رام پنیانی
ایرک جان اریسنٹ ہابس وام کے بارے میں کون نہیں جانتا وہ ایک برطانوی مارکسٹ مورخ تھے جنہوں نے صنتی سرمایہ دارانہ نظام سوشلزم اور قوم پرستی کے عروج پر بہت کچھ لکھا۔ مصر میں ایرک جان کی پیدائش ہوئی اپنا بچپن وپانا اور برلن میں گذارا پھر وہ انہیں گود لینے والے خاندان کے ہمراہ لندن منتقل ہوگئے۔ نسل پرستی اور قوم پرستی کے بارے میں ان کا ایک مشہور قول کچھ یوں ہے ’’تاریخ (نسل پرستی) قوم پرستی کے لئے اتنی ہی اہم ہے جیسے پوست کے بیج افیون کی لت میں مبتلا شخص کے لئے اہم ہوتے ہیں، اگر دیکھا جائے تو بڑی تیزی سے دائیں بازو کی طاقتیں فروغ پا رہی ہیں۔ اس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ دائیں بازو کے نظریہ ساز تاریخ کی تعمیر کے لئے ایک مماثل رفتار رکھتے ہیں جو ان کے غیر مشمولیاتی سیاسی ایجنڈہ کے مطابق اور اپنی ماضی کی شان و شوکت سے متعلق بلند بانگ دعوؤں کے لئے موزوں ہوتی ہے۔ اس سمت میں ہندوستانی قروں وسطیٰ کی تاریخ کو خاص طور پر یہ ظاہر کرتے ہوئے کہ ہندوستانی تاریخ کا قرون وسطی کا دور اسلامی سامراج کا دورہ تھا۔ ان لوگوں نے مسلم بادشاہوں کو بدنام کرتے ہوئے انہیں ظالموں کے طور پر پیش کیا اور ان کی تاریخ کو مسخ اور توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہوئے اپنے ناپاک عزائم اور مقاصد کی تکمیل کی۔ ان لوگوں نے جھوٹ پھیلائی جس سے آج کے مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا کرنے میں مدد ملی۔ اگر ہم ہندوستانی تاریخ کا گہرائی سے مطالعہ کریں اس کا بغور جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ہندوستان کی قدیم تاریخ کا بھی جو ایک طرح سے ان کے لئے سنہری دور تھا ’’آر پاوں اور ان کے آبا و اجداد کو سرزمین ہند کے مقامی لوگوں کی حیثیت سے پیش کیا گیا۔ (حالانکہ آرپائی باشندے کہاں سے ہندوستان آئے اس بارے میں مورخین اچھی طرح جانتے ہیں اور وہ یہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہندوستان کے حقیقی باشندے دراوڈین تھے) تحریک آزادی کی طرف آتے ہوئے ان لوگوں نے سب سے پہلے نہرو پر توجہ مرکوز کی جو ہندوستان میں سیکولرازم کو بیان کرنے اور اس پر عمل کرنے والے ایک بڑی شخصیت تھی۔ وہ جانتے تھے ہندوستان میں سیکولرازم پر عمل کرنا کوئی آسان کام نہیں کیونکہ ہندوستانی معاشرہ کا ایک بہت بڑا حصہ اندھی مذہبیت اور توہم پرستی کی سخت گرفت میں ہے۔ نہرو وہ فرد تھے جنہوں نے اکثریتی (ہندو) فرقہ واریت کے خطرہ کو دیکھ لیا تھا اور اس فرقہ واریت کو فسطائیت کے برابر قرار دیا تھا۔ انہوں نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ یہ بھی کہا کہ اقلیتی فرقہ واریت بدترین علیحدگی پسندی ہے۔ نہرو کے اتالیق گاندھی کو اگرچہ آر ایس ایس کے ایک تربیت یافتہ اور ہندو مہا سبھا کے لئے کام کرنے والے جنونی نے قتل کیا لیکن عالمی سطح پر انہیں بدنام نہیں کیا جاسکے ان کی شبیہہ کو فرقہ پرست عناصر خراب کرنے میں بری طرح ناکام رہے۔ اس دور میں ہندوستانی عوام کے قلوب میں گاندھی جی کی محبت اپنے نقطہ عروج پر تھی۔ اب جیسا کہ فرقہ وارانہ دائیں بازو کو لگتا ہے کہ وہ مضبوط قدموں پر کھڑا ہے اس کے نظریہ ساز وہ گاندھی جی کی چند خامیوں کو نمایاں طور پر پیش کرنے اور جدوجہد آزادی میں ان کے کردار کو گھٹاکر پیش کرنے کے عمل کا آغاز کردیا۔ ان لوگوں کا ایک ہی مقصد رہا کہ کسی نہ کسی طرح تحریک آزادی میں گاندھی جی کے کردار کو مسخ کریں اور ہندوستانیوں کے اذہان و قلوب میں یہ تاثر پیدا کریں کہ گاندھی نے جدوجہد آزادی میں کوئی نمایاں کردار ادا نہیں کیا چنانچہ 30 جنوری 2025 کو جب قوم، بابائے قوم کو خراج عقیدت پیش کررہی تھی تب کئی پورٹلس یہ پروپگنڈہ کرنے کے لئے ویڈیوز جاری کررہے تھے کہ ہندوستان میں آزادی حاصل کرنے گاندھی کی صرف ایک کوشش تھی دوسری طرف مختلف پوڈکاسٹ اور سوشل میڈیا چینلز پر یہ پروپگنڈہ کررہے تھے کہ انگریزوں کے ہندوستان چھوڑنے پر گاندھی جی کی کوششوں کا معمولی سا اثر پڑا، یعنی یہ لوگ اس بات کے خواہاں رہے اور ہیں کہ لوگوں کے دلوں میں گاندھی کی جو عزت و عظمت ہے اور جدوجہد آزادی میں گاندھی کے نمایاں کردار کو وہ تسلیم کرتے ہیں اس رجحان کا خاتمہ ہو جائے لوگوں کے دلوں سے گاندھی کی محبت اور عقیدت کم ہو جائے یا ختم ہو جائے۔
آپ اور ہم سب نے اس بات کا مشاہدہ کیا ہے کہ پچھلے چند برسوں سے ہمارے ملک میں گاندھی جی کے قاتل ناتھورام گوڈسے کو مہاتما کے طور پر پیش کئے جانے کی بھرپور کوشش ہو رہی ہے خاص طور پر سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمس پر گوڈسے کو ایسے پیش کیا جارہا ہے جیسے وہ بابائے قوم مہاتما گاندھی کا قاتل نہیں بلکہ خود مہاتما ہے۔ مثال کے طور پر ٹوئٹر پر گوڈسے کے چاہنے والے اور اس کی قبیل کے عناصر نے ’’مہاتما گوڈسے امر رہیں‘‘ جیسے پیامات ٹوئٹ کئے ہیں۔ انتہائی تکلیف دہ بات تو یہ رہی کہ گوڈسے کو مہاتما کے طور پر پیش کرنے والے قبیل کی پونم پراسون پانڈے نے گاندھی جی کے پتلے پر علامتی گولیاں چلائیں اور ساری دنیا نے دیکھا کہ علامتی گولیاں گاندھی کے علامتی پتلہ پر چلانے کے ساتھ ہی علامتی طور پر پتلہ سے خون نکلنے لگا۔ ہم اسے گاندھی جی کا تمثیلی قتل بھی کہہ سکتے ہیں 30 جنوری کو گاندھی جی کی برسی کو ہمارے ملک میں یوم شہیداں کے طور پر منایا جاتا ہے۔ قومی سوگ کے طور پر منایا جاتا ہے 30 جنوری کو ٹھیک 11 بجے صبح سائرن بجایا جاتا ہے اور دو منٹ کی خاموشی منائی جاتی ہے۔ اس مرتبہ صبح 11 بجے 2 منٹ کی خاموشی سے متعلق حکومت مہاراشٹرا کا جو سرکیولر جاری کیا گیا اس میں مہاتما گاندھی کے نام کا حوالہ تک نہیں دیا گیا جیسے کہ ہم سب 30 جنوری کو گاندھی جی کے شہید ہونے کا یوم شہادت مناتے ہیں اور اس دوران گاندھی جی سے متعلق باتیں اور یادیں ہمارے ذہنوں میں عود کراتی ہیں۔ مثال کے طور پر جب کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ گاندھی جی کو مہاتما کا لقب کس نے دیا؟ تو ہمارے ذہنوںمیں اس سوال کا فوری یہ جواب ابھر آتا ہے کہ گرو رابندر ناتھ ٹائیگور نے انہیں مہاتما کا اعزاز یا خطاب دیا تھا۔ اس کے برعکس یہ پروپگنڈہ کیا جاتا ہے کہ گاندھی اور کانگریس نے نیتاجی سبھاش چندر بوس کو بالکلیہ طور پر نظرانداز کردیا تھا جبکہ حقیقت یہ ہیکہ نیتاجی سبھاش چندر بوس اور کانگریس کے درمیان انگریزوں کے خلاف جدوجہد سے متعلق حکمت عملی کو لے کر دونوں میں اختلافات پائے جاتے تھے لیکن نیتاجی اور کانگریس کا ایک ہی مقصد تھا کہ ملک کو ہر صورت میں انگریزوں کی غلامی سے آزادی دلائی جائے۔ یہ نیتاجی ہی تھے جنہوں نے گاندھی جی کو ’’بابائے قوم‘‘ کہہ کر مخاطب کیا انہوں نے اپنی آزاد ہند فوج INA کے ایک بٹالین کو گاندھی بٹالین کا نام دیا تھا۔ وہ گاندھی اور کانگریس ہی تھے جنہوں نے آزاد ہند فوج کے قیدیوں کے مقدمات لڑے اور اس کے لئے بھولا بھائی دیسائی، کیلاش ناتھ کٹجو اور جواہر لال نہرو جیسے مشہور و معروف ماہرین قانون کے ساتھ ایک کمیٹی بنائی۔ فرقہ پرست طاقتیں اور ان کے آلہ کاروں نے یہ پروپگنڈہ بھی کیا کہ بھگت سنگھ کو پھانسی سے بچانے گاندھی نے کچھ نہیں کیا، ان لوگوں نے اس حقیقت کو چھپایا کہ وہ گاندھی ہی تھے جنہوں نے لارڈرارون کو لکھا کہ بھگت سنگھ کی پھانسی کو منسوخ کردیا جائے جس پر لارڈرارون نے گاندھی کی درخواست کو قبول کرنے سے معذوری کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب میں تعینات تمام انگریز عہدیداروں نے اس بات کی دھمکی دی ہیکہ اگر گاندھی کی درخواست کو قبول کیا جاتا ہے تو وہ تمام کے تمام مستعفی ہو جائیں گے۔ فرقہ پرستوں نے گاندھی کو بدنام کرنے کی کافی کوشش کی، گاندھی جی نے 1920 میں تحریک عدم تعاون شروع کی جس کا مقصد یہ تھا کہ تحریک آزادی سے عام ہندوستانیوں کو جوڑا جائے۔ گاندھی کے مخالفین نے تحریک عدم تعاون کو غیر موثر قرار دیا کیونکہ چاوری چورا واقعہ کے باعث اس تحریک سے دستبرداری اختیار کی گئی تھی۔ دراصل ایک ہجوم نے ایک پولیس اسٹیشن کو نذر آتش کردیا تھا نتیجہ میں کئی پولویس والے موت کے منہ میں پہنچ گئے تھے۔ فرقہ پرست یہ بھی الزام عائد کرتے ہیں کہ تحریک خلافت کو گاندھی کی تائید و حمایت سے ان کے حوصلے پست ہوگئے کیونکہ تحریک خلافت ترکی میں خلافت عثمانیہ کی بحالی کی تائید میں تھی۔ اس بات کو یاد رکھا جائے کہ گاندھی جی کی تحریک خلافت کو تائید و حمایت سے مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد انگریزوں کے خلاف عوامی جدوجہد میں شامل کیا۔ موپیلا بغاوت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ہندوؤں کے خلاف مسلمانوں کی جدوجہد تھی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ بغاوت غریب مسلم کسانوں کی جانمیز (زمینداروں جو زیادہ تر ہندو تھے) کے خلاف بغاوت تھی برطانوی حکام دراصل زمینداروں کے مفادات کا تحفظ کررہے تھے۔ جہاں تک 1930 کی سول نافرمانی تحریک کا سوال ہے اس تحریک کے نتیجہ میں گاندھی۔ اردون معاہدہ کیا گیا۔ اس معاہدہ سے ہندوستان کی جدوجہد آزادی پر مثبت اثرات مرتب ہوئے۔ یہ بھی ایک الزام ہیکہ نمک ستیہ گرہ (مارچ) نمک پر محاصل عائد کئے جانے کا انسداد نہ کرسکا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس مارچ کے بعد لوگ خود نمک بناسکے۔ جہاں تک 1942 کی کرو یا مرو ہندوستان چھوڑ دو تحریک کا سوال ہے یہ سچ ہیکہ گاندھی اور کانگریس کے اہم لیڈران گرفتار کرلئے گئے۔ اس تحریک نے پرتشدد موڑ اختیار کیا۔ ایک بات ضرور ہیکہ اسی تحریک نے انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے سے متعلق ہندوستانیوں میں بڑے پیمانہ پر شعور بیدار کیا۔