بی آر ایس کا موقف کمزور، سیکولر ووٹ تقسیم کرنے بی جے پی کی منصوبہ بندی، مسلم جماعتیں اور تنظیمیں ہوش میں آئیں
حیدرآباد۔/31 مارچ، ( سیاست نیوز) یوں تو لوک سبھا انتخابات ملک بھر میں منعقد ہوں گے لیکن تازہ ترین سیاسی صورتحال میں تلنگانہ بالخصوص مسلم اقلیت کیلئے یہ الیکشن غیرمعمولی اہمیت کا حامل ہے۔ اقلیتوں کو سیاسی پارٹیوں نے عام طور پر اپنے ووٹ بینک کی طرح استعمال کیا ہے اور جب مسائل کی یکسوئی کی بات آتی ہے تو صرف تیقنات سے دل بہلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تلنگانہ میں لوک سبھا انتخابات کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بی جے پی نے تلنگانہ پر ساری طاقت جھونک دی ہے کیونکہ جنوبی ہندوستان کے باب الداخلہ کے طور پر تلنگانہ کا شمار ہوتا ہے۔ بی جے پی کو یقین ہے کہ اگر وہ تلنگانہ میں قدم جمالے تو پھر دیگر ریاستوں میں اس کیلئے راستہ ہموار ہوجائے گا۔ بی جے پی تلنگانہ کی 17 میں 10 نشستوں پر کامیابی کے نشانہ کے ساتھ انتخابی مہم کا آغاز کرچکی ہے۔ اسمبلی چناؤ کے نومبر 2023 میں انعقاد کے بعد ریاست میں سیاسی حالات تبدیل ہوگئے اور بی آر ایس کے 10 سالہ دور حکومت کا خاتمہ ہوا۔ بی آر ایس نے نہ صرف اقتدار کھویا بلکہ اس کے کئی سرکردہ قائدین اور عوامی نمائندوں نے پارٹی کو خیرباد کہتے ہوئے کانگریس میں شمولیت اختیار کرلی۔ بی آر ایس کے موقف میں یہ کمزوری لوک سبھا چناؤ میں اسے تیسرے مقام پر پہنچا دے گی۔ الیکشن کے سلسلہ میں تمام سروے اور اوپینین پول کانگریس اور بی جے پی میں کانٹے کی ٹکر کی پیش قیاسی کررہے ہیں۔ بی آر ایس کے کئی سیٹنگ ارکان پارلیمنٹ نے استعفی دے دیا اور بعض امیدواروں نے لمحہ آخر میں مقابلہ سے دستبرداری اختیار کرلی۔ ریاست کی موجودہ سیاسی صورتحال بی جے پی کیلئے کیک واک ثابت ہوسکتی ہے بشرطیکہ مسلمان اپنے سیاسی شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرقہ پرست طاقتوں کے منصوبہ کو ناکام بنائیں۔ بی جے پی کا منصوبہ یہی ہے کہ سیکولر اور اقلیت کے ووٹ کانگریس اور بی آر ایس میں تقسیم ہوجائیں اور وہ ہندو ووٹ بینک کے سہارے کامیابی حاصل کرلے گی۔ گذشتہ لوک سبھا میں تلنگانہ سے بی جے پی کے 4 ارکان منتخب ہوئے تھے۔ بی جے پی چاہتی ہے کہ سیکولر ووٹ کی تقسیم کے ذریعہ تعداد کو 10 تک پہنچادیا جائے جو پارٹی کیلئے آئندہ اسمبلی چناؤ میں فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے۔ بی جے پی نے بی آر ایس اور کانگریس میں مفاہمت کا الزام عائد کرتے ہوئے رائے دہندوں کو الجھن میں مبتلاء کرنے کی کوشش کی ہے۔ کانگریس پارٹی کا نشانہ 14 نشستیں ہیں جبکہ بی آر ایس اپنے وجود کو برقرار رکھنے کیلئے تین تا چار نشستوں پر کامیابی کے بارے میں پُرامید ہے۔ کانگریس اور بی آر ایس کی اس لڑائی میں بی جے پی نے فائدہ حاصل کرنے آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کی دیگر تنظیموں کو میدان میں اتار دیا ہے۔ آر ایس ایس کیڈر گاؤں گاؤں پہنچ کر ہندوتوا ایجنڈہ کی تشہیر کرکے ہندو ووٹ بینک کو مضبوط بنانے کی مہم پر ہے۔ موجودہ حالات میں کانگریس حکومت کے خلاف عوام میں کوئی ناراضگی نہیں ہے باوجود اس کے اگر سیکولر ووٹ کانگریس اور بی آر ایس میں تقسیم ہوتے ہیں تو راست فائدہ بی جے پی کو ہوگا۔ تلنگانہ کو فرقہ پرست طاقتوں کے چنگل میں جانے سے بچانے کی ذمہ داری اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے۔ مسلمانوں کو اپنے ووٹنگ فیصد میں اضافہ کرنا ہوگا جو عام طور پر 40 فیصد سے زائد نہیں ہوتا۔ شہری علاقوں میں مسلمانوں کی رائے دہی کا تناسب 25 تا 30 فیصد درج کیا گیا جبکہ دیہی علاقوں میں یہ فیصد 40 تک ریکارڈ کیا جاچکا ہے۔ مسلمانوں کو ووٹنگ فیصد کو بڑھا کر کم از کم 60 فیصد کرنے کی ضرورت ہے تاکہ فرقہ پرست طاقتوں کے عزائم کو ناکام کیا جاسکے۔ تمام سروے اور اوپینین پول میں بی آر ایس جب تیسرے نمبر پر ہے تو پھر اقلیتوں کا بی آر ایس کے حق میں ووٹ دینا بی جے پی کو فائدہ پہنچانے کے مترادف ہوگا۔ ووٹنگ فیصد میں اضافہ کے ساتھ مسلمانوں کو چاہیئے کہ وہ بی جے پی کو شکست دینے کی اہلیت رکھنے والی سیکولر پارٹی کے امیدوار کے حق میں متحدہ رائے دہی کریں تاکہ شمالی ہند کی ریاستوں کی طرح تلنگانہ میں سنگھ پریوار کا فرقہ وارانہ ایجنڈہ کامیاب نہ ہوسکے۔ مسلمانوں میں شعور بیداری کیلئے مسلم جماعتوں، تنظیموں اور این جی اوز اور جہد کاروں کو متحرک ہونا پڑیگا۔ انتخابات بھلے ہی دیڑھ ماہ بعد ہیں لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر ضلع میں اقلیتی رائے دہندوں میں شعور بیداری مہم کے ذریعہ ووٹنگ فیصد میں اضافہ اور مضبوط سیکولر پارٹی کے حق میں رائے دہی کی ترغیب دی جائے۔ مسلمانوں کی ایسی جماعتیں اور تنظیمیں جو اپنی مذہبی شناخت رکھتی ہیں انہیں بھی اپنی ملی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے فرقہ پرست طاقتوں کے بڑھتے قدم روکنے میں اہم رول ادا کرنا چاہیئے۔1