کئی برسوں کی نمائندگی کے بعد سرکاری حکام حرکت میں ‘ علاقہ میں برقی اور انٹرنیٹ خدمات مسدود ‘ اعتراض پر رکن اسمبلی بہادر پورہ حراست میں
حیدرآباد 10 اگسٹ(سیاست نیوز) حکومت کی جانب سے تالابوں اور سرکاری جائیدادوں کے تحفظ کیلئے قائم کئے گئے ادارہ ’’حیدرا‘‘ کی جانب سے کارروائی میںآج صبح کی اولین ساعتوں میں محکمہ پولیس‘ محکمہ مال ‘ مجلس بلدیہ عظیم تر حیدرآباد ‘ حیدرآباد میٹروپولیٹین ڈیولپمنٹ اتھاریٹی و محکمہ آبپاشی کے عملہ کی جانب سے بم رکن الدولہ ‘ نہر حسینی کے شکم میں جاری تعمیرات کو منہدم کردیاگیا اور بڑے پیمانے پر اس کاروائی کے دوران رکن اسمبلی بہادر پورہ جناب محمد مبین کے علاوہ دیگر کارپوریٹرس کو پولیس نے حراست میں لے کر انہیں شہر کے باہر پولیس اسٹیشن میں شام تک محروس رکھا۔ صبح 6:30 بجے ’حیدرا‘ کی کارروائی میں بتایاجاتا ہے کہ ایک رکن اسمبلی کے زیر تعمیر 5 منزلہ مکان کو بھی منہدم کیاگیا جبکہ بم رکن الدولہ کے شکم میں تعمیرات اور وینچر کو مکمل برخواست کرنے کی کارروائی کا سلسلہ دن بھر جاری رہا۔ ’حیدرا‘ عہدیداروں نے وینچر کو برخواست کرکے شہر کے اس تاریخی تالاب ’بم رکن الدولہ ‘کے تحفظ اور احیاء کے اقدامات کا فیصلہ کیا ہے جبکہ کئی برسوں سے تالاب بم رکن الدولہ اور نہر حسینی کی جملہ 104ایکڑ اراضی کے تحفظ کا مطالبہ کیا جا رہاتھا لیکن لینڈ گرابرس کی جانب سے فروخت کئے جانے کے بعد سینکڑوں ایکڑ اراضیات پر مکانات کی تعمیر عمل میں لائی جاچکی ہے اور چند ماہ سے بم رکن الدولہ کے شکم کی اراضی جو باقی رہ گئی تھی وہ 6ایکڑ اراضی کی بھی فروخت کی جار ہی تھی اور اس سلسلہ میں کورٹ کے احکامات کا حوالہ دیا جا رہا تھا لیکن آج ’حیدرا‘ کی کارروائی کے بعد یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ اس ادارہ کی جانب سے بم رکن الدولہ کے تحفظ و احیاء کیلئے اقدامات کو تیز کیا جاچکا ہے۔ ذرائع کے مطابق ’حیدرا‘ نے بم رکن الدولہ اور نہر حسینی کے دائرہ میں سینکڑوں مکانات کے مالکین کو نوٹس جاری کرکے انہیں اندرون 4ماہ تخلیہ کا حکم دیا ۔ کہا جا رہاہے کہ موجودہ 6 ایکڑ اراضی پر انہدامی کاروائی کا سلسلہ آئندہ تین یوم جاری رہے گا۔ صبح کی اولین ساعتوں میں شروع کی گئی اس کاروائی سے قبل اطراف کے علاقوں کی برقی سربراہی بند کرنے کے علاوہ مواصلاتی نظام کو ٹھپ کرکے موبائیل فونس کے استعمال پر روک لگادی گئی تھی اور انٹرنیٹ کو بند کردیا گیا تھا۔ شاستری پورم اور کنگس کالونی کے مکینوں نے بتایا کہ علاقہ میں برقی بحالی 2بجے کے بعد ہوئی۔ بم رکن الدولہ اور نہر حسینی کے تحفظ میں گذشتہ 15برس سے مسلسل نمائندگیوں کے علاوہ تاریخی تالاب اور نہر کے تحفظ کیلئے تالابوں کے تحفظ کیلئے کام کرنے والی تنظیموں نے عدالت سے رجوع ہونے کے علاوہ عوامی مہم بھی چلائی تھی۔مذکورہ تالاب کے تحفظ میں محترمہ لبنیٰ ثروت نے نیشنل گرین ٹریبونل سے رجوع ہوکر چند ماہ قبل جاری ہائی کورٹ کے احکامات کا حوالہ دیا تھا اور ٹریبونل سے اپیل کی تھی کہ وہ اس تالاب کے تحفظ میں فوری توجہ کے ساتھ اقدامات کا آغاز کرے جس پر نیشنل گرین ٹریبونل کی پرنسپل بنچ نے 4جولائی کو داخل درخواست کی سماعت کے بعد فوری قبضوں کی نشاندہی اور سروے کی ہدایت دی تھی جس پر محترمہ لبنیٰ ثروت نے متعلقہ محکمہ جات کے عہدیداروں کے ہمراہ دورہ کرکے تالاب میں تعمیرات کا سروے کرتے ہوئے 27جولائی 2024کو نیشنل گرین ٹریبونل پرنسپل بنچ چینائی میں رپورٹ داخل کی ۔ بم رکن الدولہ اور نہر حسینی کی تباہی میں سب سے پہلے نیشنل گرین ٹریبونل میں درخواست 2018 میں داخل کی گئی تھی اور ٹریبونل کی ہدایات کے بعد اس وقت کے پرنسپل سیکریٹری محکمہ بلدی نظم و نسق اروند کمار نے رکن پارلیمنٹ حیدرآباد بیرسٹر اسد الدین اویسی کے ہمراہ دورہ کرکے اس تالاب کی تباہی کا جائزہ لیا تھا ۔14 جون 2019 میں رکن پارلیمنٹ حیدرآباد کے ہمراہ محکمہ بلدی نظم و نسق ‘ محکمہ آبرسانی و محکمہ آبپاشی کے عہدیداروں نے تالاب کا دورہ کرکے اس کے تحفظ کے اقدامات کا جائزہ لیا تھا۔اس کے باوجود اس تالاب کو مکمل بند کردیئے جانے کی شکایات پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور جاریہ سال کے اوائل میں ہائی کورٹ کے ذریعہ احکام حاصل کرکے تالاب کو بند کرنے کے اقدامات کا آغاز کیا گیا تھا۔ بی آر ایس اقتدار میں اس تاریخی نہر اور تالاب کے تحفظ میں کوئی کاروائی نہ کئے جانے کی متعدد مرتبہ شکایات نیشنل گرین ٹریبونل میں کی گئی تھی اور فروری 2022 میں نیشنل گرین ٹریبونل دہلی بنچ نے اس مقدمہ کو چینائی ٹریبونل منتقل کیا تھا ۔ رکن اسمبلی بہادر پورہ جناب محمد مبین نے ’حیدرا‘ کی کارروائی پر شدید اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ جب اس اراضی پر تعمیرات کی جارہی تھیں اس وقت متعلقہ محکمہ جات نے کیوں خاموشی اختیار کی تھی اور اب کیوں کارروائی کی جا رہی ہے! بتایا جاتا ہے کہ اس وینچر میں پلاٹس کی فروخت کرنے والوں کی جانب سے اس کو پٹہ اراضی قرار دیا جا رہاہے جبکہ نیشنل گرین ٹریبونل میں پیش استدلال میں کہا گیا کہ اگر کوئی تالاب خشک ہوجاتا ہے تو بھی اس کے شکم میں تعمیرات کی اجازت نہیں دی جاسکتی بلکہ تالاب میں جب تک وہ خشک رہے اس حصہ میں کاشتکاری کی جاسکتی ہے جو کہ تالابوں کے تحفظ میں وضع کردہ قوانین میں واضح طور پر درج ہے۔3