اداروں میں عدم عمل آوری، قانون پر مؤثر عمل آوری میں غیر سنجیدگی
حیدرآباد۔15۔جون(سیاست نیوز) تلنگانہ میں قانون حق تعلیم کا نفاذ یقینی بنانے میں کیوں کوتاہی کی جارہی ہے!کیا خانگی اور کارپوریٹ اسکولوں کے ذمہ داروں کو اس قانون سے استثنیٰ حاصل ہے!کیوں محکمہ تعلیم قانون حق تعلیم پر عمل آوری کے معاملہ میں سردمہری کامظاہرہ کرتے ہوئے خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے!سرکاری محکمہ جات میں صرف محکمہ مال یامحکمہ آرٹی اے ہی بدعنوانیوں میں ملوث نہیں ہیں بلکہ محکمہ تعلیم کے عہدیدار بھی بڑے پیمانے پر بدعنوانیوں میں ملوث ہوتے ہیں جس کے نتیجہ میں کارپوریٹ تعلیمی اداروں اور خانگی تعلیمی اداروں کو ان کی من مانی کرنے کا موقع حاصل رہتا ہے اور ان کے خلاف کی جانے والی شکایات پر کوئی کاروائی نہیں کی جاتی۔ حکومت کے محکمہ تعلیم کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ تعلیمی اداروں میں قانون حق تعلیم کے تحت فراہم کئے جانے والے 25 فیصد طلبہ کو مفت داخلوں کو یقینی بنائے جانے کی تفصیلات حاصل کرتے ہوئے اپنے پاس رکھیں لیکن ریاست تلنگانہ کے کسی بھی ضلع میں اس قانون پر مؤثر عمل آوری کے معاملہ میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا جارہا ہے لیکن اس کے باوجود کسی بھی تعلیمی ادارہ کے خلاف تاحال کوئی کاروائی نہیں کی گئی ۔ سال گذشتہ حکومت تلنگانہ کے محکمہ تعلیم کی جانب سے قانون حق تعلیم کے سلسلہ میں ایک میمو جاری کرتے ہوئے تمام مسلمہ تعلیمی اداروں میں 25 فیصد طلبہ کو مفت داخلوں اور تعلیم کی فراہمی کے اقدامات کی ہدایت دی گئی تھی اس کے باوجود جاریہ تعلیمی سال کے دوران کسی بھی تعلیمی ادارہ میں مفت داخلوں کی کی فراہمی کے سلسلہ میں کوئی اقدامات نہیں کئے گئے اور نہ ہی قانون حق تعلیم پر عمل آوری کے سلسلہ میں اقدامات کو یقینی بنایا گیا ہے بلکہ محکمہ تعلیم کی جانب سے کارپوریٹ اسکولوں کی جانب سے کی جانے والی بدعنوانیوں اور بے قاعدگیوں کے خلاف کسی بھی طرح کی کاروائی سے گریز کیا جاتا رہاہے جبکہ متعدد مرتبہ اس بات کی شکایات موصول ہوئی ہیں لیکن محکمہ تعلیم کے عہدیدار بھی بلدی عہدیداروں کی طرح شکایات کو بنیاد بناتے ہوئے اپنی وصولی میں اضافہ کرنے کے اقدامات کرتے ہیں۔ شہر میں کئی ایسے اسکول ہیں جو کہ چند ایک مقامات پر مسلمہ حیثیت حاصل کرنے کے بعد بیشتر مقامات پر غیر قانونی طو ر پر اسکول چلارہے ہیں اور اس بات کا علم اولیائے طلبہ اور سرپرستوں کو ایس ایس سی امتحانات کی فیس کی ادائیگی کے وقت ہوتا ہے کہ جس اسکول میں ان کے بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں وہ دراصل مسلمہ حیثیت کا حامل نہیں ہے۔ اس کے علاوہ محکمہ تعلیم کی جانب سے ہر سال ریاست کے تمام تعلیمی اداروں کے لئے اس بات کے احکام جاری کئے جاتے ہیں کہ وہ اسکولوں میں درسی کتب‘ یونیفارم ‘ جوتے اور دیگر اسٹیشنری اشیاء کی فروخت نہ کریں لیکن اس کے باوجود کارپوریٹ اور خانگی اسکولوں کی جانب سے اسکولوں میں ہی اپنی درسی کتب ‘ یونیفارم اور دیگر اشیاء کی فروخت کرتے ہوئے طلبہ کو اس بات کا پابند بنایا جاتا ہے کہ وہ تمام اشیاء اسکول سے ہی خریدیں اس سلسلہ میں اولیائے طلبہ اور سرپرستوں کی جانب سے متعدد شکایات کی جاتی رہی ہیں لیکن اس مسئلہ پر بھی کوئی کاروائی نہیں کی جاتی ۔ قانون حق تعلیم کے تحت جن بچوں کو مفت تعلیم کی فراہمی یقینی بنائی جانی ہے ان میں ایس سی ‘ ایس ٹی ‘ بی سی اور اقلیتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے علاوہ ایچ آئی وی سے متاثرہ والدین کے بچوں اور غریب طبقہ کے بچوں کو داخلہ فراہم کیا جانا لازمی ہے اور اس سلسلہ میں عدالت کے واضح احکام بھی جاری کئے جاچکے ہیں اس کے باوجود حکومت اور محکمہ تعلیم کی جانب سے اختیار کردہ خاموشی کے نتیجہ میں کارپوریٹ اور خانگی اسکول اپنی من مانی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔3