تبلیغی جماعت کو چھیڑنے کا انجام عرب ملکوں میں برہمی

   

محمد ریاض احمد
کورونا وائرس کو تبلیغی جماعت اور مسلمانوں سے جوڑنے کی پوری پوری کوشش کی گئی اور اس سلسلہ میں وہ لوگ بھی آگے رہے جو خود کو بہت بڑا دانشور اور انتہائی سیکولر مانتے ہیں۔ اس سلسلہ میں وہ لوگ جانے انجانے میں تبلیغی جماعت کے خلاف قومی سطح پر کئے جانے والے پروپگنڈہ کا شکار ہوگئے۔ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ 1920 میں مولانا الیاس جیسی شخصیت نے تبلیغی جماعت کا قیام عمل میں لایا تھا۔ اس جماعت کا مقصد لوگوں کو دعوت دین دینا تھا اور آج بھی تبلیغی جماعت دعوت کے مقدس فریضہ کو انجام دینے میں مصروف ہے۔ مولانا الیاس کا 1920 میں لگایا گیا یہ پودا اب تناور درخت میں تبدیل ہوچکا ہے اور اس کی سرگرمیاں ہندوستانی سرحدوں کو عبور کرتے ہوئے دنیا بھر میں عام ہوگئی ہیں۔ تبلیغی جماعت کے داعی کبھی نفرت کی سودا گری نہیں کرتے، لوگوں کو توڑنے کا قبیح فعل انجام نہیں دیتے بلکہ یہ لوگ دلوں کو جوڑتے ہیں۔ جہاں تک تبلیغی جماعت کی سرگرمیوں کا سوال ہے دنیا کے تقریباً ملکوں میں اس جماعت کی شاخیں موجود ہیں جو مسلسل دعوت دین کے مقدس کام میں مصروف رہتی ہیں۔ یہ جماعت غریب اور امیر، ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک میں بڑے ہی سلیقے اور ڈسپلن کے ساتھ سرگرم ہے۔ اس کی امن پسندی، غیر معمولی ڈسپلن اور سادگی سے غیر مسلم بھی متاثر ہیں۔ ہم یہاں صرف ہندووں کی بات نہیں کررہے ہیں بلکہ عیسائیوں کے بشمول کئی مذاہب کے لوگ تبلیغی جماعت کی ان خوبیوں تسلیم کرتے ہیں۔ ویسے بھی تبلیغی جماعت نے کبھی بھی لوگوں کی رضا کے لئے کام نہیں کیا بلکہ اس کا قیام ہی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو راضی کرنے کے لئے عمل میں آیا ۔ ملک کی انٹلی جنس ایجنسیاں بھی اچھی طرح جانتی ہیں کہ تبلیغی جماعت کوئی انتہاء پسندوں یا تخریب پسندوں کی جماعت نہیں ہیں جو مذہب کی بنیاد پر نفرت پھیلاتے ہوئے دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو نشانہ بناتی ہے۔ یہ جماعت زمین کے نیچے اور آسمان کے اوپر کی بات کرتی ہے۔ اللہ کے بندوں کو نیکی کی دعوت دیتی ہے۔ انہیں محسن انسانیت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے کی ترغیب دیتی ہے۔ لیکن ہندوستان میں یہ دیکھا گیا کہ 2014 کے بعد سے مسلمانوں کی دینی و فلاحی تنظیموں کو چن چن کر نشانہ بنایا جارہا ہے۔ عیسائی تنظیموں کے خلاف بھی آوازیں اٹھائی گئیں اور یہ کہا گیا کہ عیسائی اور مسلم تنظیمیں بڑے پیمانے پر تبدیلی مذہب کا کام کررہی ہیں۔ اس سلسلہ میں خاص طور پر مبلغین اور داعیوں کو نشانہ بنایا گیا۔ ڈاکٹر ذاکر نائک اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔

بہرحال ہم بات کررہے تھے تبلیغی جماعت کی، اس سلسلہ میں کچھ بے وقوف دانشور جنہیں ہم بلا شبہ ’’دان شور‘‘ کہہ سکتے ہیں تبلیغی جماعت کا تقابل آر ایس ایس اور شدھی تحریک سے کرنے لگے ہیں اور تبلیغی جماعت پر مذہبی بنیاد پر عوام کو تقسیم کرنے جیسے سنگین الزامات عائد کررہے ہیں حالانکہ 1920 میں قائم تبلیغی جماعت نے اپنے قیام سے آج تک کبھی بھی کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا جس سے ملک و قوم کو نقصان پہنچے۔ جس جماعت نے اپنے اخلاق و کردار کے ذریعہ محبت کی مٹھاس پھیلائی ہے اس پر کورونا وائرس پھیلانے کے الزامات عائد کئے۔ بہرحال بعض نام کے مسلم دانشوروں نے جن کے نام ہم نہیں لینا چاہتے اپنے مضامین اور بیانات کے ذریعہ تبلیغی جماعت کی شبیہہ کو متاثر کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے مضامین سے اسی طرح ملک میں مخالف مسلم جذبات پیدا ہوئے جس طرح گودی میڈیا کی مخالف مسلم مہم سے پیدا ہوئے تھے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان دانشوروں نے تبلیغی جماعت کو ایسے وقت تنقید کا نشانہ بنایا جبکہ اقلیتوں پر ہندوتوا طاقتیں اپنے حملوں میں شدت پیدا کرچکی ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ آر ایس ایس کے بانیوں نے انگریزوں کے لئے کام کیا جبکہ تبلیغی جماعت نے ملک کی آزادی کی لڑائی میں حصہ لیا۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ تبلیغی جماعت نے جدوجہد آزادی کے دشمن کی طرح کام کیا انہیں تبلیغی جماعت کی تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہئے۔ آر ایس ایس خود کو ایک تہذیبی و ثقافتی تنظیم قرار دیتی ہے حالانکہ وہ ایک سیاسی تنظیم ہے اور ملک میں کئی ونگس پر اس کا کنٹرول ہے۔ بی جے پی، آر ایس ایس کی سیاسی ونگ ہے جو ملک کی حکمراں جماعت ہے جبکہ بجرنگ دل آر ایس ایس کے انتہا پسندوں کا ونگ ہے جو مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف فسادات میں ملوث ہوتا ہے۔ آر ایس ایس اکثریت کی سیاست کرتی ہے اور اس کے نظریہ ساز کٹر مخالف مسلم ہوتے ہیں جبکہ ہندوستان میں تبلیغی جماعت آر ایس ایس کے بالکل متضاد ہے وہ صرف مسلمانوں میں کام کرتی ہے۔ سیاست سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں۔

اس کا کوئی لڑاکو ونگ بھی نہیں۔ تبلیغی جماعت پر کبھی بھی اشتعال پھیلانے، فساد برپا یا ہندووں کے خلاف بیانات جاری کرنے کے الزامات عائد نہیں کئے گئے۔ آر ایس ایس اور اس کی ذیلی جماعتیں فرقہ پرستی کا زہر پھیلاتی ہیں اور محبت پھیلانے کا کام تبلیغی جماعت کرتی ہے۔ آر ایس ایس تشہیر کی بھوکی ہے جبکہ تبلیغی جماعت نے کبھی بھی تشہیر کا سہارا نہیں لیا یا شہرت طلب نہیں کی۔ تبلیغی جماعت نے مسلمانوں کو دین کی بنیادی تعلیم فراہم کرنے پر توجہ دی۔ بعض لوگوں نے تبلیغی جماعت پر توہم پرستی کے الزامات عائد کئے جبکہ یہ جماعت توہم پرستی سے پاک ہے۔ مذکورہ نام کے مسلم دانشور نے تبلیغی جماعت کو ملک کے تقسیم کا بھی ذمہ دار قرار دیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 30 جنوری کو ملک کی ریاست کیرالا میں کوروناوائرس سے کسی کے متاثر ہونے کا پہلا واقعہ پیش آتا ہے۔ دوسرا اور تیسرا واقعہ بھی کیرالا میں ہی پیش آتا ہے۔ دوسری طرف وزیر اعظم نریندر مودی گجرات میں 24 فروری کو ٹرمپ کے اعزاز میں بہت بڑے استقبالیہ کا اہتمام کرتے ہیں جس میں 2 لاکھ افراد شرکت کرتے ہیں، تبلیغی جماعت کو چھیڑنے کے ساتھ عالم اسلام میں برہمی کی جو لہر پھیلی ہے اس کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی اور حکومت کو اس کا اندازہ بھی ہوگیا ہے۔ عالم عرب میں تقریباً 80 لاکھ ہندوستانی تارکین وطن ہیں جن میں غیر مسلموں کی اکثریت ہے۔ ان ملکوں میں اعلیٰ عہدوں پر غیر مسلم ہندوستانی فائز ہیں اور کاروبار پر بھی چھائے ہوئے ہیں۔ سالانہ 85 ارب ڈالرس بیرونی ممالک سے ہندوستانی رقم روانہ کرتے ہیں جس میں سے 60 ارب ڈالرس جی سی سی ممالک سے بھیجے جاتے ہیں۔ مسلمانوں اور اسلام کے خلاف گودی میڈیا کی مہم اور فرقہ پرستوں کی حرکتوں نے عرب ملکوں میں ہندوستانیوں کے لئے خطرہ پیدا کردیا ہے۔ متحدہ عرب امارات میں متعین ہندوستانی سفیر مسٹر پون کپور نے ٹوئٹر پر خلیج میں مقیم ہندوستانیوں سے درخواست کی ہے کہ وہ اسلاموفوبیا پر مبنی پوسٹس سے گریز کریں کیونکہ یہاں ان کی روٹی روزی پائی جاتی ہے۔ دنیا نے دیکھ لیا کہ تبلیغی جماعت کو چھیڑنے یا اسے کورونا وائرس سے جوڑنے کا نتیجہ عرب ملکوں کے شدید ردعمل کے طور پر ظاہر ہوا ہے جس کے بعد ہی مودی یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ کورونا کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔
[email protected]