یوکرین سے ہمدردی … غزہ پر خاموشی
مودی کا جانشین کون … بی جے پی میں سناٹا
رشیدالدین
’’قول اور فعل میں تضاد‘‘ انسان دوسروں کو درس دے لیکن خود اس پر عمل نہ کریں تو سماج کی نظروں میں لااعتبار اور ناقابل بھروسہ کہلاتا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی کیلئے قول اور فعل میں تضاد روز کا معمول بن چکا ہے ۔ اندرون ملک کو یا پھر بیرون ملک مودی اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے سے شرماتے نہیں ہیں۔ زیادہ جھوٹ بولنے والے شخص کو کبھی نہ کبھی اپنی غلطی کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب وہ خود اپنے لوگوں میں شرمندہ ہوتا ہے لیکن یہاں تو مودی کی بے حسی دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ نریندر مودی کی اس حالت پر عوام روئیں یا ہنسیں اس کا فیصلہ شائد ممکن نہیں۔ گزشتہ 10 برسوں میں نریندر مودی نے جھوٹے وعدوں اور دعوؤں کے ذریعہ عوام کو دن کے اجالے میں بے وقوف بنادیا اور کسی طرح تیسری بار اقتدار حاصل کرلیا۔ عوام بھلے ہی مہنگائی ، بیروزگاری اور پسماندگی کا شکار کیوں نہ ہوں لیکن نریندر مودی ہتھیلی میں جنت دکھانے کے فن سے بخوبی واقف ہیں۔ دنیا میں جھوٹ کو سچائی کی طرح پیش کرنے کیلئے اگر کوئی ایوارڈ ہوتا تو نریندر مودی سے زیادہ حقدار کوئی نہ ہوتا۔ تیسری مرتبہ وزارت عظمیٰ کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد نریندر مودی نے روس اور آسٹریا کا دورہ کیا۔ ولادیمیر پوٹن سے ملاقات کے دوران نریندر مودی امن کے سفیر بن گئے اور جنگ کے خلاف درس دینے لگے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ مودی نے پوٹن سے کس زبان میں بات کی۔ پوٹن تو روسی زبان میں بات کرتے ہیں جس کا ترجمہ کیا جاتا ہے ۔ روس ، جاپان ، چین ، کوریا اور جرمنی جیسے ممالک کے سربراہ اپنی مقامی زبان میں گفتگو کرتے ہیں جس کا ترجمہ کرنے کیلئے عہدیدار موجود رہتا ہے یا رہتی ہے۔ پوٹن ہندی نہیں جانتے اور مودی روسی زبان سے نابلد ہیں۔ ایسے میں دونوں کا انحصار مترجم پر تھا ۔ روس کے صدر سے ملاقات کے دوران نریندر مودی کے خیالات ہندوستانی میڈیا میں جو شائع ہوئے وہ روسی میڈیا کی رپورٹ سے مختلف بتائے جاتے ہیں۔ دراصل وزارت خارجہ سرکاری ایجنسیوں کو جو پریس نوٹ جاری کرتا ہے ، اسی کو شائع کرنا اور ٹی وی پر دکھانے کیلئے میڈیا مجبور ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق مودی نے یوکرین سے روس کی جنگ کی مخالفت کی ۔ مودی کی پوٹن سے ملاقات کے دوران روس نے یوکرین پر حملہ کر کے معصوم بچوں کو نشانہ بنایا۔ اگر مودی نے یوکرین پر حملہ کی مخالفت کی ہوتی تو شائد ولادیمیر پوٹن انہیں روس کا سیویلین اعزاز پیش نہ کرتے ۔ ہوسکتا ہے کہ مودی نے جو کچھ کہا اسے پوٹن نے کچھ اور ہی سمجھا، لہذا خوش ہوکر مودی کو سیویلین اعزاز سے نوازا۔ مودی کی طاقت سے کون واقف نہیں۔ یوکرین سے ہندوستانیوں کے تخلیہ کے لئے انہوں نے جنگ کو رکوا دیا تھا ۔ اگر جنگ رکوانے کا دعویٰ درست ہوتا تو مودی کو روس کی فوج میں جبراً شامل کئے گئے ہندوستانیوں کی رہائی کیلئے درخواست اور اپیل کی نوبت نہ آتی۔ ہندوستانیوں کو دھوکہ سے روس نے یوکرین کے خلاف جنگ میں جھونک دیا ہے ۔ کئی ہندوستانیوں نے ویڈیو میسج کے ذریعہ روسی فوج میں شمولیت اور حملہ میں آگے رکھتے ہوئے جان جوکھم میں ڈالنے کی تفصیلات بیان کی ہیں لیکن نریندر مودی کو یہ مسئلہ جس قدر سختی اور شدت سے اٹھانا تھا ، اس میں ناکام رہے۔ مودی نے اپیل کی اور پوٹن نے رسمی تیقن دیا ، بس ڈرامہ ختم۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ نریندر مودی روس کے سیویلین اعزاز کو قبول کرنے کیلئے شرط رکھتے کہ تمام ہندوستانیوں کی رہائی عمل میں لائی جائے۔ جنگ روکنے کی طاقت رکھنے والے مودی کو ایک طیارہ کا انتظام کرتے ہوئے جنگ میں جبراً شامل ہندوستانیوں کو اپنے ساتھ وطن واپس لانے کا انتظام کرنا چاہئے تھا ۔ روسی فوج میں اپنی زندگی ہتھیلی پر رکھ کر یوکرینی افواج کا سامنا کرنے والے ہندوستانیوں اور ان کے گھر والوں کو مودی نے مایوس کردیا۔ عوام کا یہ احساس ہے کہ جنگ روکنے والے مودی اپنے وطنوں کو واپس نہ لاسکے۔ لوک سبھا انتخابی مہم کے دوران مودی نے مسلمانوں کو خوش کرنے کیلئے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے رمضان المبارک کے دوران غزہ پر حملے روکنے کیلئے اسرائیل کو ترغیب دی تھی۔ حالانکہ اسرائیل نے رمضان کے دوران بھی حملوں میں کوئی کمی نہیں کی۔ مودی کی طاقت کا پول اس وقت کھل گیا جب ان کی موجودگی میں پوٹن نے یوکرین میں ہاسپٹل پر بمباری کرتے ہوئے 40 سے زائد بچوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ دراصل اس کارروائی کے ذریعہ پوٹن نے مودی کے دعوؤں کی ہوا خارج کردی ہے۔ ہندوستانی زمین پر بیٹھ کر جنگ روکنے والے مودی روس میں پوٹن کے ساتھ بیٹھ کر بھی حملہ کو روک نہیں سکے۔ نریندر مودی نے جنگ میں بے قصور بچوں کی موت پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ ان کا دل بھر آتا ہے۔ یوکرین کے بچوں کی موت پر مودی تڑپ اٹھے لیکن غزہ میں فلسطینی بچوں کی درد ناک موت کا انہیں کوئی غم نہیں ہے۔ فلسطینیوں کے لئے کبھی ایسے الفاظ ادا نہیں کئے گئے۔ اتنا ہی نہیں ہندوستان میں گزشتہ 10 برسوں میں ماب لنچنگ کے ذریعہ مسلم نوجوانوں کو موت کی آغوش میں پہنچادیا گیا لیکن نریندر مودی نے مذمت توکجا ہمدردی کے دو الفاظ بھی ادا نہیں کئے۔ ظاہر ہے کہ گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کو جائز قرار دینے والوں سے ہمدردی کی امید کرنا فضول ہے۔ ماب لنچنگ ، گجرات فسادات کے مقابلہ کچھ بھی نہیں۔ دنیا کو امن اور عدم تشدد کا درس دین والے پہلے اپنا محاسبہ کریں کہ ہندوستان میں کس حد تک امن اور رواداری ہے۔
امریکہ نے نریندر مودی کی روس کے صدر سے ملاقات کا سخت نوٹ لیا ہے۔ امریکی حکومت نے واضح کردیا کہ بیک وقت دونوں ممالک سے بہتر تعلقات ممکن نہیں ہے۔ امریکہ نے اشارتاً مودی سے کہا ہے کہ وہ دو گھوڑوں کی سواری ترک کردیں۔ امریکہ نے ہندوستان میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے، فرقہ پرستی اور عدم رواداری کے بڑھتے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ دراصل خارجہ پالیسی میں ہندوستان اکثر ناکام ثابت ہورہا ہے۔ امریکہ سے تعلقات بہتر بنانے کیلئے نریندر مودی اس قدر آگے بڑھ چکے تھے کہ انہوں نے گزشتہ صدارتی الیکشن میں ڈونالڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم میں حصہ لیا تھا۔ امریکہ اور روس کے مفادات کی بیک وقت تکمیل ہندوستان کے بس کی بات نہیں۔ اگر ہندوستان کا جھکاؤ روس کی طرف بڑھتا ہے تو امریکہ سے دوری اور اختلافات کا خدشہ برقرار رہے گا۔ دوسری طرف لوک سبھا نتائج کے بعد سے سنگھ پریوار اور آر ایس ایس میں سناٹا دکھائی دے رہا ہے۔ امیت شاہ جو حکومت میں نمبر 2 پوزیشن رکھتے تھے، وہ ان دنوں خاموش دکھائی دے رہے ہیں۔ امیت شاہ سے زیادہ سرگرم وزیردفاع راجناتھ سنگھ ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ انتخابی حکمت عملی کے معاملہ میں مودی نے امیت شاہ پر مکمل بھروسہ کیا تھا لیکن نتائج میں بی جے پی کو اکثریت سے محروم ہونا پڑا ۔ 300 سے زائد نشستوں والی بی جے پی 240 پر سمٹ کر رہ گئی اور تلگو دیشم و جنتا دل یونائٹیڈ کی بیساکھیوں پر حکومت قائم کی گئی۔ بی جے پی قائدین کی مانیں تو نریندر مودی اور امیت شاہ میں دوریاں پیدا ہوچکی ہیں۔ نریندر مودی کو 400 پار کی امید تھی لیکن عوام نے انڈیا الائنس کی سرپرستی کی ہے۔ سیاسی حلقوں میں یہ بحث جاری ہے کہ مودی کا جانشین کون ؟ امیت شاہ یا راجناتھ سنگھ ۔ بی جے پی میں گزشتہ 10 برسوں کے دوران دوسری صف کو تیار نہیں کیا گیا۔ نریندر مودی نے 10 برسوں تک ون میان شو چلایا اور اب وہ اپنی طبعی عمر کو پہنچ چکے ہیں۔ نریندر مودی نے خود بھی اپنے جانشین کو تیار نہیں کیا ہے کیونکہ انہیں شائد 20 برسوں تک وزارت عظمیٰ پر فائز رہنے کا یقین ہے۔ لوک سبھا نتائج میں بی جے پی کی نشستوں میں کمی کے بعد نریندر مودی کے جارحانہ تیور ختم ہوگئے اور ان کی باڈی لینگویج انتہائی کمزور دکھائی دے رہی ہے۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار دونوں کے حوصلے نتائج سے پست ہوچکے ہیں۔ ایک طرف حلیف جماعتوں کی این ڈی اے میں برقراری کی کوئی ضمانت نہیں تو دوسری طرف سنگھ پریوار اور بی جے پی کے اندر مخالف مودی آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔ قائدین کا کہنا ہے کہ مودی میجک کمزور ہوچکا ہے اور بی جے پی کیلئے جاریہ میعاد آخری ثابت ہوگی۔ آر ایس ایس نے نریندر مودی کے غرور اور تکبر کے نتیجہ میں شکست کا اعتراف کرلیا ہے ۔ نتائج کے بعد بی جے پی اور اس کے قائدین بہت کچھ بھول چکے ہیں۔ انتخابی مہم میں ہر طرف جئے شری رام کا نعرہ گونجتا رہا لیکن فیض آباد سے شکست کے بعد بی جے پی اس نعرہ کو بھول چکی ہے۔ رام مندر کی سرزمین فیض آباد سے بی جے پی کی شکست کو لاڈ رام کی ناراضگی کہا جارہا ہے۔ الیکشن میں بھگوان بی جے پی سے ناراض تھے اور الیکشن کے بعد ان کے بھکت ناراض دکھائی دے رہے ہیں ۔ اتنا ہی نہیں اکثریت سے محرومی نے ہندو راشٹر، یونیفارم سیول کوڈ ، این آر سی اور این پی ا ے جیسے متنازعہ مسائل کو بھی بھلادیا ہے۔ پروفیسر وسیم بریلوی کا یہ شعر نریندر مودی کی حالت پر صادق آتا ہے ؎
جا دکھا دنیا کو مجھ کو کیا دکھاتا ہے غرور
سمندر ہے تو ہو میں تو مگر پیاسا نہیں