سید جمشید احمد بلقی
حیدرآباد، ہندوستان کا بڑی تیزی سے بڑھتا ریئل اسٹیٹ بازار ہے۔ ملک کی خراب معاشی حالت اور معیشت کے روبہ زوال کے ہونے کے رجحان کے باوجود حیدرآباد کے ریئل اسٹیٹ مارکٹ میں زیادہ انحطاط نہیں دیکھا گیا۔ حد تو یہ ہے کہ شہر میں ریئل اسٹیٹ مارکٹ لاک ڈاون کے اثرات سے بھی بہ آسانی باہر نکل آیا۔ جہاں تک حکومت تلنگانہ کا سوال ہے حکومت نے شہر اور شہر کے اطراف و اکناف بنیادی ترقی کے غیر معمولی منصوبہ بندی کی ہے اور ان ترقیاتی پراجکٹس کو صرف ہائی ٹیک سٹی گچی باؤلی کی راہداری تک ہی محدود رکھنا نہیں چاہتی۔ حکومت کی اس منصوبہ بندی کا اثر یقینا شہر بھر میں ریئل اسٹیٹ کے شعبہ پر ضرور پڑے گا۔ شہر اور اطراف و اکناف میں ریئل اسٹیٹ کی ترقی اور نمو سے ایسے لوگ فوائد حاصل کرنے کے لئے تیار ہیں جو ذاتی اراضیات اور عمارتیں رکھتے ہیں۔ ہم نے شہر میں اراضیات خریدنے، ان پر عمارتیں تعمیر کرنے پر توجہ مرکوز کردی ہے لیکن کیا کبھی ہم نے سوچا کہ اراضی اور عمارت کی فروخت پر ہمیں انکم ٹیکس کی کن لوازمات کو پورا کرنا ہوتا ہے یعنی جائیداد کی فروخت پر بھی انکم ٹیکس عائد ہوتا ہے۔
انکم ٹیکس قانون 1961 کے مطابق کوئی بھی اراضی بشمول زرعی اراضی یا عمارت جو کسی بھی بلدی حدود میں واقع ہو اسے Capital Asset (اثاثۂ سرمایہ) کہا جاتا ہے جبکہ ان کے فروخت سے جو منافع حاصل ہوتا ہے اسے کیپٹل گین ٹیکس کہا جاتا ہے اور یہ 20 فیصد کے حساب سے قابل ادا ہوگا۔ اگر کوئی شخص اراضی اور عمارت خریدتا ہے اور انہیں خریدنے کے 36 ماہ بعد فروخت کرتا ہے تب اسے فروخت سے حاصل ہونے والے فائدہ پر 20 فیصد کیپٹل گین ٹیکس ادا کرنا ہوتا ہے۔ جہاں تک اراضی اور عمارت کے فروخت پر حاصل ہونے والے منافع کا سوال ہے اس کا حساب کتاب حقیقی قدرِ فروخت یا سرکاری قدر (ریٹ کارڈ کے مطابق) کو ملحوظ رکھتے ہوئے کیا جاتا ہے۔ جہاں کہیں یہ قدر زیادہ ہے اور کم تر قدر فروخت دکھانے کا کوئی موقع نہیں ہے جیسے کہ سرکاری قدر یا سرکاری قیمت، اقل ترین قیمت کو انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ اقل قدرِ فروخت تصورکرتا ہے۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم اس طرح کے رقمی لین دین پر انکم ٹیکس کیسے بچائیں؟
قانون انکم ٹیکس 1961 کے سکشن 55F کے مطابق Capital Assetکی فروخت پر حاصل ہونے والا کیپٹل گین اس صورت میں 20 فیصد ٹیکس سے مستثنیٰ ہو جائے گا اگر مکمل قدرِ فروخت نئی اراضی اور عمارت کی تعمیر پر خرچ کی جاتی ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اکثر یہی دیکھا گیا ہیکہ لوگ ریئل اسٹیٹ کا لین دین نقد رقم میں کرتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں یہ خوف ہوتا ہے کہ اگر وہ یہ رقمی لین دین بینک کے ذریعہ کریں گے تو انہیں انکم ٹیکس مسئلہ کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے لیکن انہیں یہ سمجھنا چاہئے کہ ان کے رقمی لین دین کے بارے میں معلومات کا رجسٹریشن ڈپارٹمنٹ، انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ سے روزانہ کی بنیاد پر تبادلہ کرتا ہے اور ان معلومات کا تبادلہ دونوں محکمے PAN نمبرات کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ 20 ہزار سے زائد تمام رقمی لین دین محدود ہے اور صد فیصد جرمانہ کا فروخت کنندہ پر اطلاق ہوگا اور رقمی لین دین کے بارے میں محکمہ ٹیکس کو رپورٹ کیا جائے گا۔ فی الوقت انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ جون 2015 سے لے کر دسمبر 2018 تک کئے گئے تمام رجسٹریشنس کا جائزہ لے رہا ہے اور اس کے لئے وہ رجسٹریشن ریکارڈس کی توثیق و تصدیق کررہا ہے اور پھر ان تمام افراد کو نوٹسیں روانہ کررہا ہے جنہوں نے 20 ہزار سے زائد کی رقم پر ریئل اسٹیٹ فروخت کیا ہو۔ انکم ٹیکس ایکٹ 1961 کسی بھی شخص کو ٹیکس منصوبہ بندی کی اجازت دیتا ہے اور اس کے لئے کئی امکانات بھی فراہم کرتا ہے لیکن انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ ٹیکس چوری کے خلاف سخت کارروائی کرتا ہے اور ان حالات میں آپ کی صحیح سوچ و فکر آپ کو ٹیکس چوری کے نتائج سے بچائے گی اور آپ ٹیکس بچت پالیسیوں کے فوائد سے مستفید ہوں گے لیکن جو لوگ صحیح سوچ و فکر رکھتے ہیں ان کی تعداد بہت کم ہے اور اس کی وجہ یہ نہیں کہ اکثر لوگ ٹیکس بچانا چاہتے ہیں بلکہ انہیں ٹیکس پلاننگ کے بارے میں کوئی علم نہیں ہوتا، یعنی ٹیکس منصوبہ بندی سے متعلق ان میں معلومات کا فقدان پایا جاتا ہے۔