلی 21 جون 2022 کو شیوسینا کی جانب سے جاری کردہ وہپ پر عمل کرنے کے پابند تھے لیکن شیوسینا کے وہپ پر عمل سے انکار کرتے ہوئے ایکناتھ شنڈے گروپ نے بی جے پی سے ہاتھ ملالیا اور گورنر نے بنا کسی قانونی و دستوری وجہ (جیسا کہ سپریم کورٹ نے پایا کہ) ادھو ٹھاکرے (اس وقت کے چیف منسٹر) کو اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کی ہدایت دی اور پھر سب نے دیکھا کہ ادھوٹھاکرے نے (کسی کے ناقص مشورہ) پر مقننہ کا سامنا کئے بنا اپنے عہدہ سے استعفے دے دیا جس کے ساتھ ہی گورنر نے بناء کسی تاخیر کے مسٹر ایکناتھ شنڈے کو چیف منسٹر کی حیثیت سے حلف دلایا۔ اس طرح ریاست میں شنڈے گروپ اور بی جے پی کی مخلوط حکومت تشکیل پائی لیکن یہ قصہ وہیں ختم نہیں ہوا بلکہ شیوسینا نے اسپیکر پر زور دیا کہ وہ پہلے 16 ارکان اسمبلی کو نااہل قرار دیں لیکن وہ درخواست اسپیکر نے سرد خانہ کی نذر کردی (جو کئی اسمبلیوں میں ایک روایت بن گئی ہے) سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں کہا کہ وہپ وہ شخص ہے جو ایک سیاسی جماعت کی جانب سے مقرر کیا جاتا ہے (اس مقدمہ میں شیوسینا) کا دعویٰ ہیکہ گورنر کے پاس قانون ساز اسمبلی کا اجلاس بلانے کی کوئی وجہ ہی نہیں تھی اور گورنر نے مسٹر ایکناتھ شنڈے کو اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کی جو ہدایت دی وہ بھی غیر ضروری تھی۔ ہاں اسپیکر کے لئے یہ ضروری ہوگیا تھا کہ وہ جتنا جلد ممکن ہوسکے ادھو ٹھاکرے نے منحرف ارکان کو نااہل قرار دینے کی جو درخواست داخل کی ہے اس پر کارروائی کرے۔ ایک اور اہم بات یہ ہیکہ گورنر اپنی حد اپنے اختیارات سے تجاوز کرگئے جبکہ اسپیکر نے اپنے اختیار کا استعمال کرنے سے گریز کیا۔ اس طرح دونوں اپنے فرائض منصبی کی انجام دہی م یں ناکامی کے مرتکب پائے گئے۔ اس طرح ان دونوں کے باعث جون 2022 سے مہاراشٹرا میں ایک غیر دستوری حکومت چل رہی ہے۔
آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ مختلف ریاستوں میں بدنام زمانہ آپریشن لوٹس (آپریشن کنول) شروع کیا گیا۔ اسی طرح اترپردیش مدھیہ پردیش اور آسام میں بلڈوزر انصاف پر عمل کیا جارہا ہے (حالانکہ یہ غیر قانونی اور غیر انسانی ہے) آپ سب یہ بھی جانتے ہیں کہ غیر بی جے پی ریاستوں کو مرکز کی جانب سے فنڈس فراہم نہیں کئے جارہے ہیں جس کے لئے مختلف بہانے تراشے جارہے ہیں۔ حد تو یہ ہیکہ اپوزیشن قائدین کے خلاف فوجداری مقدمات درج کئے جارہے ہیں، دستوری طور پر مشتبہ قوانین جیسے دفعہ 370 اور انتخابی بانڈس سے متعلق قانون مدون کئے گئے یا ان میں ترمیم کی گئی اب مودی حکومت ملک میں یکساں سیول کوڈ نافذ کرنے اور این آر سی کی دھمکیاں دے رہی ہے، ریاستی قوانین کو دبانے (خاص کر تعلیم کے شعبہ میں) کے اقدامات کئے جارہے ہیں۔ ریاستوں کو محاصل حاصل کرنے کے جو حقوق یا اختیارات حاصل ہیں وہ چھینے جارہے ہیں۔ یعنی 140 کروڑ عوام کو Centralism یا مرکزیت کے تحت لانے کے منصوبہ پر عمل کیا جارہا ہے جیسا کہ چین، روس، ترکی وغیرہ میں ہے لیکن سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ اور کرناٹک اسمبلی انتخابات کے نتائج نے ڈبل انجن سرکار کے اس منصوبہ کو خاک میں ملا دیا۔