پروفیسر اپوروانند
پارلیمنٹ کے باہر19 ڈسمبر کو حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی نے جو کچھ کیا اس کی سنگینی کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور اس کیلئے بطور اشارہ یہ بتانا کافی ہے کہ بی جے پی ہر عوامی تحریک ہو یا پھر اپوزیشن کا احتجاج ان موقعوں پر تشدد کا سہارا لیتی ہے تاکہ اس کے خلاف شروع کردہ عوامی تحریک ختم ہوجائے اور اپوزیشن جماعتیں احتجاج کرنے سے گریز کریں۔ آپ کو ایک اور بات بتانا چاہوں گا کہ تشدد کے بعد ہمیشہ یہی دیکھا گیا کہ شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں اور دو فریق بن جاتے ہیں اور پھر دوسرے فریق کو وضاحت کرنی پڑتی ہے۔
19 ڈسمبر کو پارلیمنٹ کے باہر جو بھی ہوا اس بارے میں ایک دو الفاظ میں صرف اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ آزاد ہند کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ حکمراں جماعت اور اس کے ارکان پارلیمان نے قائد اپوزیشن کے خلاف اقدام قتل کا مقدمہ درج کروایا، ان لوگوں نے صرف اسی پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ راہول گاندھی پر ایک گھناؤنا اور گھٹیا الزام بھی عائد کیا کہ راہول گاندھی بی جے پی کی ایک خاتون رکن پارلیمنٹ کا وقار پامال کرنا چاہتے تھے۔ اس طرح کے الزامات کسی اپوزیشن لیڈر اور وہ بھی قائد اپوزیشن کے خلاف عائد کرنا کوئی معمولی بات نہیں بلکہ حکمراں بی جے پی اور اس کے ارکان پارلیمان کی سوچ و فکر کی عکاسی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو کسی مہذب معاشرہ میں اس قسم کے گھٹیا الزامات کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، یہ سب اپنے اپنے ظرف کی بات ہے جو کچھ بھی ہوا اس میں ایک خاتون ایم پی کو گھسیٹ کر راہول گاندھی کے خلاف مقدمہ درج کروانا ہندوستانی جمہوریت اور پارلیمانی روایت کے زوال اور گرتے اقدار کو ظاہر کرتا ہے۔اگر دیکھا جائے تو بی جے پی تشدد کے سہارے جنت نشاں ہندوستان کو تفریق و انتشار کی جانب ڈھکیل رہی ہے۔19 ڈسمبر کو بی جے پی ارکان پارلیمان نے ایک منصوبہ بند انداز میں پارلیمنٹ میں پُرتشدد مناظر پیدا کرکے راہول گاندھی کو گھیرنے کی کوشش کی جس کا مقصد معمارِ دستور بابا صاحب ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کے بارے میں وزیر داخلہ امیت شاہ نے جو مبینہ توہین آمیز ریمارکس کئے اس پر پردہ ڈال کر امیت شاہ کو بچانا ہے۔
بہر حال بی جے پی کے چند ارکان پارلیمنٹ کی شکایت پر راہول گاندھی کے خلاف جہاں اقدام قتل کا مقدمہ درج کیا گیا وہیں درج فہرست طبقات و قبائیل پر مظالم کے انسداد سے متعلق قانون کی ایک دفعہ بھی اس میں شامل کی گئی ۔ آپ کو یہ بھی بتادیں کہ جس خاتون رکن پارلیمنٹ نے اپنے وقار کو پامال کرنے کا راہول پر الزام عائد کیا ہے اُن کا تعلق حسن اتفاق سے ناگالینڈ سے ہے۔ حد تو یہ ہے کہ راہول گاندھی پر عائد الزام کی صداقت کو ثابت کرنے کیلئے بی جے پی کے ایک نہیں بلکہ دو ارکان پارلیمنٹ کو انٹینسیو کیر یونٹ میں شریک کروانا پڑا اور اس پر طرفہ تماشہ یہ کہ جس ہسپتال میں بی جے پی کے دونوں ارکان پارلیمنٹ کو شریک کیا گیا اس کے چیف میڈیکل آفیسر کو بحالت مجبوری یہ بیان دینا پڑا کہ دونوں ارکان پارلیمنٹ کی صحت پر نظر رکھی جارہی ہے اور ان کی حالت میں بہتری لانے کی کوشش کی جارہی ہے ( ایسے ظاہر کیا جارہا ہے جیسے ان ارکان پارلیمنٹ کو گہری چوٹیں آئی ہیں اور ان کی حالت بہت نازک ہے) اس طرح کا تاثر پیدا کرنا انتہائی مضحکہ خیز ہے لیکن اتنا ہی خوفناک بھی ہے مگر اس کے لئے شرط یہ ہے کہ ہم اس تمام قصے کے پیچھے کارفرما ذہنوں کی سازش کو سمجھیں۔
اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر نریندر مودی حکومت اور بی جے پی‘ قائد اپوزیشن راہول گاندھی کے خلاف ہاتھ دھوکر پیچھے کیوں پڑی ہے؟ وہ آخر کس وجہ سے ان کی پارلیمانی رکنیت ختم کروانا چاہتی ہے؟ ان سوالات کے جواب میں آپ کو بتادیں کہ چند برسوں سے راہول گاندھی ‘ مودی، امیت شاہ اور بی جے پی والوں کی نظروں میں کھٹک رہے ہیں۔ شائد راہول کے خلاف اقدام قتل اور ایک خاتون کے وقار کو مجروح کرنے کے الزامات کے تحت جو مقدمہ درج کیا گیا ہے وہ راہول گاندھی کو حکومت کے خلاف جارحانہ انداز میں آگے بڑھنے سے روکنا ہے۔
یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ 18 ڈسمبر تک بابا صاحب امبیڈکر کی مبینہ توہین کے مسئلہ پر وزیر داخلہ امیت شاہ اور بی جے پی کے دوسرے قائدین کوبار بار صفائی پیش کرنی پڑ رہی تھی۔ اس مسئلہ پر ہمارے عزت مآب وزیر اعظم نے ایک نہیں دو نہیں بلکہ چھ ، چھ ٹوئیٹ کرکے امیت شاہ کے بیان کی مذمت کرنے کی بجائے ان کی مدافعت کی۔ جب بی جے پی نے دیکھا کہ امیت شاہ بری طرح پھنس گئے تب اپوزیشن کے جارحانہ تیور کا جواب جارحانہ انداز میں دینے کا انہوں نے فیصلہ کیا۔ ویسے بھی بی جے پی والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ کسی بھی احتجاج کو ختم کرنے کا سب سے موثر حربہ تشدد ہے اور سارے ملک نے دیکھا کہ گذشتہ دس برسوں میں ہر احتجاج کا جواب تشدد سے دیا۔ اس ضمن میں بھیما کورے گاؤں کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ بھیما کورے گاؤں میں دلتوں کا خصوصی اجلاس منعقد ہوا تھا جس میں شرکت کرنے والوں کے خلاف تشدد برپا کیا گیا اور انہیں تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے ان کے حوصلے پست کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ حد تو یہ ہے کہ اس تشدد کیلئے حکومت پر تنقید کرنے والوں کو ذمہ دار قرار دیا گیا اور پھر انہیں جیلوں میں ڈھکیل دیا گیا۔
آپ کو یہ بھی یاد ہوگا کہ اپریل2018 میں دلت تنظیموں نے ’’ بھارت بند ‘‘ کا اعلان کیا تھا اس بند کو ناکام بنانے کی خاطر دلتوں پر تشدد کیا گیا اور بے شمار دلتوں کے خلاف مقدمات درج کئے گئے۔ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاجی مظاہرے کرنے والوں کو بھی جابجا تشدد کا نشانہ بنایا گیا، متعدد مرتبہ احتجاج کرنے والوں پر ظلم ڈھائے گئے۔ شاہین باغ میں خواتین نے تاریخی احتجاج منظم کیا ،حکومت پریشان ہوگئی اور اس احتجاج نے بین الاقومی حکومتوں، اداروں اور میڈیا کی توجہ حاصل کرلی۔ اس احتجاج کو ختم کروانے کیلئے بھی تشدد کا سہارا لیا گیا۔ تین زرعی قوانین کو واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے جب کسانوں نے احتجاج کیا تو ان پر حملے کئے گئے۔ تقریباً 720 کسان شہید ہوئے وہ بدترین تشدد کا نشانہ بنائے گئے، جے این یو،جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی یونیورسٹی ، حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بھی حکومت نے ناقدین پر تشدد کیا اب تک یہ تشدد سڑکوں پر ہوا کرتا تھا لیکن بی جے پی اسے پارلیمنٹ تک لے گئی ہے۔
پارلیمنٹ میں بھاجپا کا غیر شائستہ رویہ، گالی گلوچ اور بدتمیزی کی بے شمار مثالیں دیکھی گئیں۔ ایک اور اہم بات ہے کہ بی جے پی اپوزیشن کو برداشت نہیں کرتی جبکہ جو بھی جماعت اقتدار پر ہوتی ہے وہ بڑے صبر و تحمل سے کام لیتی ہے جبکہ بی جے پی اقتدار میں رہنے کے باوجود اس کے برعکس اقدامات کرتی ہے۔ اگرچہ میڈیا بی جے پی کے پروپگنڈہ کا حصہ بن گیا ہے ایسے میں کانگریس کی زیر قیادتINDIA بلاک میں شامل اپوزیشن جماعتوں کیلئے بی جے پی کی مکروہ سازشوں کو عوام کے سامنے بے نقاب کرنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کانگریس اور دیگر اپوزیشن جماعتیں اس چیلنج کا پوری طاقت کے ساتھ سامنا کریں گی۔