تھریسامے عدم اعتماد کے ووٹ میں شکست سے بچ گئیں

,

   

تحریک کیخلاف 325 ووٹ اور 306 نے تائید کی، عوامی خواہش کا احترام ،اپوزیشن اور عہدیداروں سے ملاقاتیں جاری

لندن ۔ 17 جنوری (سیاست ڈاٹ کام) وزیراعظم برطانیہ تھریسامے کو تحریک عدم اعتماد میں دوسری شکست کی شرمناک صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ قبل ازیں بریگزیٹ شکست نے ان کے حوصلے ویسے بھی بہت پست کردیئے تھے۔ انہوں نے اپوزیشن پارٹیوں سے خواہش کی ہیکہ وہ بریگزیٹ کے نئے منصوبہ پر ایکساتھ مل کر کام کریں۔ ایم پیز نے یوروپی یونین سے برطانیہ کے اخراج کے ووٹ کو بری طرح مسترد کردیا تھا۔ کہا جارہا ہیکہ گذشتہ 26 سالوں کے دوران تھریسامے ایسی پہلی برطانوی وزیراعظم ہیں جنہوں نے پارلیمنٹ میں تحریک عدم اعتماد میں کامیابی حاصل کی۔ تھریساکی تائید میں 325 ووٹس پڑے جبکہ مخالفت میں 306۔ لہٰذا صرف 19 ووٹوں سے ان کی کامیابی کو شاندار نہیں کہا جاسکتا تاہم کامیابی تو پھر کامیابی ہی ہوتی ہے۔ اس موقع پر ڈاؤننگ اسٹریٹ (وزیراعظم کی سرکاری رہائش گاہ) کے باہر 62 سالہ قائد نے پارلیمنٹ میں تحریک عدم اعتماد میں کامیابی کا خصوصی تذکرہ کیا۔ ان کے چہرے سے اطمینان اور خوشی جھلک رہی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اس مرحلہ کے بعد ہم بریگزیٹ کی جانب پیشرفت پر توجہ مرکوز کریں گے۔ یاد رہیکہ تھریسامے نے وعدہ کیا تھا کہ پیر کے روز جب وہ پارلیمنٹ میں آئیں گی تو بریگزیٹ کی ایک متبادل حکمت علی کے ساتھ آئیں گی جسے اپوزیشن کے ساتھ بات چیت کے ذریعہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ برطانوی عوام ہم سے توقع کرتے ہیں کہ انہیں (عوام) جو مسائل درپیش ہیں ہم ان کی یکسوئی کی جانب زائد توجہ دیں۔

لہٰذا اب وقت آ گیا ہیکہ ’’شخصی دلچسپی‘‘ کو ایک جانب رکھ دیا جائے اور عوام کی فلاح و بہبود کے بارے میں سوچا جائے۔ لہٰذا میں تمام ایم پیز سے خواہش کرتی ہوں کہ وہ یکجا ہوکر صرف وہی کام کریں جو عوام کی بھالائی کیلئے ہو۔ انہوں نے کہا کہ برطانوی عوام کی خواہش کا احترام کرنا ضروری ہے۔ اگر وہ چاہتے ہیں کہ یوروپی یونین سے برطانیہ نکل جائے تو ایسا ہی کرنا پڑے گا۔ لہٰذا میرا بھی یہی فرض ہے۔ انہوں نے عدم اعتماد کے ووٹ میںکامیابی حاصل کرنے کے بعد ایک ٹیلیویژن انٹرویو کے دوران یہ بات کہی۔ انہوں نے تمام پارٹیوں کے قائدین کو ان سے فرداً فرداً ملاقات کرنے مدعو کیا تاہم انہیں یہ ہدایت بھی کی وہ صرف تعمیری مقاصد کے ساتھ ہی ان سے ملاقات کریں۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے ایم پیز سے تعمیری طرز کی ملاقاتیں کی ہیں اور آئندہ بھی کرتی رہیں گی اور ساتھ ہی ساتھ آنے والے دنوں میں سرکاری عہدیداروں سے ملاقات بھی ان کے پروگرام میں شامل ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ایک بار پھر ضروری ہیکہ بریگزیٹ معاہدہ جو لندن اور بروسلز کے درمیان معلق تھا، کو 202 کے مقابلہ 432 ووٹوں سے مسترد کردیا گیا تھا یعنی 230 ووٹوں کی اکثریت کے ساتھ جو آج کے اس عصری دور میں کسی بھی برطانوی وزیراعظم کی بدترین شکست ہے۔