را م پنیانی
یوم جشن آزادی 2024 ء کے موقع پر این ڈی اے حکومت نے ہر گھر ترنگا ( ہر گھر پر قومی پرچم ) کے تیسرے ایڈیشن کا اعلان کیا اور عوام پر زور دیا کہ وہ جشن یوم آزادی کے موقع پر اپنے گھروں پر قومی پرچم لہرائیں ۔ واضح رہے کہ ہر گھر ترنگا مہم کا آغاز سال 2022 ء میں بی جے پی حکومت نے کیا ۔ جس وقت وزیراعظم نریندر مودی اور اُن کی حکومت نے گھر گھر ترنگا مہم کا اعلان کیا تب یہ تمام ہندوستانیوں کیلئے ایک بڑی حیرت کی بات بن گئی ۔ ہر کوئی حیرت میں پڑگیا کیونکہ بی جے پی کی سرپرست و نظریاتی تنظیم آر ایس ایس نے ترنگا کی قومی پرچم کی حیثیت سے مخالفت کی تھی ۔ آر ایس ایس نے پرزور انداز میں ترنگے کی مخالفت کی تھی تاہم 26 جنوری 2001 ء کو ایک واقعہ پیش آیا جس میں 3 جہدکاروں بابا مینڈھے ، رمیش کلامبے اور دلیپ چٹوانی دیگر کے ہمراہ مبینہ طورپر ریشم باغ میں آر ایس ایس کے دفتر میں داخل ہوگئے اور وہاں قومی پرچم لہرایا ۔ اس دوران حب الوطنی کے نعرے بھی بلند کئے ۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اس ضمن میں ان لوگوں کے خلاف نہ صرف ایک پولیس کیس درج کیا گیا بلکہ اُنھیں جیل میں ڈالدیا گیا (مقدمہ نمبر 176ناگپور 2001 ) تاہم ان تمام کو بری کردیا گیا ۔ اس طرح آر ایس ایس جس نے 51 برسوں تک اپنے ہیڈکواٹر پر قومی پرچم لہرانے سے گریز کیا تھا اس رجحان کا اختتام عمل میں آیا ۔
یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ تحریک آزادی کے دوران ترنگا ( جس کے وسط میں چکرا ہوا کرتا تھا ) منظرعام پر لایا گیا اور جب جواہر لال نہرو کانگریس کے لاہور سیشن 1929 ء میں انڈین نیشنل کانفرنس کے صدر بنے تب انھوں نے ساری قوم پر زور دیا کہ 26 جنوری کو پرچم کشائی انجام دیتے ہوئے یوم جمہوریہ منائیں اس کے متضاد کے بی ہیڈگوار نے 21 جنوری 1930 ء کو بھگوا جھنڈا ( زعفرانی پرچم ) لہرانے کیلئے سرکیولر جاری کیا جس کے ذریعہ آر ایس ارکان کو یہ ہدایت دی گئی کہ وہ شاکھاؤں میں 6 بجے شام تک جمع ہوں اور زعفرانی پرچم ( بھگوا دھوج ) کو پرنام کریں۔ ان کا استدلال تھا کہ زمانہ قدیم سے زعفرانی پرچم ہندو ملک و قوم کی نمائندگی کرتا ہے ، ایسے میں ہمیں ایک نئے پرچم کی ضرورت نہیں ۔
بہرحال جدوجہد آزادی میں حصہ لینے والے تمام مجاہدین آزادی نے قومی ترنگا اپنایا سوائے اُن لوگوں کے جنھوں نے نوآبادیاتی طاقتوں کے خلاف جدوجہد آزادی سے خود کو دور رکھا تھا ۔ مثال کے طورپر مسلم لیگ ( سبز پرچم ) اور آر ایس ایس (زعفرانی پرچم ) ، ہندو مہاسبھا کے ساورکر نے بھی زعفرانی پرچم کا مطالبہ کیا ۔ آر ایس ایس کے دوسرے سرسنچالک ایم ایس گولوالکر نے آر ایس ایس کی آئیڈیالوجی کو آگے بڑھایا اور زعفرانی پرچم کو ہی قومی پرچم کے طورپر پیش کیا ۔ انھوں نے اس بارے میں کچھ یوں کہا ’’یہ زعفرانی پرچم ہی ہے جس نے ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی نمائندگی کی اور ہمارا یہ مضبوط ایقان ہے کہ آخرکار ساری قوم اسی زعفرانی جھنڈے کے آگے سر تسلیم ختم کرے گی ‘‘۔
ہر مرحلہ پر آر ایس ایس کے غیرسرکاری ترجمان اپنے اداریئے شائع کرتا رہتا ہے جس میں ترنگا کی مخالفت کرتے ہوئے زعفرانی پرچم کو برقرار رکھنے کی وکالت کی جاتی ۔ واضح رہے کہ فلیگ کمیٹی ڈاکٹر راجندر پرساد کی قیادت میں قائم کی گئی جس کے ارکان میں سی راجگوپال چاری ، مولانا ابوالکلام آزاد ، کے ایم منشی اور ڈاکٹر بی آر امبیڈکر شامل تھے ۔ اس کمیٹی نے تمام دیگر تجاویز پر غور کیا اور کانگریس کے پرچم ترنگا کو قطعیت دینے سے اتفاق کیا ۔ اس میں چکرا کی جگہ 24 اسپوکس پر مشتمل اشوک چکر کو شامل کیا گیا ۔ دستورساز اسمبلی میں قومی پرچم کیلئے قرارداد پیش کرتے ہوئے نہرو نے ہندوستانی تاریخ اور ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی بھرپور ستائش کی اور ماضی کی قومی پرچم کی شاندار روایت اور مستقبل کی اُمید کے طورپر دیکھا ۔ انھوں نے اپنے تاریخی خطاب میں جو عوام کے دلوں کو چھونے والا خطاب تھا غلامی کی زنجیروں سے آزاد ہونے کیلئے ہندوستانی عوام کی جانب سے دی گئی عظیم قربانیوں کا حوالہ بھی دیا ۔ انھوں نے اسے اشوکا اور اُن کی عالمگیر شہرت کے ساتھ ساتھ اُن کے پیام امن سے بھی جوڑا اور اس میں عالمی برادری کے لئے ایک پُل کو دیکھا ۔ پنڈت جواہر لال نہرو کے مطابق ہم نے ایک ایسے قومی جھنڈہ کے بارے میں سوچا جو اپنے مجموعہ اور اپنے الگ حصوں میں کسی نہ کسی طرح قوم کی روح ، قوم کی روایت ، اس ملی جلی روح اور روایت کی نمائندگی کرے گا جو ہندوستان میں ہزاروں برسوں سے پروان چڑھی ہے ۔ ہم نے اس پرچم کے ساتھ نہ صرف اس نشان بلکہ ایک لحاظ سے اشوکا کا نام جوڑا ہے جو نہ صرف ہندوستان کی تاریخ بلکہ عالمی تاریخ کے سب سے شاندار ناموں میں سے ایک ہے ۔ دنیا بھر میں اشوکا کی شہرت ہے ، اس کے باوجود آر ایس ایس ، سنگھ پریوار ہندو قوم پرست نظریہ کا جاپ جاری رکھے ہوئے ہے ۔
گولوالکر نے اپنی کتاب Bunch of Thoughts میں لکھا کہ آزادی کے بعد بھی وہ آر ایس ایس ہی تھی جس نے ترنگا کو قومی پرچم کے طورپر قبول کرنے سے انکار کیا ۔ گولوالکر نے قومی پرچم کے طورپر ترنگے کے انتخاب کی مذمت کرتے ہوئے Drifting and Drifting کے زیرعنوان Bunch of Thoughts میں لکھا کہ ہمارے رہنماؤں نے ملک کے نئے قومی پرچم کے طورپر ترنگا کا انتخاب کیا ہے۔ ان لوگوں نے آخر ایسا کیوں کیا ہے یہ صرف Drifting اور Imitating کا ایک کیس ہے ۔ ہمارا ملک ایک قدیم اور عظیم ملک ہے جس کا ایک شاندار ماضی رہا ہے ۔ ایسے میں کیا ہمارے پاس اپنا کوئی جھنڈا نہیں تھا ۔ ان ہزاروں برسوں میں ہمارا کوئی قومی نشان نہیں تھا ۔ کوئی قومی علامت نہیں تھی ۔ بے شک ہمارا جھنڈا تھا ، ہمارا نشان بھی تھا تو پھر ہمارے ذہنوں میں یہ سراسر خلاء کیوں ہے ۔ ساورکر نے بھی ترنگا کو قومی جھنڈے کے طورپر قبول کرنے سے انکار کردیا تھا ، یہاں تک کہ اس نے قومی ترنگا کا بائیکاٹ کرنے پر زور دیا تھا ۔
22 ستمبر 1941 ء کو ایک بیان جاری کرتے ہوئے ساورکر کا کہنا تھا کہ جہاں تک قومی جھنڈے کا سوال ہے ہندو صرف وہی جھنڈہ کو جانتے ہیں جو ہندوازم کی نمائندگی کرتا ہے ۔ وہ جھنڈا کوندا لینی کرپا ننکت ہے جس پر OM اور سواستک کا نشان ہے اور یہ ہندو نسل کی قدیم ترین علامت اور نشان ہے ۔ یہی پالیسی یہی پرچم صدیوں سے چلا آرہا ہے اور ہندوستان بھر میں اس کااحترام کیا گیاہے ۔ ایسے میں ایسے کسی بھی مقام یا تقریب میں جہاں اس پرچم کا یا جھنڈا کا احترام نہیں کیا جاتا اس کا ہندو مہاسبھا کے ارکان کی جانب سے بائیکاٹ کیا جانا چاہئے ۔
ایک بات ضرور ہے کہ آر ایس ایس اور اس کے نظریہ ساز ہمارے قومی پرچم کی شدت سے مخالفت کرتے رہے لیکن مودی کی زیرقیادت بی جے پی حکومت نے جس طرح بڑی ہشیاری کے ساتھ ہر گھر ترنگا مہم کا اعلان کیا اس کے باوجود اس (بی جے پی ) نے ہندو قوم پرستی سے متعلق اپنا اہم ترین ایجنڈہ تبدیل نہیں کیا۔ ایک طرف وہ ہر گھر ترنگا کا اعلان کرتی ہے اور دوسری طرف اُس نے عوام کے نفسیات اُن کے مذہبی جذبات سے کھیلتے ہوئے ایسی تقاریب اور جشن کا بھی اہتمام کیا جو تخریبی ایجنڈہ کو آگے بڑھاتے ہیں ۔ مثال کے طورپر مودی حکومت نے (14 اگسٹ ) کو تقسیم ہند کی ہولناک یادوں کے دن کے طورپر منانے کا سلسلہ شروع کیا جس کا مقصد یہ پروپگنڈہ کرنا ہے کہ تقسیم ملک ہندوؤں کیلئے سانحہ کا باعث بنا تھا جبکہ اُس نے تقسیم ملک کے دوران مسلمانوں کا جو جانی و مالی نقصان ہوا اس بارے میں مجرمانہ خاموشی اختیار کی ۔ اس کے ساتھ ہی بی جے پی نے اپنے مقاصد اور ایجنڈہ کی تکمیل کیلئے 25 ڈسمبر کو یوم بہتر حکمرانی منانے کا اعلان کیا اور اسے اٹل بہاری واجپائی کی یوم پیدائش کے طورپر منانے کا اعلان کیا ۔ اس طرح کی تقاریب دراصل کرسمس تقاریب کی اہمیت و افادیت کو کم کرنا ہے ۔ آپ اور ہم نے ایسے کئی مناظر دیکھے کہ فرقہ پرست کس طرح ہمارے ملک کے قومی جھنڈے کو جان بوجھ کر مساجد کی میناروں پر لہرانے کی کوشش کررہے ہیں خاص طورپر رام نومی کے ایام میں وہ اس طرح کی حرکتیں کرتے رہتے ہیں ۔ بی جے پی صرف اپنے عزائم کی تکمیل کیلئے ہر گھر ترنگا مہم کا نام لے رہی ہے جبکہ اسے اس پرچم میں چھپے ہوئے قربانیوں ، امن اور کثرت میں وحدت کے پیام کا پتہ ہی نہیں ۔