را م پنیانی
یادگارِ محبت تاج محل کو دنیا کے سات عجوبوں میں سے ایک عجوبہ سمجھا جاتا ہے ۔ یہ عالمی نقشہ پر ہندوستان کی یک بڑی علامت ایک بڑی پہچان اور مخصوص شناخت ہے ۔ اِس فن تعمیر کے شاہکار عمارت کو سنگ مرمر پر تراشی گئی ایک نظم بھی کہا جاتا ہے۔ نوبل لاریٹ گرو رابندر ناتھ ٹیگور نے تاج محل کے بارے میں کیا خوب کہا ۔ انھوں نے تاج محل کی خوبصورتی اور اس کے جمالیاتی حسن کو وقت کے گال پر بہتا قطرۂ آنسو سے تعبیر کیا تھا۔اس کا حُسن اُس کی خوبصورتی اور یادگار محبت کے طورپر اس کی کشش بے مثال ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے کونے کونے سے سربراہان مملکت وزیراعظم سیاستداں ، دانشور ، شعراء و ادیب صحافتی سماجی و حقوق انسانی کے جہدکار ماہرین تعمیرات اور سیاح ایک بڑی تعداد میں ہندوستان کا دورہ کرتے ہوئے محبت کی لازوال اس یادگار عمارت کا نظارہ کرتے ہوئے انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔ تاج محل کو یونیسکو نے ورلڈ ہیرٹیج قرار دیا ہے اور اس کی دیکھ بھال آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کرتی ہے ۔ حقیقت ہے کہ یہ سنگ مرمر کا شاہکار ہے ۔ تاج محل کے نمونہ اکثر دورہ کنندہ سربراہانہ مملکت کو بطور تحفہ پیش کیا جاتا ہے اور مختلف ملکوں کے سربراہ اس تحفہ کو یادگار تصور کرتے ہیں ۔
چونکہ اسے مغل حکمراں شاہجہاں نے اپنی چہیتی اہلیہ ممتاز محل کی یاد میں تعمیر کروایا اس لئے یہ عالیشان عمارت جسے دنیا بھر میں ہندوستان کی شان اُس کا وقار سمجھا جاتا ہے ہندو دائیں بازو کی نظروں میں ہمیشہ کھٹکتی رہی ۔ اگرچہ اس کی تاریخی حیثیت و اہمیت پہلے ہی سے محکمہ آثار قدیمہ ( آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا) نے طئے کردی ہے ۔ یہاں تک کہ مودی حکومت میں مرکزی وزیر ثقافت کی حیثیت سے خدمت انجام دینے والے مسٹر مہیش شرما نے 2017 ء میں واضح طورپر کہا تھا کہ تاج محل کوئی شیو مندر کی جگہ نہیں بلکہ ایک مقبرہ ہے ۔ اگر ہم فرقہ پرستوں کے دعوؤں پر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ اس طرح کے تنازعات جان بوجھ کر پیدا کئے جاتے ہیں اور راست طورپر مذہبی منافرت کو بڑھانے کے لئے دائیں بازو کے لیڈران اور نظریہ سازوں کی طرف سے بار بار اُٹھائے جاتے ہیں حالانکہ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) نے بارہا وضاحت کی ہے کہ یہ ایک مقبرہ ہے ، مندر نہیں ۔
تاج محل کے بارے میں پہلا بڑا تنازع اُس وقت پیدا ہوا جب یوگی آدتیہ ناتھ اُترپردیش کے عہدہ چیف منسٹر پر فائز ہوئے اور اُترپردیش کے محکمہ سیاحت نے ریاست کے سیاحتی مقامات سے متعلق ایک کتابچہ شائع کیا اور اس میں تاریخی و سیاحتی مقامات و مراکز کی فہرست پیش کی اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اس فہرست میں دنیا کا ساتواں عجوبہ اور یادگارِ محبت کو شامل نہیں کیا گیا حالانکہ سالانہ 7 تا 8 ملین سیاح تاج محل دیکھنے آتے ہیں اور ہندوستان آنے والے بیرونی سیاحوں میں سے 23 تا 30 فیصد سیاحوں کو اپنی جانب راغب کرنے میں کامیاب ہوتا ہے لیکن افسوس صد افسوس کہ جب ان سے تاج محل کے بارے میں سوال کیا گیاتو اُنھوں نے جواب دیا کہ تاج محل ہندوستانی ثقافت کی نمائندگی نہیں کرتا ۔ اب چلتے ہیں اداکار پریش راول کی طرف ، پریش راول کی ایک فلم آرہی ہے اس فلم کا ٹریلر جاری کیا گیا جس میں دکھایا گیا ہے کہ جیسے ہی تاج محل کی گنبد کو اُٹھایا جاتا ہے تو اس کے نیچے سے ہندوؤں کے بھگوان شیو نمودار ہوتے ہیں ۔ آنے والی فلم ’’دی تاج اسٹوری ‘‘ کے اس ٹریلر سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ فلم تاج محل کو بیجو مہالیہ قرار دینے کی ایک مذموم کوشش ہے جو مبینہ طورپر شاہجہاں نے ایک مندر سے تبدیل کرکے مقبرہ بنایا تھا ۔ اس فلم کے بارے میں اس کی تیاری کرنے والوں کا استدلال ہے کہ تاج محل دراصل ایک ہندو مندر تھا ’’شیومندر ، تیجو مہالیہ‘‘ جس کی تعمیر چوتھی صدی ( اور بعد میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ گیارہویں صدی میں تعمیر کیا گیا ) اور مغل حکمراں شاہجہاں نے اُس مندر کو مقبرہ میں تبدیل کردیا ۔
حیرت اور دلچسپی کی بات یہ ہے کہ پی این اوک فارسی سے ناواقف ہے ۔ شائد اوک یہ اہم نکتہ نظرانداز کرگیا کہ تاج محل کو چوتھی صدی کے کسی محل کے طورپر دوبارہ استعمال کئے جانے سے متعلق اس کانظریہ بالکل غلط ہے ۔ مورخین جیسے Giles Tillotson نے بھی اوک کے نظریہ کو چیلنج کیا اور پرزور انداز میں کہا کہ تاج محل جیسی عمارت کی ساخت اور تکنیکی مہارت مغلوں سے پہلے کے ہندوستان میں سرے سے ہی موجود نہیں تھی ۔ تاج محل کے نیچے موجود 21 خالی کمروں کے پیچھے کارفرما راز کو بھی آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا نے پوری طرح واضح کردیا ۔ فن تعمیر کے لحاظ سے دیکھا جائے تو ان کمروں کا مقصد تاج محل کی عمارت کو مضبوطی فراہم کرنا ہے اور یہ خالی کمرے دیکھ بھال کے کام کیلئے استعمال ہوتے ہیں ۔ یہ وضاحت مودی حکومت میں ہی کی گئی تھی ۔
جہاں تک تاج محل کا سوال ہے یقینا یہ دنیا بھر میں ہندوستانی ثقافتی تہذیب و تاریخ کی خوبصورت علامت ہے ۔ تاج محل کی تعمیر سے متعلق معتبر تاریخی ذرائع سے تفصیلی ریکارڈس دستیاب ہیں ۔ Peter Mondy اور Tavernier جیسے سیاحوں نے اپنے ہندوستانی سفر کے بارے میں جو سفرنامے لکھے اُن میں واضح طورپر لکھا ہے کہ وہ جب ہندوستان پہنچے اور دورے پر نکلے تو اُنھیں شاہجہاں کے غم اور اپنی چہیتی بیوی ممتاز محل کی یاد میں عظیم الشان عمارت تعمیر کرنے کے عزم و ارادہ کے بارے میں پتہ چلا ۔ چنانچہ شاہجہاں نے فن تعمیر کی شاہکار عمارت کی تعمیر کیلئے بہترین معماروں کی خدمات حاصل کی اور اس کے چیف آرکیٹکٹ ایک مسلمان تھے جن کا نام استاد احمد لاہوری تھا اور اُن کے معاون ایک ہندو آرکیٹکٹ تھے ۔ بادشاہ نامہ جو شاہجہاں کی سوانح حیات ہے اس میں تاج محل کے تعمیری منصوبے اور تعمیری عمل کی تفصیلی روداد موجود ہے جس میں بتایا گیا کہ تاج محل کی تعمیر کیلئے منصوبہ بندی اور اس پر عمل درآمد کیلئے ماہرین کی ایک خصوصی ٹیم تشکیل دی گئی جبکہ تاج محل کی تعمیر کیلئے جس زمین کا انتخاب کیا گیا تھا وہ راجہ جئے سنگھ کی تھی ۔ اس زمین کے حصول کے عمل سے متعلق دو بیانات ملتے ہیں ۔ ایک بیان یہ تھا کہ یہ زمین خریدی گئی اور اُس کیلئے مناسب معاوضہ ادا کیا ۔ دوسرا بیان یہ ہے کہ راجہ جئے سنگھ نے شاہجہاں کو بطور تحفہ یہ اراضی پیش کی تھی ۔ تاج محل کی طرز تعمیر ، یہاں کی ہم آہنگ تہذیبی روایات کی شاندار عکاسی کرتی ہیں۔ دوہری گنبد والا اسٹرکچر مغل معماروں کی ایجاد تھا جس کی مثالیں لال قلعہ اور مقبرہ ہمایوں ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کے تاج محل کی تعمیر کیلئے فن تعمیر کے 20 ہزار ماہرین فن دستکاروں کی خدمات حاصل کی گئیں ۔ ویسے بھی مغل انتظامیہ میں تعمیرات کا ایک خصوصی محکمہ یا تعمیرات کا ڈیویژن ہوا کرتا تھا ۔ شمالی ہند کی یہ شاندار عمارتیں کوئی اچانک رونما ہوا کرشمہ نہیں تھیں ۔ اس عمارت کے بارے میں بعض افواہیں مشہور ہیں کہ ان کاریگروں کے ہاتھ کاٹ دیئے گئے تھے لیکن اس طرح کے عجیب و غریب دعوؤں کے کوئی تاریخی ثبوت و شواہد موجود نہیں ہے ۔
شاہجہاں کے دور کے اکاؤنٹس بکس اور دستاویزات ہمیں بتاتی ہیں کہ تاج محل کی تعمیر پر کتنے مصارف آئے ۔ اس دور کے اکاؤنٹ بکس میں مکرانہ سے خریدے گئے سنگ مرمر اور مزدوروں کو ادا کی گئی اُجرتوں کی تفصیلات کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔ بہرحال پی این اوک کی عقل پر ذی ہوش افراد کو نہیں آتی ہے۔ اس نے عالمی ثقافت کو ہندو تہذیب کی جڑوں سے جوڑا ہے ۔ اس کیلئے کرسچن نیٹی کرشنا نیتی ہے ، ویٹکن لفظ ویٹیکا سے آیا ہے اور روم رام سے اخذ کیا گیا ہے اور آر ایس ایس شاکھاؤں میں ایسے کتابچے تقسیم ہوتے ہیں ۔